افغانستان میں لڑکیوں کی عصری تعلیم کے دروازے بند

0

ایم اے کنول جعفری

اسلام میں تعلیم کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ آسمان سے نازل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت ہی پڑھنے کا حکم کرتی ہے۔ تعلیم ایک ایسا میزان ہے جس سے انسان اور حیوان میں فرق واضح ہوتا ہے۔علم کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے دُور ہوتے ہیں۔زندگی کے لازمی جز تعلیم کا حاصل کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلانا ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ علم دین اَﷲ کی رضا کا سبب،بخشش و نجات کا ذریعہ اور جنت میں داخلے کا راستہ ہے۔ کہا بھی گیا ہے کہ وہ شخص سب سے اچھا ہے،جو قرآن پاک سیکھے اور دوسروں کوسکھائے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں علم حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی قوم یا ملت کی آنے والی نسلوں کی مذہبی اورثقافتی تربیت کرنے اور اسے ایک مخصوص قومی اور ملی تہذیب و تمدن سے بہرہ ور کرنے میں خواتین نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عورت ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کی شکل میں اپنی ذات سے وابستہ ہر فرد پر کسی نہ کسی طرح لازمی اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام میں معاشرے کا اہم فرد بنانے کے لیے خاتون کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ کئی مسلم ممالک میں خواتین کی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ کافی تعداد میں لڑکیاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر ملک و قوم کی خدمات انجام دے رہی ہیں،تو20دسمبر2022کو افغانستان وزیر برائے تعلیم ندا محمد ندیم کی جانب سے سرکاری اور نجی اسکولوں کو دستخط شدہ مراسلہ جاری کرکے طالبات کی عصری تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
اگست 2021میں طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پورے ملک میں اسلامی اسکولوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ثانوی اسکولوں پر پابندی کی بنا پر لڑکیوں کا اسکول جانا بند ہو گیا ہے۔اُن کے سامنے تعلیم چھوڑنے یا پھر مدارس کا رُخ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ نو عمر طالبات دینی تعلیم کے لیے مدارس جانے پر مجبور تو ہیں ہی، کافی افسردہ بھی ہیں۔ان کی ریاضی،سائنس اور ادب کی تعلیم ختم ہوچکی ہے۔ والدین کی رائے ہے کہ بیٹیوں کو گھر میں خالی بیٹھنے کے بجائے مذہبی تعلیم کے تحت عربی اور قرآن پاک سیکھنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کابل اور قندھار کے تین مدرسوں کا دورہ کرنے کے بعد اساتذہ کے حوالے سے بتایا کہ وہاں پڑھنے والی طالبات کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے دوگنی ہوگئی ہے۔ بعض عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اﷲ اخوندزادہ اور ان کے مذہبی مشیروں کا اندرونی حلقہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اصل وجہ ملک کے اعلیٰ رہنما کے ذریعہ اسلامی امارت کی بنیاد شریعت کو قرار دینا ہے۔اس بابت اعلیٰ حکام نے لڑکیوں کے اسکول یا یونیورسٹی جانے پر لگائی پابندی کے کئی جواز پیش کرتے ہوئے مدارس میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کلاسیز اور اسلامی یونیفارم کی حمایت کی ہے۔ بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعطل کی بنیادی وجہ تعلیم ہی ہے،جو لڑکیوں اور خواتین کی آزادی کو ختم کررہی ہے۔ یہ قدم اُس صورت میں اُٹھایا گیا ہے،جب کوئی ملک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مدارس کی تعلیمی قدر شدید بحث کا شکار ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ بالغان کو فائدہ مند روزگار کے لیے ضروری ہنر فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ حالات کے پیش نظر جدید تعلیم کی سخت ضرورت ہے۔ عالم اسلام کو پستی سے بچانے کے لیے جدید تعلیم کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ کابل کے مضافات میں واقع مدرسے کو لڑکے اور لڑکیوں کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان رابطہ منقطع ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کلاسوں کے اوقات بھی مختلف رکھے گئے ہیں۔
