عمیر انس
ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی کا اظہار آج سے زیادہ بہتر کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ حکومت میں ان کی نمائندگی صفر ہے، انتظامیہ میں ان کی نمائندگی بھی برائے نام ہی ہے اور مسلم نمائندگی میں کسی معجزاتی تبدیلی کے امکانات بھی نظر نہیں آتے، حالانکہ گزشتہ بیس سالوں میں نئی سیاسی تنظیمیں بھی بنی ہیں، ایک پر پابندی عائد ہوگئی ہے اور ایک اتنی زیادہ بے فکر ہے کہ حکومت کو اس پر پابندی لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، جو سیاسی خلا ہے اسے دینی تنظیمیں پورا کر رہی ہیں یا وہ سیاسی جماعتیں جنہیں مسلمانوں کے ووٹ کی تھوڑی بہت ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی مسائل پر گفتگو وہ بھی مسلمانوں کے درمیان سب سے مشکل کام ہے۔ آپ کسی مسلمان رہنما یا ان کی جماعت کو کسی بھی حال میں یہ سمجھا نہیں سکتے کہ مسلمانوں کی سیاست میں ان کی جماعت ناکام ہو چکی ہے، سب کا دعویٰ ہے سب کامیاب ہیں لیکن عوام کے سامنے نتیجہ ہے کہ پارلیمنٹ سے لے کر بلدیہ انتخابات میں مسلمانوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے، مسلمانوں کی سیاسی طاقت جس کا پریشر سبھی پارٹیاں محسوس کرسکیں کہیں نظر نہیں آتا، لیکن پھر بھی کوئی جماعت اور رہنما اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کے لیے شاید ہی آمادہ ہوں۔
میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کی بنیادی وجہ اتحاد کی کمی ہے اور نہ تعلیم کا فقدان، اسلامی شعور کی کمی بھی نہیں ہے اور سیاسی فہم کی کمی بھی شاید نہیں ہے، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی میں محض اضافہ ہی ہورہاہے ،لہٰذا حقیقت پسندانہ طریقے سے جائزے کی ضرورت ہے، مثلاً
بنیادی طور پر مسلمان دانشوروں، علماء، لیڈران اور سیاستدانوں کی ٹریننگ اکیلے آسمان چھونے کے لیے ہوئی ہے، سبھی مسلمان رہنما اپنی انفرادی کوششوں میں بہت کامیاب ہیں، حوصلہ مند بھی ہیں اور نتائج تک بھی پہنچتے ہیں، لیکن جو چیز ان کو غیر مسلموں سے الگ کرتی ہے اور کمزور بناتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان دانشورانِ صرف اپنی ذات کو قبلہ اور کعبہ بنا کر کام کرتے ہیں اور غیر مسلم لیڈران اس عقیدے کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ انفرادی آرزوؤں اور تمناؤں بغیر بڑی ٹیم بنائیں، بغیر اچھے لوگوں کو ساتھ میں لیے ممکن نہیں ہے۔ کسی مسلمان دانشور کے سائے میں کوئی دوسرا مسلمان دانشور پیدا نہیں ہوسکتا لیکن ایک غیر مسلم دانشور کے سائے میں ایک پورا مدرسۂ فکر پنپتا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کھڑی ہوئی، ہر سطح پر چھوٹی بڑی قیادتوں کو اُبھرنے کا موقع دیا گیا، سماج وادی پارٹی آئی تو ہر سطح پر ہر طبقے کو کچھ نہ کچھ جگہ دی گئی، مل بانٹ کر حاصل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے اصول کے ساتھ انہوں نے کام کیا، مقبول ہوئے، حکومتیں بنائیں اور فائدہ اٹھایا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں مولانا ابوالکلام آزاد بھی اپنی ناقابل فراموش خدمات کے باوجود اور اپنی ناقابل نظرانداز سیاسی فکر کے باوجود ایک سیاسی مدرسۂ فکر قائم نہیں کر سکے، آج مسلم لیگ تو قائم ہے لیکن کوئی آزاد لیگ نہیں۔ مرکزی حکومتوں میں اور ریاستی حکومتوں میں بہت مضبوط مسلمان رہے ہیں لیکن وہ اپنی سیاست کو اپنی ذات سے باہر قائم نہیں کر سکے اور سبھی سیاسی جماعتوں کو ایسے ہی مسلمانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی ذات کے علاوہ کوئی سیاسی مدرسہ نہ رکھیں۔ یہ بیماری سیکولر اور مذہبی پس منظر کے دونوں سیاسی رہنماؤں میں مشترک ہے، لیکن غیر مسلم سیاستداں جانتے ہیں کہ اپنی خود کی عوامی حمایت کا نیٹ ورک رکھے بغیر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، خواہ اس کے لیے وہ برادری کا کارڈ استعمال کریں، علاقے کا کارڈ، مذہب کا یا فرقہ پرستی کا۔ آج بی جے پی میں اکثر لیڈر ایسے ہیں جنہیں ان کی پارٹی نکال بھی دے تو وہ پچاس ساٹھ ہزار ووٹ کے ہی نہیں بلکہ آس پاس کی اسمبلی اور پارلیمانی نشستوں کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب وہ سیاسی فائدے اٹھانے میں اکیلے نہیں بلکہ شرکت کے اصول پر کام کرتے ہیں۔ ہندوستانی سیاست میں سب سے زیادہ ایمانداری اگر کسی شعبے میں ہے تو سیاست کی سوشل انجینئرنگ میں ہے، لیکن مسلمان سیاست داں سوشل انجینئرنگ کے بجائے صرف شخصیت کی انجینئرنگ میں مصروف رہے ہیں، یہ طریقہ بدلے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ سیاست ایک طرفہ ٹریفک نہیں بلکہ دو طرفہ ہے، آپ بھی حاصل کریں دوسروں کو بھی کرنے دیں، مسلم سیاست کو بھی یہی اصول سیکھنے ہوں گے۔
دوسرے، مسلم سیاست کی پوری کائنات دفاعی سیاست پر مبنی رہی ہے، وہ بھی صرف مسلم مفادات کے دفاع پر، یقینا یہ سب سے بنیادی مقصد ہے لیکن دفاعی حکمت عملی جو بڑے اہداف کے لیے نہ ہو، آہستہ آہستہ ناکام ہی ہو جائے گی، آج پچاس سال بعد بھی مسلمان سیاستدانوں کی تقریریں سنیے، ان کی باتیں سنیے، ان کا پورا وقت وقف، حج، قبرستان، پرسنل لا، مدرسہ، کرتا ٹوپی، عرس، جلوس، جیسی باتوں تک محدود رہا ہے، جب سماجوادی اور بہوجن سماج کے ووٹ دینے والے کھسک کر بی جے پی میں جارہے تھے تو کیا ان کی پارٹی میں رہنے والے مسلمان سیاستدانوں کو خبر نہیں تھی؟ کیا انہوں نے سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے اپنی پارٹیوں سے بات کی؟ یہ بات تو اعظم خان اور اویسی جیسے قد آور رہنما بھی جانتے تھے کہ ان کی سیاست کی بساط پلٹ رہی ہے، لیکن ان کے نعرے نہیں بدلے، ان کی تقریریں نہیں بدلیں، ان کا انداز گفتگو اور مضامین گفتگو نہیں بدلا۔ ملک وطن پرستی کی اس تعریف پر متفق ہورہا ہے جو سنگھ نے دی ہے، وفاداری اور غداری کا معیار انہوں نے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا تھا، مسلمان سیاستداں، وزراء، ممبران پارلیمنٹ، اسمبلی کیا کر رہے تھے، بلکہ ملی تنظیمیں، رہنما بھی کیا کر رہے تھے؟ مسلمان رہنما کیوں صرف دو چار موضوعات کے لیے جانے جاتے ہیں؟ اگر وہ معاشی مسائل پر گفتگو کریں تو کیا عوام انہیں نہیں سنیں گے، حمایت نہیں دیں گے؟ صحت، بے روزگاری، انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، تعلیم، وغیرہ جیسے بہت سے موضوعات ہیں جن پر پرجوش سیاست کی جا سکتی ہے اور ہندو ووٹر انہیں سنجیدگی سے سن بھی سکتا ہے، لیکن مسلمان سیاستداں اور رہنمامسلم موضوعات کے علاوہ دیگر موضوعات پر اپنا کوئی سپورٹ بیس بنانے میں کامیاب نہیں ہیں، ظاہر ہے کہ اس ملک میں کسی مسلمان کا انتخاب میں کامیاب ہونا صرف مسلمان ووٹ سے تو ناممکن ہے، تو پھر ایک ایسی سیاسی گفتگو اور سیاسی خطاب جس میں ہندو بھی دس بیس فیصد شامل ہوں، کیوں نہیں اختیار کیا جاتا ہے؟ مثال کے طور پر حیدرآباد کے سیاستدانوں کو دیکھیں، ساری پونجی اردو زبان اور شیروانی بریانی میں لگا رکھی ہے جبکہ سنگھ پریوارتیلگو زبان بولنے والی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنانے میں محنت کر رہی ہے۔ حیدرآبادی مسلمانوں کو لگتا ہے کہ تیلگو بولنے والوں کے ساتھ سماجی، سیاسی اور ثقافتی بھائی چارہ قائم کیے بغیر وہ ہمیشہ کامیاب رہیں گے، یہ غلط فہمی ٹوٹنے لگی ہے، ایک مسلمان سیاستداں کو ہر قیمت پر غیر مسلم ووٹروں کو اعتماد میں لینے والے کام کرنے ہی ہوںگے خواہ ان کو فوراً ووٹ ملے یا نہ ملے، نیز موضوعات کے اعتبار سے انہیں پورے ملک کے مسائل پر اپنی رائے اور گفتگو کو وزنی بنانے اور مقبول بنانے کے لیے وسائل اور صلاحیتیں خرچ کرنی ہوں گی، ایک چھوٹے سے علاقے کو بچانے کی تدبیر علاقے کی چار دیواری کو محفوظ بنانا نہیں بلکہ علاقے کے چالیس پچاس کلو میٹر کے باہر کا دائرہ محفوظ بنانا ہوتا ہے۔
تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ مسلم سیاست کوئی انوکھی سیاست نہیں ہے کہ جس کی کامیابی اور ناکامی کے اصول غیر مسلم سیاست سے الگ ہوں گے، موجود سیاسی ڈھانچے میں جو اصول ان کے کام آتے ہیں، آپ کے بھی کام آئیں گے، بیچارے غیر مسلم حضرات شدید محنت سے پارٹیاں بناتے ہیں، دسیوں سال اس کو کھڑا کرتے ہیں، اس کا اپنا سپورٹ بیس بناتے ہیں، اس کے لیڈران بناتے ہیں، اس کے لیے شاندار نعرے لکھتے ہیں، اس کے لیے کام آنے والے ہر شخص کو اپنے کارواں میں شامل کرکے سب کے لیے کچھ نہ کچھ کام تلاش کرتے ہیں، عوامی رائے میں بنے رہنے اور ہر وقت نظر آنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، ایسی باتیں کرتے ہیں کہ عوام ان سے امیدیں وابستہ کرنے لگتے ہیں، ان کے پاس اپنے کام کرانے آتے ہیں۔ کیا مسلم سیاستداں اور ان کی پارٹیاں ان مرحلوں سے گزرے بغیر ایک مضبوط سیاست کرنے کا کوئی اور نسخہ رکھتی ہیں؟ مسلم سیاستدانوں اور ان کی پارٹیوں کو بھی جمہوریت کی قدر کرنی ہوگی اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ سب کرنا ہوگا جو ایک جمہوری سیاست میں کیا جاتا ہے، مسلم سیاست کا دائرہ، طریقہ اور ایجنڈا سب بدلنا ہوگا، ’سب کے لیے، سب کے ساتھ‘ کی سوشل انجینئرنگ کے ساتھ ایک نیا برانڈ متعارف کرنا ہی ہوگا۔
[email protected]