محمد حنیف خان
ملک کی طاقت وہاں کے عوام کی صحت میں ہے،جس کے لیے مناسب تعداد میںماہر معالجین،اسپتال اور دوائیں ناگزیر ہیں۔مجموعی طور پر اس پورے سیکٹر کو میڈیکل سیکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔جس میں ڈاکٹر،پیرا میڈیکل،دوا سازی،طبی آلات انفرااسٹرکچر وغیرہ شامل ہیں۔ان سبھی اجزاء کو ملا کر طب کا شعبہ وجود میں آتا ہے۔ہندوستان میں اس وقت جو سب سے مہنگا شعبہ ہے، اس میں ایک یہ بھی ہے۔علاج و معالجہ کے فقدان میں ہزاروں افراد آج بھی اپنی قیمتی جانیں گنوا رہے ہیں۔دواؤں کی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے،کوئی کارگر ’پرائسنگ پالیسی‘ نہ ہونے کی وجہ سے دو روپے کی دوا کے پیکٹ پر چالیس روپے لکھا جاتا ہے اور میڈیکل اسٹور مریضوں سے یہ رقم وصول بھی کرتے ہیں،جس پر حکومت کے کان پر بھی جوں نہیں رینگتی ہے جو ہندوستان کے لیے کسی المیے سے کم نہیں ہے۔دوا کی خریداری سے قبل ڈاکٹروں کا مرحلہ آتا ہے جو یہ دوائیں لکھتے ہیں۔طب کے شعبہ میں سب سے زیادہ اہمیت ڈاکٹروں کی ہی ہے۔اگر ڈاکٹر ہی نہیں ہوں گے تو مرض کی تشخیص کرکے دوائیں کون لکھے گا؟اس لیے سب سے پہلے ڈاکٹر کی ہی تلاش ہوتی ہے، آبادی کے تناسب سے ہندوستان میں ڈاکٹروں کی آج بھی کمی ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ میڈیکل کے شعبے میں سیٹوں میں کمی اور تعلیم میں مہنگائی ہے۔
طبی تعلیم سے متعلق گفتگو یوکرین اور روس کے مابین جنگ کے ساتھ تیز ہوگئی ہے کیونکہ یوکرین میں ہزاروں ہندوستانی طلبا پھنسے ہوئے ہیں۔ ان ہی کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے ’من کی بات ‘ میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہمارے بچے چھوٹے چھوٹے ممالک میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے جاتے ہیں،جس سے ملک کا کروڑوں اربوں روپیہ بھی باہر جاتاہے،ایک ویبنار میں انہوں نے کہا کہ کیا پرائیویٹ سیکٹر میڈیکل کے شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتا ہے؟کیا ریاستی حکومتیں اس طرح کے کاموں کے لیے زمین دینے کی خاطرعمدہ پالیسیاں نہیں بناسکتی ہیں؟تاکہ ہم اچھے ڈاکٹر تیار کرسکیں؟جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ہی دنیا کی بھی ضرورتیں پوری کرسکتے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے ہندوستانی ذہن کی خوب تعریف بھی کی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیر اعظم کو یہ بات اس وقت ہی کیوں یاد آئی؟ اس سے قبل انہوں نے اس جانب توجہ کیوں نہیں دی؟دوسری بات انہوں نے ساری ذمہ داری پرائیویٹ سیکٹر اور ریاستی حکومتوں کے سر کیوں ڈال دی؟ انہوں نے مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں اور اس کے منصوبوں کے بارے میں کچھ کیوں نہیں بتایا؟کیا انہیں بات معلوم نہیں کہ ہندوستان میں آبادی کے تناسب سے نہ تو ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی میڈیکل کالج اوردیگر وسائل ہیں،اس لیے ہر سال کثیر تعداد میں طلبا یوروپی ممالک میڈیکل کی تعلیم کے لیے جاتے ہیں جہاں ہندوستان کے مقابلے بہت کم خرچ میں وہ ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔
ہندوستان میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے قومی سطح پر ’نیٹ‘ کا امتحان ہوتا ہے جس کے ذریعہ ان بچوں کو داخلہ ملتا ہے چونکہ آبادی اور تعلیم کے خواہش مند افراد کی تعداد کے تناسب میں سیٹیں نہیں ہیں، اس لیے امتحان دینے والوں میں سے محض دس فیصد طلبا کا ہی سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلہ ہوپاتا ہے۔ہندوستان میں ایم بی بی ایس کی محض 88ہزار سیٹیں ہیں،آیوش کے لیے 57ہزار،بی ڈی ایس کے لیے27498سیٹیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 2021 میں 16لاکھ طلبا نے ’نیٹ‘ کا امتحان دیا تھا،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 14.50لاکھ طلبا کو میڈیکل تعلیم کے لیے داخلہ نہیں مل سکا۔
روس اور یوکرین سمیت یوروپی ممالک کے میڈیکل کالجوں کی ڈگریوں کو نہ صرف میڈیکل کونسل آف انڈیا تسلیم کرتی ہے بلکہ ڈبلیو ایچ او بھی اسے منظوری دیتا ہے۔پوری دنیا میں ان کالجوں کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔خاص طور پر یوروپی یونین کی میڈیکل کونسل اور برطانیہ کی جنرل میڈیکل کونسل ان طلبا کو آگے بڑھانے اور ملازمت دینے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان ممالک کے میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کو انڈیا میں پریکٹس کے لیے الگ سے نیشنل بورڈ آف ایگزامینیشن کی جانب سے ہونے والے ایک امتحان ’فارین میڈیکل گریجویٹ ایگزام‘(ایف ایم جی ای) پاس کرنا ہوتا ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ان بچوں کو کس طرح کی تعلیم دی گئی ہے اور وہ یہاں رہنے بسنے والے شہریوں کے علاج و معالجہ کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔
اسٹڈی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2020 کے دوران ہندوستان اور دیگر ممالک سے یوکرین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا میں 42فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔محکمہ تعلیم و سائنس یوکرین کے مطابق اس وقت 18095 ہندوستانی طلبا ہیں جن میں سے 90فیصد طلبا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرین میں مقیم غیر ملکی طلبا میں سے 24فیصد ہندوستانی تھے۔یوروپ کے متعدد ممالک میں گریجویٹ،پوسٹ گریجویٹ اور میڈیکل کی تعلیم کے لیے ہندوستانی طلبا مقیم ہیں،جس کی سب سے بڑی وجہ وہاں فیس کم ہے اور تعلیم بھی معیاری ہے، اس کے مقابلے ہندوستان میں پرائیوٹ کالجوں میں فیس بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے وہ میڈیکل کالج جو غیر معروف ہیں وہ بھی یوکرین سمیت متعدد یوروپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے مقابلے بہت زیادہ فیس وصول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طلبا جو سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل نہیں کرپاتے اور پرائیویٹ کالجوں کی فیس اداکرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے ہیں مگر میڈیکل کی تعلیم میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ یوروپی ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں۔
دوسرے ممالک کے بہ نسبت یوکرین میں زیادہ ہندوستانی طلبا زیر تعلیم ہیں جس کی ایک بڑی وجہ وہاں بغیر انٹرنس کے میڈیکل کورس میں داخلہ مل جاتا ہے، دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یوکرین میں میڈیکل کی تعلیم انگریزی زبان میں دی جاتی ہے جبکہ دوسرے ممالک میںوہاں کی ملکی زبان میں یہ تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی طلبا کو زبان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے لیکن یوکرین میں ایسانہیں ہے۔اسی طرح فیس اور دیگر اخراجات کا معاملہ ہے۔اگر کوئی ہندوستانی طالب علم یوکرین میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو قیام و طعام اور فیس پر کل صرفہ تقریباً بیس سے تیس لاکھ روپے کا آتا ہے جبکہ ہندوستان میں سوا کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ کے درمیان یہی خرچ آتا ہے۔
وزیراعظم کی گفتگو سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سرکاری میڈیکل کالجوں کے قیام پر زیادہ زور دینے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کو ہی کیوں اس جانب متوجہ کر رہے ہیں جبکہ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ میڈیکل کی تعلیم کو اسی پرائیویٹ سیکٹر نے ہی مہنگا کیا ہے۔جن بچوں کو سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلہ نہیں مل پاتا ہے جہاں بہت کم خرچ میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے، وہی طلبا پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں جب جاتے ہیں تو ان کو ایک کروڑ روپے سے بھی زائد رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور جن کی استطاعت اس کی نہیں ہوتی ہے وہ بیرون ملک کا قصد کر لیتے ہیں جہاں ان کو سستی تعلیم مل جاتی ہے۔اگر ان بچوں کو دوسرے ممالک کم خرچ میں معیاری تعلیم دے سکتے ہیں تو کیا ہندوستان ان کو ایسی تعلیم نہیں دے سکتا ہے؟اگر دے سکتا ہے تو کیوں نہیں دے رہا اور اگر نہیں دے سکتا ہے تو اس کے اسباب و عوامل پر گفتگو ہونی چاہیے اور حکومت کو ان رکاوٹوں کو دور کر کے بچوں کو کم خرچ میں ڈاکٹر بنانا چاہیے تاکہ خود وزیراعظم نریندر مودی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔وزیراعظم کو پرائیویٹ سیکٹر کے بجائے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ میڈیکل کالج قائم کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ اس ضمن میں ان کو مؤثر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تاکہ ملک کے غریب عوام کو کم از کم ڈاکٹر تو مہیا ہو جائیں جو ان کا علاج کر سکیں۔
[email protected]