اودھیش کمار
پارلیمنٹ اس وقت پھر سیاست کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ حکمراں بی جے پی راہل گاندھی سے غیرممالک میں دیے گئے بیانات پر معافی مانگنے کے مطالبے پر بضد ہے تو دوسری طرف کانگریس اڈانی معاملے پر جے پی سی کی تشکیل کا مطالبہ کر رہی ہے۔ راہل اور کانگریس کی طرف سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ انہوں نے لندن میں ایسا کچھ نہیں کہا جس کے لیے معافی مانگنے کی ضرورت ہو۔ کانگریس کے ساتھ کئی اپوزیشن پارٹیاں بھی جے پی سی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ کہنا مشکل ہے کہ یہ سیاسی مورچہ بندی کیا موڑ لے گی۔ سوال ہے کہ کیا بجٹ سیشن کا دوسرا مرحلہ اسی مورچہ بندی میں ختم ہوجائے گا؟
راہل نے لندن میں جس طرح کے بیانات دیے کسی بھی جمہوری ملک کے لیے اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی ایسی تصویر پیش کی گویا یہاں پارلیمانی نظام کے تحت منتخب حکومت نہیں، بلکہ ایک مطلق العنان حکومت ہے جس نے آہستہ آہستہ تمام اداروں کو کنٹرول کرکے اپوزیشن کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ملک میں ایسی صورتحال نہیں کہ میڈیا آزادانہ طور پر خبریں اور آرا کی ترسیل کرسکے، مخالفین مخالفت درج کراسکیں۔ راہل اور کانگریس چاہے جتنا کہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے ہندوستان کی امیج خراب ہو، لیکن ہر غیرجانبدار ہندوستانی تسلیم کررہا ہے کہ غیرممالک کی زمین پر اس طرح کے بیانات سے ملک کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ راہل نے تو یہاں تک کہا کہ پارلیمنٹ میں بولنے پر ان کا مائک بند کردیا جاتا ہے۔ یہ لوک سبھا اسپیکر کی غیرجانبداری پر بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمنٹ کا مائک کسی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہوتا۔ راہل جب بھی پارلیمنٹ میں بولے، ان کی تقریر ملک نے لائیو سنی۔ صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر بولنے کے لیے ملے وقت کا استعمال انہوں نے مودی-اڈانی پر مرکوز تقریر میں کیا۔ وہ بھی پورے ملک نے سنی۔یہ الگ بات ہے کہ اسپیکر نے اسے آف دی ریکارڈ کردیا۔ یہ مائک بند کرنا نہیں ہوا۔ یہ تو ممکن نہیں کہ آپ کچھ بھی بولیں اور کوئی پارٹی اقتدار میں ہے، اس لیے آپ کی مخالفت نہ کرے۔ بہرحال، حکومت اور اپوزیشن، دونوں کے ہاتھوں سے اہم موقع نکل رہا ہے مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ حکومت راہل کے بیان کا نوٹس نہ لے اور وہ اڈانی ایشو پر پھر جو بولنا چاہتے ہیں، ان کو موقع دے۔ کانگریس اور اپوزیشن اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہنڈن برگ رپورٹ کو مذموم مقاصد کے ساتھ سامنے لایا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں وزیراعظم نریندر مودی یا حکومت کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے۔ اپوزیشن کو لگتا ہے کہ اڈانی کے ساتھ وزیر اعظم مودی کا تعلق جوڑ کر ان کی شبیہ کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ یقینا اس کے پیچھے آنے والے لوک سبھا انتخابات ہیں۔ تاہم2019سے پہلے کانگریس سمیت پورے اپوزیشن نے رافیل ایشو کو اٹھا کر وزیراعظم مودی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ راہل نے خود چوکیدار چور ہے تک کا نعرہ لگایا۔ یہ حکمت عملی اپوزیشن پر الٹی پڑی اور بی جے پی2014کے مقابلے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں واپس آئی۔ اپوزیشن کی اسٹرٹیجک سوچ یہی ہے کہ جب تک مودی کی شبیہ کمزور نہیں ہوگی،2024میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے کسی غیرملکی فرم کی رپورٹ کو ہی اپوزیشن نے سب سے بڑا ہتھیار بنا کر جے پی سی کے مطالبے کو لے کر پارلیمنٹ میں تعطل پیدا کر دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ جانے والے بھی بی جے پی مخالف ہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے دو ریٹائرڈ ججوں کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ قاعدے سے اگر اپوزیشن کو سپریم کورٹ پر اعتماد ہے تو اسے اس کی رپورٹ اور فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔سیبی بھی اس معاملے کی جانچ کر رہا ہے اور سپریم کورٹ بھی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بعد کیا الگ سے کسی طرح کی تحقیقات کی ضرورت رہ جاتی ہے؟ ویسے بھی جے پی سی صرف انہی معاملات میں تشکیل دی گئی ہے، جن میں الزامات براہ راست حکومت کے خلاف ہیں یا بدعنوانی کے الزامات میں، کسی نہ کسی بنیادی نقطہ نظر سے حکومت کی خامیوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ کہیں سے بھی مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتی۔
یہ دلیل مناسب نہیں لگتی کہ ایک کارپوریٹ ہاؤس پر الزام کے تعلق سے اس لیے جے پی سی کی تشکیل ہو کیوں کہ اپوزیشن مانتا ہے کہ وزیراعظم نے حد سے آگے جاکر اس کی مدد کی۔ لوک سبھا الیکشن اور اس کے پہلے اسمبلی انتخابات میں ممکنہ اپوزیشن کے پاس ایسا ایشو نہیں ہے، جس سے اسے لگے کہ واقعی عوام کے درمیان وزیراعظم مودی اور حکومت کی شان کمزور ہوجائے گی۔ اسی لیے ہنڈن برگ رپورٹ اور اڈانی بمقابلہ مودی کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ یہ سوچنا مضحکہ خیز ہوگا کہ اپوزیشن سیاسی مقاصد کے لیے اٹھائے گئے اپنے مطالبے پر قائم رہے اور حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ مودی کی قیادت میں ہم نے حکومت کو اپوزیشن کی جارحیت کے متوازی زیادہ جارحانہ ہوتے دیکھا ہے۔ ایسے مواقع بھی آئے ہیں جب پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کے حملوں کا جواب وزیر سے لے کر حکمراں جماعت کے ارکان پارلیمنٹ کے ذریعہ وجے چوک تک مارچ کرکے دیا گیا ہے۔ یہاں راہل نے لندن سے سیدھے سیدھے مودی کو دنیا کے مطلق العنان آمروں کے برابر قرار دے کر پورے ہندوستان میں ایک فاشسٹ حکومت کی تصویر پیش کی ہے۔ کوئی بھی حکومت اس طرح کا کلنک اپنے ماتھے پر نہیں لے سکتی۔ اس وجہ سے حکومت راہل کو اس ایشو پر یوں ہی نکلنے نہیں دے گی۔ کانگریس کے حکمت عملی سازوں کو لگتا ہے کہ راہل کا یہی رویہ اور تیور انہیں مودی کے متوازی سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر کے طور پر قائم کرے گا۔ پارلیمنٹ کے ایک کیا کئی اجلاس اس طرح کی سیاست کے بھنور میں پھنس سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ صورت حال افسوسناک ہے۔
آج بھی ملک کی دوسری سب سے بڑی پارٹی کے سرکردہ لیڈر ہونے کے ناطے راہل گاندھی کو زیادہ ذمہ دار اور بالغ ہونے اور اسی کے مطابق ملک اور بیرون ملک میں بیانات دینے کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کا دشمن نہیں، مدمقابل ہونا چاہیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستانی سیاست میں عام جماعتی مقابلہ کافی حد تک نفرت اور دشمنی میں بدل چکا ہے۔ خاص طور پر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں برداشت نہ کرنے کے رویے نے حالات کو مزید خراب کردیا ہے۔ آپ کسی کو اپنا دشمن سمجھیں، نفرت کریں اور توقع رکھیں کہ سامنے والا آپ کو جواب بھی نہ دے، یہ ممکن نہیں۔
rvr