ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کو قومی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی قومی سیاست کا رخ اترپردیش طے کرتا آیا ہے۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تک چند ایک کو چھوڑ کر سبھی نے یوپی کی ہی کسی نہ کسی سیٹ سے پارلیمانی نمائندگی کی ہے۔ اس ریاست کی یہ سیاسی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ آج بھی یوپی کو نظرانداز کرکے کوئی پارٹی مرکز میں حکومت تشکیل دینے کا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ جتنے بھی اتحاد بنتے ہیں وہ یوپی کو نظر میں رکھ کر ہی بنائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 80 پارلیمانی سیٹوں والی اس ریاست کے لوگوں نے جب ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس سے منہ پھیرا تو کئی ریاستوں میں اقتدار میں رہنے کے باوجود کانگریس کے ہاتھ سے مرکز کا اقتدار پھسلتا چلا گیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ ایک وقت میں پارلیمنٹ میں اس پارٹی کو اپوزیشن کا درجہ ملنا بھی مشکل نظر آنے لگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اگر اپوزیشن کمزور ہے تو برسراقتدار جماعت من مانے فیصلے کرنے لگتی ہے، حکومتیں تب تک ہی عوامی مفاد کے کام اور باتیں کرتی ہیں جب تک ان کو اپوزیشن کا خوف رہتا ہے۔ مضبوط اپوزیشن ہی حکمراں طبقہ کو مفاد عامہ کے امور انجام دینے اور ترقیاتی کام کرنے کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ یہ اپوزیشن کی کمزوری کا ہی نتیجہ تھا کہ کسانوں کو ایک سال تک سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرنا پڑا، سیکڑوں جانیں گنوانی پڑیں تب کہیں جاکر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کئے۔ اگر اپوزیشن مضبوط ہوتا تو مظاہرین کی آواز حکومت کے کانوں تک پہنچنے میں ایک سال کا وقت نہ لگتا۔ چند ماہ قبل جب سابقہ یو پی اے اتحاد نے تقریباً 28 پارٹیوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد انڈیا بنایا تو عوام میں ایک پیغام گیا کہ آئندہ الیکشن میں فتح و شکست کسی کی بھی ہو لیکن پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن ضرور رہے گا لیکن حال ہی میں مدھیہ پردیش، راجستھان سمیت پانچ ریاستوں میں چل رہی انتخابی سرگرمیوں کے درمیان اپوزیشن اتحاد انڈیا میں شامل دو پارٹیوں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے لیڈران کے جو بیانات میڈیا میں آرہے ہیں ان کے مطابق ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اپوزیشن اتحاد انڈیا دم دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر اجے رائے نے اقلیتی کانگریس کی پارلیمانی انتخابات تیاری میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس سبھی سیٹوں پر الیکشن کی تیاری کر رہی ہے، کارکنان ریاست کی سبھی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی تیاری کریں۔ انھوں نے کہا کہ اقلیتی کانگریس دسمبر کے آخر تک پوری ریاست میں بوتھ کمیٹیاں بنا لے گی۔ ہر مسلم اکثریتی بوتھ پر 11 لوگ تعینات ہوں گے۔ تو دوسری جانب سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی لکھنؤ میں منعقد ایک تقریب میں کچھ اسی طرح کے اشارے دیئے ہیں۔ دراصل مسٹر یادو اپنا دل (کمیراوادی) کی تقریب یوم تاسیس کو بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے تھے جہاں اپنا دل کمیراوادی کی قومی صدر کرشنا پٹیل اور ان کی بیٹی ممبر اسمبلی پلوی پٹیل سمیت دیگر پارٹی لیڈران موجود تھے۔ یہاں مسٹر یادو نے کہا کہ ہم لوگ 2024 کا پارلیمانی الیکشن ساتھ مل کر لڑیں گے، پچھلی مرتبہ ہماری جانب سے پارٹی کو ٹکٹ دینے میں کنجوسی کی گئی تھی، اس مرتبہ ایسا نہیں ہوگا۔
اس سے قبل بھی دونوں پارٹیوں کے متعدد لیڈران کی طرف اس طرح بیانات سامنے آچکے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمانی الیکشن 2024 آتے آتے یوپی میں یہ اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے ایک مضبوط اپوزیشن کی حیثیت رکھتی ہے۔ کچھ دنوں قبل ہوئے ضمنی الیکشن میں بھی ایس پی نے اپنی طاقت کو دکھایا تھا۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی کی حالت اترپردیش میں بہت اچھی نہیں ہے لیکن راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور اس کے بعد مختلف طبقات سے ان کی مسلسل ملاقاتوں نے کانگریس میں ایک نئی جان ڈالنے کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے کانگریس کارکنوں میں بھی جوش و خروش ہے۔ ویسے کانگریس اور سماجوادی پارٹی اس سے قبل بھی ایک مرتبہ اتحاد کا ناکام تجربہ کرچکے ہیں اس لئے بھی اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ یوپی میں کانگریس و سماجوادی پارٹی کی راہیں جدا ہی رہیں گی۔ حالانکہ اب الیکشن بھی کرکٹ کی طرح کا غیریقینی کھیل ہوگیا ہے۔ کب کون وکٹ گرجائے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پارلیمانی الیکشن قریب آتے آتے کانگریس کی قیادت والے اپوزیشن اتحاد انڈیا اور بی جے پی کی قیادت والے اتحاد این ڈی اے میں کوئی بھی الٹ پھیر ممکن ہے ۔ اپوزیشن لیڈران کے خلاف مسلسل ہو رہی ای ڈی کی چھاپہ مار ی بھی اس میں اہم رول ادا کرے گی۔ فی الحال اپوزیشن اتحاد انڈیا کا منظرنامہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
[email protected]
اترپردیش میں ’ انڈیا‘ کا مستقبل !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS