تشویشناک ہیں گلوبل ہنگر انڈیکس کے اعداد و شمار

0

عباس دھالیوال

ہندوستان ایک عظیم ملک ہے اس وقت ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتے ہیں۔ ہم سے دنیا بہت ساری توقعات وابستہ رکھتی ہے، لیکن پچھلے کچھ برسوں سے اگر دیکھا جائے تو جب بھی کوئی عالمی سطح کی تجزیاتی رپورٹ سامنے آتی ہے تو اس میں ہمارے ملک کی ناقص کارکردگی کے بارے میں کئی طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں ابھی حال ہی میں جو گلوبل ہنگر انڈیکس کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں بھی ملک کو گزشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے دراصل گزشتہ دنوں گلوبل ہنگر انڈیکس کی جانب سے جو تازہ رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے، اس کو اگر دیکھیں تو معاشی سست روی اور کووڈ بحران کے درمیان انڈیا میں بھوک اور غیر متوازن غذائیت کی صورتحال مزید خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انڈیا پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پچھڑ چکا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی سال 2021 کی رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک ہندوستان 116 ممالک میں 101 ویں نمبر پرآگیا ہے۔ اس معاملے میں ہم لوگ اپنے پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں، جبکہ گزشتہ سال یعنی 2020 میں ہمارا دیش 94 ویں نمبر پر تھا۔
ادھر دوسری طرف رپورٹ میں چین، برازیل اور کویت سمیت اٹھارہ ممالک پانچ سے کم کے جی ایچ آئی اسکور کے ساتھ سر فہرست رہے ہیں۔ پورٹ کے مطابق فہرست میں پڑوسی ممالک جیسے نیپال (76 واں)،بنگلہ دیش (76 واں)،میانمار (71 واں) اور پاکستان (92 واں) بھی بھوک کی وجہ سے پریشان کن پوزیشن میں ہیں۔ ان تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو کھانا فراہم کرنے میں ہندوستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دریں اثناسال 2020 میں،ہندوستان 107 ممالک میں سے 94 ویں نمبر پرتھا۔ اب یہ 116 ممالک میں سے 101 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ دیش کا جی ایچ آئی اسکور بھی گرا ہے۔ سال 2000 میں یہ 38.8 تھا جو 2012 اور 2021 کے درمیان 28.8 – 27.5 کے درمیان رہا۔ جی ایچ آئی اسکور کا حساب چار اشاریوں پر کیا جاتا ہے جن میں غذائیت کی کمی،بچوں کی شرح نمو اور بچوں کی اموات شامل ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ مختلف ممالک میں لوگوں کو کیسے اور کتنا کھانا ملتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انڈیکس ہر سال تازہ ترین اعداد و شمار کے ساتھ جاری کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر میں بھوک کے خلاف مختلف ممالک کی جانب سے جاری مہم کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو بھی منظر عام پر لایا جا تا ہے۔ اس اسکور کا تعین چار اشارات و امور کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ان میں غذائیت کی کمی، بچوں کا کمزور ہونا، بچے کے قد کا چھوٹا ہونا اور بچوں کی اموات کی شرح بھی شامل ہوتی ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ بلند جی ایچ آئی کا مطلب ہے کہ بھوک کا مسئلہ اس ملک میں زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی ملک کا اسکور کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں کی صورتحال کسی قدر بہتر ہے۔
مذکورہ رپورٹ آئرلینڈ کی امدادی ایجنسی کنسرن ورلڈ وائڈ اور جرمنی کی تنظیم ویلٹ ہنگر ہلفے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ رپورٹ میں انڈیا میں بھوک کی سطح کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ کووڈ وبا ہو سکتی ہے لیکن یہ صرف اس وبائی بحران تک محدود نہیں بلکہ ایک سماجی اور ساختی مسئلہ بھی ہے، جبکہ ایک تحقیقی نیوز رپورٹ میں دیہاتی اور قبائلی علاقوں میں بھوک اور غذائیت کے مسئلوں پر کام کرنے والی تنظیم ’رائز اگینسٹ ہنگر‘ کے سربراہ ڈولا موہاپاترا کا کہنا ہے کہ ’لوگ اس کی وجہ کووڈ اور اس کی وجہ سے لوگوں کے روایتی پیشے سے محروم ہونے کو سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ سطح کو تھوڑا بھی کھرچیں تو معلوم ہو گا کہ ہم اس مسئلے پر کئی برسوں سے جدوجہد کر رہے ہیں اور کئی برسوں سے اس کے اشارے مل رہے ہیں۔‘ ان کا مزید یہ کہنا ہے کہ ’لہٰذا یہ صرف وبائی مرض یا خشک سالی جیسی عارضی صورتحال کے بارے میں نہیں بلکہ کھانے کی غیر مساوی تقسیم اور رسائی کے مسائل بھی ہیں۔‘
جنوبی ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں غذائی قلت طویل عرصے سے عام ہے لیکن انڈیا میں بہت سے افریقی ممالک سے بھی بدتر صورتحال کی وجہ روایتی جنسی کردار، پیدائش کی بلند شرح اور غذائیت سے محروم بچوں اور ماؤں کی صحت، صفائی ستھرائی اور ناقص معیار کی خوراک جیسے مسائل ہیں۔موہاپاترا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں جاتے ہیں، جہاں پر بھوک کی شدت اور غذائیت کے مسئلوں کی شرح زیادہ ہے تو دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں کئی طرح کی مذہبی اور سماجی ممانعت ہیں جن کی وجہ سے وہ بہتر غذا سے محروم ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان دیہی علاقوں میں غذائیت سے بھرپور سبزیاں دستیاب ہیں لیکن لوگوں میں اْنھیں کھانے کا رواج نہیں۔ وہ گائیں پالتے ہیں لیکن اس کا دودھ نہیں پیتے بلکہ اسے فروخت کر دیتے ہیں۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ہنگر انڈیکس پر اثرانداز ہونے والا غذائیت کا مسئلہ مڈل کلاس میں بھی ہے بھلے ہی ان کی معاشی حالت بہتر کیوں نہ ہو۔وہ کہتے ہیں ’آپ کسی بھی گھر میں دیکھیں، یہاں تک کہ اپنے یا ہمارے گھر میں دیکھیں، ہم سبھی کی پلیٹس میں غذائیت کی زبردست کمی آئی ہے۔ جو ہم 20 سال پہلے کھاتے تھے وہ اب نہیں کھاتے ہیں۔‘ کل ملا کر مذکورہ انڈیکس میں جس طرح سے ہمارا دیش آئے سال اعداد و شمار والی فہرست میں پچھڑتا جا رہا ہے وہ یقیناً ہم سب لیے فکر مندی کا مقام ہے اور ساتھ مجموعی ملک کے لیے ایک عظیم لمحہ فکریہ ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS