عراق میں بڑھتا سیاسی تعطل اور ایران کے سمٹتے اثرات

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

امریکی سامراج نے جب 2003 میں سابق عراقی صدر صدام حسین کو قوت کے زور سے ہٹایا تو نعرہ یہ تھا کہ یہاں جمہوریت کو بحال کیا جائے گا تاکہ عراقی عوام کو آزادی اور اقتصادی ترقی نصیب ہو سکے، لیکن امریکہ کی زہریلی پالیسیوں کے نتیجہ میں تقریباً دو دہائی کی طویل مدت گزرنے اور لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں تباہ ہونے کے باوجود بھی وہاں جمہوریت کے قیام کی امیدیں اسی طرح معدوم ہیں جس طرح ان فرضی مہلک اور تباہ کن ہتھیار کا وجود جن کو بنیاد بناکر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے قدرتی ذرائع سے مالا مال اس ملک کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسلم دنیا کو تہس نہس کرنے اور مغربی بالادستی کے فلسفہ کے تحت اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا وہ جدید مغربی استعماری جنون ہی تھا جس نے یہ گوارہ نہیں کیا تھا کہ عراق کے مسائل کو سلجھانے کا حق اسی طرح صرف عراقیوں کے پاس ہی رہے جس طرح امریکہ یا کسی بھی مغربی ملک کے باشندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے نظام سیاست کو اختیار کرے اور اپنی مرضی اور ضرورتوں کے مطابق قائدین کا انتخاب کرے۔ جمہوریت کو اگر مشرق وسطی میں پھلنا پھولنا ہوگا تو اس کو عوام کی مرضی سے ایک طویل مدت تک سنجیدہ بحث و مباحثہ کے ذریعہ ہی ارتقاء کے مراحل طے کرنے ہوں گے۔ اگر مغربی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مشرق وسطی کے ممالک میں بسنے والوں پر ہزاروں ٹن کے بموں کی برسات اور ٹینکوں اور بندوقوں کی گھن گرج سے وہ جمہوریت قائم کر دے گی تو یہ صرف ایک واہمہ ہے جس کو حقیقت کا منہ دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس کی زندہ مثال آج کے وہ حالات ہیں جن سے مشرقی وسطیٰ کے وہ تمام ممالک گزر رہے ہیں جہاں مغربی جمہوریت کو قوت کے زور پر پلانٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی خواہ وہ لیبیا ہو یا تیونس یا پھر شام و عراق۔ ان دنوں لیبیا میں دوبارہ مسلح جماعتیں سرگرم ہوگئی ہیں اور محض ایک دن میں بیس سے زائد زندگیاں اس کی مسلح جھڑپوں کی نذر ہوگئی ہیں۔ وہاں دو سرکاریں کام کر رہی ہیں اور سیاسی استحکام کی ساری امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ وہیں دوسری طرف عراق کا مسئلہ روز بروز پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور سیاسی تعطل کے ماحول میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔ اکتوبر 2021 میں عام انتخابات عمل میں آئے تھے اور اس کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ کرپشن اور سیاسی بگاڑ کا دور ختم ہوگا اور ایک مستحکم سرکار وجود میں آئے گی جو اپنے ملک کے اقتصادی و سماجی مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی سے کوشاں ہوگی لیکن ایسا آج تک نہیں ہو سکا۔ 2003 کے بعد امریکی قبضہ کے خلاف کھڑے ہونے والے سب سے نمایاں چہرہ کے طور پر ابھرنے والے عراقی لیڈر مقتدی الصدر کی پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں۔ انہوں نے کئی مہینوں تک اس بات کی کوشش جاری رکھی کہ سنی اور کرد سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے عمل کو مکمل کر لیا جائے تاکہ بدحال عراقی عوام کے مفاد میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کا سلسلہ شروع ہو۔ لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں کیونکہ ان کے شیعہ مخالفین نے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے لئے حاضر ہونے سے منع کر دیا۔ شیعی لیڈران کے اس رویہ سے مایوس ہوکر مقتدی الصدر نے جون 2022 میں پارلیمنٹ کے اندر موجود اپنے 73 نمائندوں کو یہ حکم دے دیا کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں۔
بنیادی طور پر یہ سیاسی جھگڑا دو سیاسی جتھوں کے درمیان ہے۔ ایک جتھہ وہ ہے جس کو اطار تنسیقی یا Coalition Framework کہا جاتا ہے۔ اس جتھہ کی قیادت سابق عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کر رہے ہیں۔ اس جتھہ میں وہ شیعی ملیشیا جماعتیں بھی شامل ہیں جن کو داعش کے خلاف جنگ میں ایران نے استعمال کیا تھا اور اب سیاسی پارٹیوں کے طور پر سرگرم ہیں لیکن آج بھی ان کی اپنی مسلح جماعتیں ہیں جو عراق کے اندر سیاسی، سماجی اور اقتصادی عدم استحکام کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وہی نوری المالکی ہیں جن کی سنی مخالف پالیسیوں کے نتیجہ میں داعش جیسی خونخوار جماعت نے عراق و شام میں جنم لیا تھا اور اس کے سنگین نتائج سے پورا خطہ متاثر ہے۔ نوری المالکی ایران کا ایک وفاشعار عراقی لیڈر ہیں اور ان کو عراق میں ایرانی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے سب سے کارگر عنصر مانا جاتا ہے۔ دوسرے جتھہ کی قیادت مقتدی الصدر کر رہے ہیں جنہیں زبردست عوامی حمایت حاصل ہے۔ اسی عوامی حمایت کے بھروسہ انہوں نے اپنے منتخب لیڈران کو استعفیٰ کا حکم دیا تھا تاکہ سڑکوں پر عوامی احتجاجات کے ذریعہ کولیشن فریم ورک کے جتھہ کو حکومت سازی سے روک سکیں۔ اسی حکمت عملی پر کام کرتے ہوئے انہوں نے اپنے حامیوں کو سڑک پر اترنے کا حکم دے دیا جنہوں نے گرین زون میں واقع پارلیمنٹ کے سامنے اپنے خیمے نصب کر دیے اور پارلیمنٹ کے کام کاج کو پورے طور پر معطل کر دیا۔ صدری گروپ کا مطالبہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کیا جائے۔ از سر نو انتخابات کروائے جائیں اور دستور کو تبدیل کیا جائے۔ الیکشن کے لئے کولیشن فریم ورک بھی تیار ہو رہا ہے لیکن ان کی شرط یہ ہے کہ پہلے حکومت کی تشکیل عمل میں آ جائے اور پھر اس کی نگرانی میں انتخابات کر وائے جائیں۔ صدری گروپ کو یہ شرط منظور نہیں ہے۔ مقتدی الصدر نے عدالت سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی التجا کی تھی لیکن عدالت نے ایسا کرنے سے منع کر دیا جس کے نتیجہ میں مقتدی الصدر کے حامیوں نے عدالت کے سامنے بھی اپنے خیمے نصب کر دیئے اور تب تک احتجاج جاری رکھنے کی دھمکی دی جب تک پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر دیا جاتا، لیکن بعد میں مقتدی الصدر نے عدالت کے سامنے سے احتجاجی خیموں کو ہٹا لینے کا حکم صادر کر دیا کیونکہ اس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں اور جج صاحبان نے کام پر جانے سے منع کر دیا تھا۔ مقتدی الصدر نے ابھی گزشتہ کل اپنے موقف میں تھوڑی تبدیلی پیدا کی ہے اور پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے انتخابات کروانے کے بجائے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاسی لیڈران خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اپنے اپنے مناصب سے الگ ہوجائیں اور اس کے بعد گفتگو کے ذریعہ مستقبل کا لائحۂ عمل طے کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر مقتدی الصدر کولیشن فریم ورک کے جتھہ کو حکومت سازی کا موقع کیوں نہیں دینا چاہتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ایران سے قربت کے باوجود مقتدی الصدر عراقی معاملہ میں ضرورت سے زیادہ ایرانی مداخلت کو پسند نہیں کرتے ہیں جب کہ عراق کی سرزمین شام کے اندر ایرانی پالیسی کے نفاذ کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ شام میں سرگرم عمل شیعہ ملیشیاؤں کو ہتھیار پہنچانے کا کام عراق کے راستہ ہی انجام پاتا ہے۔ اسی لئے ایران مسلسل اس سیاسی تعطل کو ختم کروانے کی کوشش میں ہے البتہ اسے کامیابی نہیں ملی ہے۔ اگر عراق کے اندر ایران کا اثر و رسوخ مزید کمزور ہوتا ہے تو سعودی عرب کو بڑی تقویت ملے گی کیونکہ ایران کا یہ ازلی حریف حالیہ دنوں میں بغداد کے اندر اپنے قدم جمانے کی کوشش شدت سے کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو شام اور لبنان میں ایرانی ملیشیاؤں کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ سیاسی سطح پر کارگزار عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے دونوں سیاسی جتھوں کے درمیان بات چیت سے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مقتدی الصدر کے نمائندے اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ دوسری طرف کولیشن فریم ورک والی قیادت گرین زون کی پارلیمانی عمارت سے کہیں دور پارلیمنٹ قائم کرکے حکومت تشکیل دینے کی کوشش میں ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ صدری گروپ کے لوگ اپنے احتجاجات کی شدت میں اضافہ کر دیں گے اور ان کا مقابلہ مسلح شیعی ملیشیاؤں سے ہوگا جس کے نتیجہ میں ایک بار پھر خانہ جنگی کا ماحول قائم ہو سکتا ہے۔ شاید اسی پہلو کو دھیان میں رکھتے ہوئے مقتدی الصدر نے اس ویکنڈ پر جس ملین مارچ نکالنے کا اعلان کیا تھا اس کو ملتوی کر دیا ہے۔ اس پورے معاملہ میں امریکہ تماشائی بنا ہوا ہے اور ایران کے گھٹتے اثرات سے خوش ہو رہا ہے۔ لیکن طویل جنگ اور سیاسی عدم استحکام کی مار سے عام عراقی انسان بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جب تک اس کا کوئی مناسب حل نہیں نکل پاتا عراق کو سکون حاصل نہیں ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب عراق کو ہر قسم کی خارجی مداخلت سے پاک کیا جا سکے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS