اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ کانگریس ملک کی موجودہ سیاست سے مطابقت پیدا کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں پوری طاقت جھونکنے کے باوجود کانگریس نے 30سے زیادہ انتخابات ہارے ہیں۔ ابھی صرف دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ہی اس کی حکومت ہے۔بہت سی ریاستوں سے بھی اس کا مکمل صفایا ہوگیا۔اس کے درجنوں سینئر لیڈروں نے پارٹی چھوڑ دی ہے اورلوک سبھا و راجیہ سبھا میں اس کے ارکان کی تعداد کم ہوئی ہے۔پارٹی کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے باوجودملک کے حالات پر فکر مند ہے اور تحریک و جدوجہد کا راستہ ترک نہیں کیاہے۔پوری ثابت قدمی کے ساتھ حکومت کی خامیوں اور کمیوں کومسلسل بے نقاب کررہی ہے۔حالیہ دنوں نئی دہلی کے رام لیلامیدان میں مہنگائی کے خلاف ہلہ بول ریلی بھی اسی جدوجہد کا ایک حصہ تھی تو کل 7ستمبر سے شروع ہونے والی ’ بھارت جوڑو یاترا‘ کا مقصد بھی یہی بتایاگیا ہے۔150دنوںکی یہ بھارت جوڑو یاترا کنیا کماری سے شروع ہوکر کشمیر پر ختم ہوگی اور 150 دنوں کے اس سفر میں شامل تمام افراد روزانہ 6 سے 7 گھنٹے پیدل چلیں گے اور اس دوران وہ ملک بھر کے لوگوں سے رابطہ کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ملک کے موجودہ حالات میں مہنگائی کے خلاف ہلہ بول اور بھارت جوڑو یاتراجیسی سیاسی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ملک میںایک طرف مہنگائی، بے روزگاری اور مستقبل کا خوف بڑھتا جارہاہے تو دوسری جانب ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور خوف کے ماحول میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رام لیلا میدان میںمہنگائی کے خلاف ہلہ بول ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ان حقائق کی جانب عوام کو متوجہ کیا۔ آج خوردنی سامان، موٹے اناج اور دودھ جیسی بنیادی چیزوں کی قیمتیں بھی آسمان چھورہی ہیں۔ یوپی اے دور میں دودھ32روپے فی لیٹر، خوردنی تیل 60سے70روپے، دال 50-60روپے فی کلو کی قیمت پر فروخت ہوتی تھی، ان سب کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔ 8 برسوں میں ان تمام روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ مہنگائی خوف ناک عفریت بن کر لوگوں کو نگل رہی ہے۔ اب دال، تیل اور پٹرول کی قیمتیں ایک سو روپے سے بھی زیادہ پہنچ گئی ہیں۔ دودھ 70روپے فی لیٹر دستیاب ہے۔آلو، پیاز اور ہری سبزیوںکی قیمتیں بھی عوام کی رسائی سے دور ہوچکی ہیں۔
مہنگائی کے علاوہ بے روزگاری کا مسئلہ بھی قابو سے باہر ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2021 میں ملک میں مجموعی طور پر 1,64,033 افراد نے خودکشی کی جن میں اکثریت مزدوروں اور بے روزگار نوجوانوں کی ہے۔چپراسی کی 6آسامیوں کیلئے 1.5لاکھ بے روزگار نوجوان درخواست دیتے ہیں اورا ن میں سے زیادہ تر درخواست گزار ایم اے اور بعض تو پی ایچ ڈی بھی ہوتے ہیں۔
کچھ یہی صورتحال نفرت اور خوف کی بھی ہے۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اگر کوئی چیز یکساں نظرآتی ہے تو وہ ہے نفرت۔ ملک میں مہنگائی کی طرح ہی دو فرقوں کے درمیان نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔خاص کر ان ریاستوںمیںجہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے وہاں تو ماحول انتہائی مسموم بن چکا ہے۔ آسام، اترپردیش، ہریانہ اور کرناٹک میں ہر دوسرے تیسرے دن فرقہ وارانہ منافرت کے واقعات پیش آرہے ہیںتو حکومتی سطح پر بھی اقلیتیں ہی مشق ستم ہیں۔ آسام میں حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی مسلمانوں کے مدارس کو منہدم کررہی ہے تو ہریانہ میں شرپسند اور فرقہ پرست عناصر چرچ پر حملہ آورہیں۔اترپردیش میں مسجدوں پر دعویٰ کرنے کی ایک روایت سی ہی چل پڑی ہے تو کرناٹک میں مسلم بچیوں کے حجاب اتارے جارہے ہیں۔ ملک کا تہذیبی ورثہ اور منفرد تکثیری معاشرہ کا تانا بانا بکھر رہا ہے۔مذہبی اور لسانی اقلیتوں، دلتوں، قبائلیوںحتیٰ کہ خواتین کی ایک بھاری اکثریت کو آج بائیکاٹ جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ ملک کے امن پسندوں اور جمہوریت و سیکولرزم پر یقین رکھنے والوں پر منظم حملے کیے جارہے ہیں۔آزادی، مساوات، انصاف اور بھائی چارہ جیسے اعلیٰ اخلاقی جوہر سیاست کی قربان گاہ پرچڑھادیے گئے ہیں۔حکومتی سطح پر انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ آئینی اقدار اور جمہوری اصول پامال کیے جارہے ہیں۔
یہ مہلک حالات اور حکومت کے غیرمنصفانہ اقدامات نے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑادی ہے۔اگرا ن حالات کوایسے ہی قبول کرلیاگیا تو کل یہ مایوسی پورے ملک کولے ڈوبے گی۔ملک کو بچانے اور اسے جوڑے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ مایوس ہوتے ہوئے عوام کوحوصلہ دیاجائے اور ان میں حالات کے خلاف آواز اٹھانے کا جذبہ ابھارا جائے۔
خود اندرونی بحران کی شکارکانگریس کا یہ ہلہ بول اوربھارت جوڑو یاترا ملک کے حالات بدلنے میں کتنی کارگر ثابت ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس سے عوام کے دلوںمیں امید کا دیا ضرور روشن ہوا ہے۔
[email protected]
امید کا دیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS