عبیداللّٰہ ناصر
بجٹ خواہ مرکزی حکومت کا ہو یا ریاستی حکومتوں کا، عام آدمی کی اس میں دلچسپی ملنے والی سہولیات اور جیب پر پڑنے والے بوجھ میں ہوتی ہے۔ ہم جب سگریٹ پیتے تھے تو یہی فکر رہتی ہے کہ سگریٹ کتنی مہنگی ہوتی ہے یا کسان کے طور پر کھاد کے دام میں اضافہ کی فکر رہتی تھی۔ اب بجٹ میں کیا مہنگا کیا سستا کا سوال پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں وزیر مالیات کی تقریر کا محور ڈیجیٹل انڈیا، ماحولیات، آتم نربھر، میک اِن انڈیا، جی ایس ٹی وصولیابی ، ٹیکس ریونیو وغیرہ ہی ہیں لیکن ملک کو در پیش سب سے اہم مسئلہ بیروزگاری، کسانوں کے مسائل، غریبوں اور امیروں کے بیچ بڑھتی کھائی، تعلیم اور حفظان صحت، چھوٹے اور درمیانہ کاروبار،درمیانہ صنعتیوں کو سہولیات، سماجی تحفظ وغیرہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے، 25سالہ منصوبہ بندی کی بات کہی گئی ہے۔ مستقبل پر نظر رکھنا ضروری ہے لیکن کل گھی پلانے کے وعدہ پر آج بھوکا تو نہیں مارا جا سکتا۔ آج کی تلخ معاشی حقیقت یہ ہے کہ50کروڑ لوگوں کی آمدنی نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ بیروزگاری پچاس سال میں سب سے زیادہ ہے۔80کروڑ لوگوں کو مفت راشن دینے کا دعویٰ خود حکومت کر رہی ہے۔ سوچئے130کروڑ کی آبادی والے ملک میں اگر80کروڑ لوگ مفت راشن لے رہے ہیں تو اصل صورت حال کیا ہے؟ دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ مفت خوری ہمارے مسائل کا حل ہے؟ حکومت کی ذمہ داری روزگار فراہم کر کے عوام کی قوت خرید بڑھانا اور ان کو خود کفیل بنانا ہے نہ کہ انہیں مفت خور ؟ اس مفت خوری کے سائڈ افیکٹ کیا ہیں،حکومت یا منصوبہ سازوں نے کبھی یہ سوچا بھی۔ جاننا سمجھنا ہو تو دیہی علاقوں کا رُخ کریں، جہاں کاشتکاری کے لیے مزدور ملنا محال ہوگیا ہے کیونکہ راشن مفت یا بہت سستا مل رہا ہے پھر کیوں کھیتوں میں کوئی جان کھپائے؟ ہنگامی حالت، آفات عرضی و سماوی میں،وبا پھیلنے کی صورت میں عوام کو راحت فراہم کرنا الگ بات ہے اور عوام کو مفت خور بنانا بالکل الگ بات ہے۔ چانکیہ نے کہا تھا کہ راجہ کو خشک سالی یا ایسے ہی حالات میں پرجہ/عوام کو راحت پہنچانے کے لیے انھیں زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنا چاہیے، بھلے ہی تالاب کھدوائے اور اسے پٹوا دے پھر کھدوائے پھر پٹوائے، مگر مفت اناج نہ دے۔مشہور ہے کہ لکھنؤ کا تاریخی آصفی امامباڑہ جب تعمیر ہو رہا تھا تو خشک سالی جیسے حالات تھے۔ شرفا تک کے یہاں کھانے کے لالے پڑے تھے تو نواب صاحب کے حکم سے دن بھر مزدور دیوار اٹھاتے تھے اور رات کے ا ندھیرے میں شرفا سے اس دیوار کی اینٹیں ہٹوائی جاتی تھیں، اس طرح ان کی عزت نفس کو چوٹ پہنچائے بغیر ان کی امداد کی جاتی تھی۔ مہاتما گاندھی روزگار گارنٹی اسکیم اسی سلسلہ کی کڑی تھی جس کا کبھی مودی جی نے لوک سبھا میںمذاق اڑا یا تھا لیکن کورونا کی تباہ کاری کے دنوں میں وہی دیہی معیشت کو سنبھالنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی تھی۔
منریگا دیہی معیشت کو سنبھالنے اور دیہی بے روزگاری دور کرنے کا ایک سب سے موثر طریقہ ہے۔ کورونا کے دور میں اس نے دیہی عوام کو بھکمری سے بچانے اور ملکی معیشت کو ڈھیر ہوجانے سے بچایا تھا لیکن اس کی جانب حکومت کا معاندانہ رویہ اب بھی جاری ہے۔ اس سال کے بجٹ میں بھی اس مد میں وہی 73ہزار کروڑ روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ سال رکھا گیا تھا جبکہ گزشتہ سال ہی ترمیم شدہ تخمینہ 98ہزار کروڑ کا رکھا گیا تھا۔
بجٹ کو سمجھنے کے لیے ماہر معاشیات ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی ایک عام آدمی بجٹ کو کسی ماہر معاشیات کی نظر سے دیکھتا ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ عام آدمی کی دلچسپی اپنے معاملات تک ہی محدود ہوتی ہے۔جو بجٹ پیش کیا گیا ہے، اس میں عام آدمی کے لیے کچھ خاص نہیں ہے، کوئی ایسا روڈمیپ نہیں پیش کیا گیا ہے جس سے روزگار بڑھنے کا امکان ہو۔ طنز کیا جا رہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر سے اس کے ذریعہ روزگار کے امکان بڑھا رہی ہے مودی حکومت کیونکہ اس سے مذہبی سیاحت میں اضافہ ہوگا۔ ای-تعلیم کے فروغ کی بات کی گئی، یہ بیحد خطرناک اور ملک کے مستقبل سے کھلواڑ ہے کیونکہ اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں صرف تعلیم کا مرکز ہی نہیں ہیں بلکہ ذہنی تربیت، ذہن کو بالیدگی بخشنے، طلبا کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے والے مراکز بھی ہیں جو گھر میں موبائل سے پڑھ کر قطعی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔تعلیم کی طرف سے یہ لاپروائی نا قابل فہم ہے۔ کیا بائی جوس جیسے ایپ سے پڑھائی کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے اور کیا یہ ہر بچہ کی دسترس میں ہے جس کی داخلہ فیس ہی پچاس ہزار روپے ہے اور سالانہ خرچ ڈیڑھ سے دو لاکھ کے بیچ آتا ہے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں کو منصوبہ بند طریقہ سے تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ غریب کے بچے سستی، اچھی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہیں۔
بجٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں تعلیمی زمرہ کو مضبوط کرنے کے لیے ون کلاس ون ٹی وی چینل پروگرام کے تحت ای-تعلیم کو آسان کرنے کے لیے ڈیجیٹل پروگراموں کی نشریات12 سے بڑھا کر 200چینلوں پر کی جائیں گی۔ سبھی ریاستیں اس پروگرام کے تحت انٹر تک کا کورس علاقائی زبانوں میں مہیا کرائیں گی۔ یہ چینل کس کے ہوں گے اور ان کی کتنی آمدنی ہوگی، یہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ تعلیم کو بھی کارپوریٹ کے حوالے کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ بہت پہلے سے یہ خبر چل رہی ہے کہ پرائمری اسکولوں کو نجی زمرہ میں دیا جائے گا۔ بیشک سرکاری پرائمری اسکولوں سے وہ مقصد نہیں حاصل ہو رہا ہے جو ان سے ہونا چاہیے بتدریج انہیں برباد کر کے پرائیویٹ کھلاڑیوں کے لیے جگہ بنائی گئی اور اب اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ان کو کارپوریٹ کے حوالہ کیا جا رہا ہے، ای-تعلیم اسی جانب ایک قدم ہے۔ اب ہمارے گھر ہی ہمارے بچوں کے اسکول ہوں گے اور ہر کمرہ میں الگ الگ درجوں کے بچے اپنے اپنے کمروں میں ٹی وی کھول کے بیٹھیںگے۔ اگر آپ کے مکان میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ آپ اپنے دو بچوں کی پڑھائی کے لیے دو کمروں کا بند و بست کر سکیں تو آپ کو اپنے بچوں کو پڑھانے کا کوئی حق نہیں ہے، یہ ناقابل عمل منصوبہ بچوں ہی نہیں، ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے؟
حکومت نے جو نئی تعلیمی پالیسی پیش کی تھی، اس میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ کوٹھاری کمیشن نے یہ سفارش آزادی کے کچھ دنوں بعد ہی پیش کی تھی مگر اس بجٹ میں تعلیم پر خرچ جی ڈی پی کا بمشکل دو سے تین فیصد کے درمیان رکھا گیا ہے، تعلیم کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک نا قابل فہم ہے۔
اس مد میں حکومت نے2021-22کے بجٹ میں 645کروڑ روپے مختص کیے تھے جو اس بار گھٹاکر421 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، حکومت کے اعلانات اور بجٹ مختص میں یہ تضاد کیا ظاہر کرتا ہے ؟
حفظان صحت کی مد میں بھی وزیر مالیات نے رقم دینے میں کنجوسی دکھائی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی بدحالی، بدانتظامی، دواؤں کی کمی وغیرہ سے کون واقف نہیں ہے مگر اس میں اصلاح کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی جان بچانے والی دواؤں کی قیمتوں کو کم کرنے کا کوئی منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس کا مقصد پرائیویٹ نرسنگ ہوموں اور صحت بیمہ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا ہے مگر عام آدمی کے لیے یہ دونوں خون چوسنے والی جونک جیسے ہیں۔ حکومت کو شاید یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس کی پالیسیوں سے ملک میں ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھے گی، اس لیے اس نے مینٹل ہیلتھ کے مراکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے لیے صرف چالیس کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسا ہے۔
ملک اب بھی صدی کے بدترین صحت بحران سے گزر رہا ہے لیکن حفظان صحت کی جانب حکومت کی لا پروائی اس کے بجٹ ایلوکیشن سے پتہ چلتی ہے۔ اول تو کچھ ایسا گھال میل کر دیا گیا ہے کہ حفظان صحت کے اصل بجٹ کو سمجھنا ہی مشکل ہے کیونکہ اسی میں صاف پانی کی فراہمی، صفائی اور ماحولیاتی کثافت کو دور کرنے کے جواز بھی شامل کر دیے گئے، حفظان صحت میں یہ سب اہم کردار ضرور ادا کرتے ہیں لیکن علاج معالجہ پر کیا خرچ ہوگا، بجٹ میں اس کی تشریح ضروری تھی جسے جان بوجھ کر پوشیدہ رکھا گیا ہے یا اسے الگ الگ کرنے کے لیے خاصی مشقت کرنی ہوگی۔صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پر اپنی تقریر میں راہل گاندھی نے آکسفیم کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ مودی جی کے دور حکومت میں ملک کے 98سب سے امیر لوگوں کے پاس56کروڑ غریب لوگوں کے برابر دولت اکٹھا ہو گئی ہے۔ دنیا کے غریب ترین لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں رہتی ہے۔ گزشتہ سال ہی غریبوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے جبکہ ملک میں 40نئے ارب پتی پیدا ہوگئے ہیں۔ منموہن سنگھ کے دس سالہ دور حکومت میں27کروڑ لوگوں کو غربت کی سطح سے اوپر لایا گیا تھا جبکہ مودی جی کے سات سالہ دور حکومت میں ان میں سے 23 کروڑ پھر غربت کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ حکومت کی پالیسیاں غریب کو اور غریب کررہی ہیں جبکہ دھنا سیٹھوں کی دولت دن دونی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ یہی ہے ان دو ہندوستانوں کی حقیقت جن کا ذکر راہل گاندھی نے اپنی مذکورہ تقریر میں کیا تھا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]