حالانکہ طالبان تحریک کے سربراہ ہیبت اﷲ اخوندزادہ کے لڑکیوں کے لیے کالج اور یونیورسٹیوں کے دروازے بند کرنے کے فیصلے سے سب اتفاق نہیںکرتے۔ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے چھٹی جماعت سے اُوپر کی لڑکیوں کی تعلیم معطل کرنے کے معاملے کو عارضی قرار دیا ہے۔ 17مارچ 2023 کو علمائے کرام کے وفد کے ساتھ ملاقات میں سراج الدین حقانی نے کہا کہ تحریک اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسلام نے مردوخواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا ہے۔ کچھ وزرا نے سپریم لیڈر ہیبت اﷲ اخوندزادہ کو خط لکھ کر لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام پر لگی پابندی پر نظر ثانی کرنے کو کہا بھی تھا، لیکن انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا،’ اگر آپ ثابت کر دیں کہ اسلام 12برس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے،تو میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت دے دوں گا۔‘ دوسری جانب وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ اگر مارچ 2023 میں اگلے تعلیمی سال کے آغاز میں تعلیم کی واپسی، وزارتی اور عسکری تقرریوں اور برطرفیوں میں ہیبت اﷲ اخوندزادہ کی مداخلت کو روکنے کے معاملے میں کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا اور حکومت کے لیے شوریٰ کونسل کی تشکیل نہیں کی گئی،تو وہ طالبان سربراہ اور اپنے قریبی رہنماؤں پر کھلے عام تنقید کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ بتاتے چلیں کہ ہرات شہر میں خواتین کے لیے مخصوص دو شاپنگ مال کھول دیے گئے ہیں۔مالز میں دکاندار اور خریدار دونوں خواتین ہیں۔ ان شاپنگ مالز میں اہل خانہ کے بغیر مردوں کا داخلہ منع ہے۔ ملک میں جاری معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے مالز میں کاروبار شروع کرنے والی خواتین کا چھ مہینے کا کرایہ معاف کرنا قابل تحسین ہے،لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب اسلامی نظریہ سے 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کے سبب ان کی اسکول اور یونیورسٹی کی تعلیم پر قدغن لگا دیا گیا،تو پھر تمام عمر کی لڑکیوں اور عورتوں کے گھر سے باہر نکل کر مالز میں خرید و فروخت اورکام کرنے کو کس طرح جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ مدرسوں میں پڑھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کے رابطے میں آنے سے روکنے کے لیے ان کی کلاسیں اور اوقات تک علیحدہ رکھنے والی طالبانی حکومت کے ذریعہ خواتین کے لیے مخصوص مالز میں مردوں کواپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ جانے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ کیا اس سے مردوخواتین کے درمیان رابطہ کے امکان ختم ہوجائیں گے؟ واضح رہے کہ افغانستان میں دوبارہ برسراقتدار آنے والے طالبان نے خواتین کی تعلیم سمیت کئی معاملوں میں نرمی کا مظاہرہ کیا تھا، لیکن عالمی تنقید کے باوجود دوبارہ اسی انتہا پسندی کی طرف لوٹ گئے،جس کا مظاہرہ اپنے پہلے دور اقتدار میں 1996 سے 2001 کے دوران کیا گیاتھا۔ خواتین کو بہت سی سرکاری نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے یا انہیں گھر پر رہنے کے لیے کم تنخواہ دی جا رہی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم سمیت خواتین پر مختلف پابندیاں عائد کرنے پر عالمی برادری کی جانب سے طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ تعلیم نسواں کے ایشو پر طالبان سربراہ ہیبت اﷲ اخوندزادہ کے فیصلے کے خلاف آواز اُٹھنے لگی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتے طالبان کے حتمی فیصلے سے لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم کے دروازے پھر سے کھل پاتے ہیں یا نہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS