فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضہ کا بڑھتا دائرہ: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

یوں تو پورا اسرائیل ہی فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضہ کے ذریعہ 1948 میں وجود پذیر ہوا اور باقی فلسطینی اور شامی اراضی پر 1967 کی جنگ میں قبضہ کیا گیا اور مذکورہ اراضی اب تک اسرائیل کے قبضہ میں باقی ہے۔ فلسطینیوں کی بیشتر آبادی ویسٹ بینک اور غزہ کی چھوٹی سی پٹی میں سمٹی ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ غزہ پر ایک دہائی سے زیادہ مدت سے اسرائیل نے حصار قائم کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی زندگی سخت اذیت میں گزرتی ہے اور اسرائیل کی اجازت کے بغیر نہ کوئی چیز وہاں داخل ہوسکتی ہے اور نہ وہاں سے کوئی چیزباہر جا سکتی ہے۔ وہ صحیح معنی میں ایک کھلا ہوا جیل ہے، جہاں فلسطینیوں کی خوراک کی مقدار سے لے کر صحت و تعلیم اور روزگار تک کے تمام معاملوں کو اسرائیل کنٹرول کرتا ہے، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی نفسیاتی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کی ہزار اپیلوں کے باوجود اسرائیل نے اس حصار کو اب تک ختم نہیں کیا ہے، جیساکہ صہیونی ریاست کی عادت بن چکی ہے کہ وہ نہ تو اقوام متحدہ کے ریزولیوشنز پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی حقوق انسانی تنظیموں کی رپورٹوں کو نافذ کرتا ہے۔ابھی گزشتہ ہفتہ کی بات ہے کہ غزہ کے بچوں نے احتجاج کرکے مطالبہ کیا کہ اس حصار کو ختم کیا جائے ورنہ ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے، لیکن ان باتوں سے اسرائیل کی انسانیت زندہ نہیں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی سیکورٹی کو لاحق خطرہ کا بہانہ بناکر جب تب غزہ پر غیربرابری کی جنگ تھوپ دی جاتی ہے اور وہاں کے انسانوں اور انسانی زندگی گزارنے کے لئے مطلوب وسائل کو مہلک ترین ہتھیاروں سے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ بچوں، عورتوں اور مردوں کو اپنی مرضی کے مطابق گرفتار کرنا اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کردینا اور ان کی کاشت کو تباہ کرکے ان کی زمینوں پر قابض ہونا یہ سب روز مرہ کا معاملہ بن چکا ہے۔ لیکن آج جس مسئلہ پر روشنی ڈالنا مقصود ہے اس کا تعلق ان اسرائیلی آبادکاری کی کوششوں سے ہے، جو فلسطینی زمینوں پر کی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی نئی حکومت کی باگ ڈور جب سے سنبھالی ہے، تب سے لے کر اب تک فلسطینی زمینوں پر قابض ہوکر صہیونی بستیاں آباد کرنے کا سلسلہ بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ جو رپورٹیں میڈیا میں مسلسل آ رہی ہیں، ان کے مطابق 2012 کے بعد پہلی بار اس سال اتنی تیزی کے ساتھ صہیونیوں کو فلسطینی اراضی پر بسانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں آبادکاری کے خلاف سرگرم عمل بائیں بازو کی تنظیم Peace Now کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک 12 ہزار 885 آبادکاری یونٹ ویسٹ بینک میں بنانے کا پلان نتن یاہو کی سرکار نے تیار کیا ہے۔ اسی تنظیم کی رپورٹ میں مزید یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ایک ہزار 289 یونٹ اضافی طور پر بنانے کے لئے ٹنڈر لانچ کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے صرف اس سال جتنی یونٹیں بنانے کا انتظام کیا گیا اس کی تعداد چودہ ہزار 44 یونٹ ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ قدس شہر کی یہودی آبادکاریوں پر نظر رکھنے والی بائیں بازو کی ایک دوسری تنظیم ‘عیر عیم‘ (لوگوں کا شہر) نے کہا ہے کہ اسرائیلی اتھارٹی مشرقی قدس میں سات ہزار 82 صہیونی آباد کاری یونٹ بنانے کے پلان پر بحث کر رہی ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب کہ اسرائیل اسی سال کم سے کم دو بار یہ وعدہ کر چکا ہے کہ وہ فلسطینی زمینوں پر صہیونی بستیاں نہیں بسائے گا۔ پہلی بار 26 فروری کو یہ وعدہ کیا گیا تھا، جب اردن کے شہر عقبہ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک میٹنگ منعقد ہوئی تھی، جس میں امریکہ، مصر اور اردن کے نمائندوں نے حصہ لیا تھا۔ اس میٹنگ کا بنیادی مقصد ہی اسرائیلی آبادکاری کو روکنا تھا۔ اس میٹنگ کے اختتام کے بعد ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں نے مشترکہ طور پر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بات کا التزام کریں گے کہ یک طرفہ پر کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ اس میں خاص طور سے اسرائیل نے وعدہ کیا تھا کہ چار مہینے تک کوئی آبادکاری یونٹ قائم نہیں کی جائے گی اور کم سے کم چھہ مہینے تک منظم یہودی بستیاں نہیں بسائی جائیں گی۔ اس میٹنگ کے بعد ایک مزید میٹنگ کا انعقاد 19 مارچ کو مصر کے شہر شرم الشیخ کے اندر عمل میں آیا۔ وہاں بھی اسرائیل نے اسی قسم کا معاہدہ کیا کہ صہیونی بستیاں فلسطینی زمینوں پر نہیں بسائی جائیں گی۔ لیکن زمینی حقائق اسرائیل کے ان وعدوں کے بالکل برعکس ہیں۔ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت میں اسرائیلی آبادکاری کا کام سب سے تیزی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی آبادکاری کے معاملوں پر گہری نظر رکھنے والے فلسطینی ماہر خلیل تکفجی نے ترکی نیوز ایجنسی انادولو سے بات کرتے ہوئے جو کہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی سرزمینوں پر یہودی بستیاں بسانے کے کام کو سرے سے کبھی روکا ہی نہیں۔ تکفجی کہتے ہیں کہ اگر آپ ویسٹ بینک جائیں تو پائیں گے کہ اسرائیلی ٹرالیاں شب و روز کام میں لگی ہوئی ہیں اور زمین کی حقیقی صورتحال کو بدل رہی ہیں اور نئی نئی صہیونی بستیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ تکفجی کے مطابق اسرائیل بین الاقوامی اور مقامی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے صہیونی ایجنڈہ کو تیزی سے نافذ کر رہا ہے۔ وہ صہیونی ایجنڈہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنا دیا جائے۔ اسرائیل کے خطہ کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ناقابلِ عمل ہے اور اسی لئے اکثر اسرائیلی قائدین یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فلسطین کو کسی دوسری جگہ قائم کیا جائے۔ گویا فلسطینی کوئی ایسی جماعت ہے، جس کا کوئی تاریخی وجود نہ ہو اور اسے آسانی کے ساتھ بے دخل کیا جا سکتا ہو۔ البتہ اسرائیل نے ویسٹ بینک اور قدس شہر کے مشرقی اور مغربی دونوں حصوں میں صہیونی آبادیاں اس طرح سے ہی قائم کی ہیں کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قائم کرنا ممکن نہ ہوسکے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ویسٹ بینک میں جو یہودی بسے ہوئے ہیں ان کی آبادی 5لاکھ اور 6 ہزار ہے، جب کہ مشرقی قدس کے اندر دو لاکھ تیس ہزار یہودی بستے ہیں۔ یہودی نقطۂ نظر کے مطابق ان یہودی بستیوں سے ان کا انخلاء نسل کشی کے دائرہ میں آتا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان زمینوں پر آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن امر ہے۔ ان فلسطینی زمینوں پر صرف یہودی بستیاں ہی نہیں قائم کی گئی ہیں، بلکہ بعض اسرائیلی وزارتیں، پل، سرنگیں اور ہلکی ریلوے لائنیں بھی بچھائی گئی ہیں۔ اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ قدس شہر کے مشرقی اور مغربی حصوں کو اس طرح ملا دیا جائے کہ قدس ناقابل تقسیم ہوجائے اور اس طرح قدس عظیم اسرائیل کا دارالسلطنت بن جائے۔ اسرائیل نے آبادکاری کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کررکھا ہے اور اس کو اسرائیلی وزیر خزانہ اور وزیر دفاع کی نگرانی میں شدت کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے۔ وزیر کے شدتِ عمل کو زیادہ اچھے ڈھنگ سے تب سمجھا جا سکتا ہے، جب قارئین اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ وزیر خزانہ خود ایک آباد کار شخص ہے اور فلسطینی زمینوں پر بسی ناجائز یہودی بستیوں کا باشندہ ہے۔ اب ایسی صورتحال میں بھی اگر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس اہم قضیہ کے تحت ان کا لگاؤ کتنا باقی رہ گیا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS