بہار میں معیارِ تعلیم کی اصلاح اور اس میں رکاوٹیں: ڈاکٹر محمد صفوان صفوی

0

ڈاکٹر محمد صفوان صفوی

الحمد للہ جب سے محکمہ تعلیم کے نئے ایڈیشنل چیف سکریٹری کی آمد ہوئی ہے بہار کا تعلیمی نظام روز بروز درستی کی طرف مائل ہے۔ وہ بہار جس کے اسکولوں کو مویشی پالن وِبھاگ کہا جاتا تھا اور جس کے کالجوں کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہاں پڑھائی نہیں ہوتی۔ یہ ڈگری بانٹنے کے ادارے ہیں اب طلبا اور اساتذہ معمور ہیں۔ صبح سے شام تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پہلے طلبا ایڈمیشن ضرور یہاں لیتے تھے لیکن ایڈمیشن کے بعد وہ پٹنہ، دلّی اور کوٹا جیسے شہروں کے لئے نکل جاتے تھے اور جب امتحان کا وقت ہوتا تو یہاں آکر امتحان دیتے، لیکن کچھ دنوں سے یہ ممکن نہیں رہا۔ نئے ایڈیشنل چیف سکریٹری نے طلبا کے لئے 75 فیصد حاضری کی شرط عائد کردی ہے یعنی جو طالب علم 75 فی صد حاضری نہیں پوری کرے گا اْسے امتحان دینے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اس خبر کو سن کر لڑکے اور ان کے گارجین گھبرائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے بچوں کو دور شہروں سے بلا لیا ہے اور اب وہ باقاعدگی سے درجوں میں حاضر ہو رہے ہیں۔ اساتذہ جو پہلے عیش و تنعّْم کی زندگی گزار رہے تھے اب انھیں دوڑ دوڑ کر کلاسیں لینی پڑ رہی ہیں۔ وہ صبح سے شام تک کلاسیں بھی لے رہے ہیں اور رات میں سیلف اسٹڈی کے بعد سبق کے منصوبے بھی تیار کر رہے ہیں۔ اگر حالات بدستور رہے تو بہار کی تعلیمی حالت میں بہت جلد انقلاب آئے گا اور وہ دن دور نہیں جب دوسری ریاستوں کے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے بہار کا رخ کریں گے، لیکن کیا حالات یہی رہیں گے۔ کیا واقعی بہار میں معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان سے کوئی مفید نتیجہ نکلے گا یا نہیں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ جب تک حکومت محکمہ تعلیم کی موافقت نہ کرے نظامِ تعلیم کی اصلاح کے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا بہت مشکل ہے۔ ابھی تک تو طلبا و طالبات اخبارات میں محکمہ تعلیم کی دھمکیاں پڑھ پڑھ کر کالج آرہے ہیں لیکن جیسے ہی امتحان کے فارم بھرے جائیں گے جو آج کل عام طور پر آن لائن بھرے جاتے ہیں اور جن میں اساتذہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یعنی فارم بھرتے وقت ایسی کوئی قید نہیں لگائی جاتی کہ جن طلبا نے 75فی صد حاضری پوری کی ہے بس وہی فارم بھر سکتے ہیں۔ جب طلبا کو معلوم ہو جائے گا کہ حاضری کے سارے ہنگامے محض اخبارات تک محدود تھے امتحان کی فارم پْری کے لئے حاضری کی کوئی ضرورت نہیں پھر وہی حالت ہو جائے گی جو محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے آنے سے پہلے تھی۔ اس لئے امتحان کی فارم پْری کے وقت میں طلبا کی حاضری کی جانچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ نہیں ہوئی تو اساتذہ کی بھی عزت و آبرو جاتی رہے گی۔ کیوں کہ ابھی تو محکمے کی ہدایات کے مطابق وہ طلبا پر سختی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر درجے میں طلبا و طالبات کی تعداد میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں ایک اچھی خاصی تعداد ان کے عتاب کی زد میں بھی ہے لیکن جیسے ہی ان کے فارم بغیر اساتذہ کی اجازت کے بھرے جاسکیں گے اساتذہ کی بے اثری عیاں ہوجائے گی۔ بعد ازاں جو طالب علم پہلے کچھ ڈرتے بھی تھے وہ بھی منھ چِڑا کر بھاگ جائیں گے اور اساتذہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے اور اصلاحِ نظام کا خواب بھی دھرا کا دھرا جائے گا۔ لہٰذا محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کو غور و خوض کے بعد اس سلسلے میں واضح لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر اربابِ حکومت کا بھی اتفاق ضروری ہے۔ ورنہ حکومت کا مطمحِ نظر ایسے موقعوں پر کچھ اور ہوتا ہے۔ پڑھانا لکھانا اور اسکول کالج وغیرہ کا نظام قائم کرنا حکومت کا کام ہے۔ حکومت جب دیکھے گی کہ طلبا کی ایک بڑی تعداد امتحان سے محروم ہو رہی ہے تو اْسے یہ خدشہ لاحق ہوگا کہ کہیں طلبا اور ان کے والدین حکومت سے کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں اس سے ان کے مفاد پر بھی ضرب پڑ سکتی ہے لہٰذا وہ محکمہ تعلیم پر دباؤ ڈالے گی اور چاہے گی کہ سب کو ڈگری تقسیم کی جائے۔ خصوصاً ان حالات میں بھی کہ کالج میں پڑھنے والے طلبا و طالبات عام طور پر مضافات میں رہتے ہیں جہاں سے ان کے کالج پچاس اور سو کیلو میٹر تک دور ہوتے ہیں۔ نہ تو کالجوں میں ہاسٹل کے انتظامات ہیں اور نہ بیشتر طلبا اس لائق ہیں کہ وہ کِرائے کے مکان کا خرچ برداشت کر کے شہروں میں رہ سکیں اور لڑکیوں کو باہر رکھنے کے لئے تو زیادہ تر گھر والوں کو بھی ان کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ایسی صورت میں گورنمنٹ کو اس کے سِوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسٹوڈنٹ کے سامنے گْھٹنے ٹیک دے اور محکمہ تعلیم کو نرمی برتنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے۔
ایڈیشنل چیف سکریٹری صاحب نے اتنے بڑے کام کا جوکھم اٹھایا ہے جس کے لئے حکومت اور محکمے کی بہت بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ بہار میں پرائمری، مِڈِل، سکنڈری اور ہائر سکنڈری اسکولوں کا کیا حال ہے کون نہیں جانتا۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جس چیز سے قوم اور افرادِ قوم کی واقعی ترقی ہوگی وہ صرف اور صرف تعلیم ہے۔ با ایں ہمہ جتنا تغافْل تعلیم کی جانب سے برتا گیا ہے کسی چیز کی جانب سے نہیں برتا گیا۔ ضلع میں ہزاروں پرائمری اسکول ہوتے ہیں شاید ہی کسی میں کھیل کا میدان یا بنیادی سہولتیں موجود ہوں۔ کنگورے شکستہ۔ چہاردیواری نام کو موجود نہیں۔ کمروں کی تعداد اتنی بھی نہیں ہوتی جتنے اسکول میں درجے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایک بڑے کالج میں طلبا کی مجموعی تعداد اٹھارہ سے بیس ہزار تک ہوتی ہے جبکہ ان کے پاس دو ہزار سے زیادہ طالب علموں کے کلاس لینے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے لہٰذا اساتذہ کو تنخواہیں تو بڑی بڑی ملتی ہیں۔ اسکول میں بچّوں کو ایک وقت کا کھانا بھی مل جاتا ہے لیکن اگر نہیں ملتی ہے تو تعلیم، جس کی قوم کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دعویٰ پرائیوٹ اداروں سے برابری کرنے کا کیا جاتا ہے جبکہ سرکاری اسکولوں میں عام طور پر صرف نادار گھروں کے بچے پڑھتے ہیں جن کو گھر پر ٹیوشن پڑھنے کی بھی استطاعت نہیں ہوتی۔ پھر یہ نِجی اداروں کی برابری کیسے کریں گے۔ کیا سماج کے ذی حیثیت لوگ پسند کریں گے کہ ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہاں پڑھانے والے اساتذہ کے بچے بھی خود ان کے اسکول میں نہ پڑھ کر پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں جس سے سماج میں یہ پیغام جاتا ہے کہ ان اسکولوں میں تعلیم نہیں دی جاتی۔ اگر تعلیم دی جاتی تو خود ان اسکولوں کے اساتذہ کے بچے ان کے اسکولوں میں کیوں نہیں پڑھتے۔
نظامِ تعلیم کی اصلاح میں سب سے بڑی رکاوٹ طلبا کے تناسب سے اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔ باقی چیزیں تو خیر ثانوی حیثیت رکھتی ہیں لیکن صحیح تعلیم کا تصور اچھے اور منجھے ہوئے اساتذہ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کا حال تو خیر غنیمت ہے کالجوں کا معاملہ زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ اساتذہ کی اس قدر قِلّت ہے کہ ہر کلاس کو نصاب کے مطابق تعلیم دینا تقریباً مْحال ہے۔ ایم۔ اے سے لے کر آئی۔ اے تک تقریباً دس بارہ درجے ہوتے ہیں جن کو تعلیم دینے کے لئے کم از کم 5 اساتذہ تو ہونے ہی چاہئیں لیکن حالت یہ ہے کہ شاید ہی کسی کالج کے کسی ڈپارٹمنٹ میں پانچ اساتذہ ہوں۔ اکثر ڈپارٹمنٹ میں تو یہ تعداد ایک اور دو تک محدود ہے۔ اس میں کیا تعلیم ہوسکے گی۔ زیادہ سے زیادہ خانہ پْری ہوسکتی ہے کیوں کہ بہار کے کالجوں میں نان ٹیچنگ ملازمین کی بھی بہت کمی ہے لہٰذا ایڈمیشن سے لے کر فارم بھرنے تک ان کے زیادہ تر کام اساتذہ کو ہی انجام دینے پڑتے ہیں۔ بلکہ ایک مدت تک یہ کام کرتے کرتے ان کو اتنی مشّاقی ہوگئی ہے کہ ایسا لگتا ہے وہ انھیں کاموں کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ تھوڑے دنوں تک مسلسل کرنے کے بعد پڑھا پڑھایا سب بھول جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ اسکول اور کالجوں کا انفراسٹرکچر بھی ہے۔ اسکول تو خیر برگد اور پیپل کے درختوں کے نیچے بھی چل جاتے ہیں جہاں چھوٹی عمر اور غریب گھروں کے بچے بوروں پر بھی بیٹھ لیں گے لیکن کالج میں سماج کے ہر طبقے کے بچے ہوتے ہیں انھیں بوروں پر بٹھایا نہیں جاسکتا۔ بہار کے کسی بھی ڈگری یا پوسٹ گریجویٹ کالج میں کم از کم15 اور 16 ڈپارٹمنٹ ہوتے ہیں اور ہر ڈپارٹمنٹ میں کم از کم آٹھ دس درجے لیکن افسوس ہے کہ شاید ہی کوئی کالج ہو جس میں اتنے کلاس روم ہوں جتنے ڈپارٹمنٹ ہیں۔ اندریں حال تعلیم کے معیار میں بہتری کی بات کرنا مجذوب کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔
یہ تو وہ کمیاں گنائی گئی ہیں جو بڑی بڑی ہیں اس کے علاوہ کلاس روم کی حالت۔ تجربہ گاہوں کا نہ ہونا، یا جہاں تجربہ گاہیں ہیں وہاں آلات اور کیمیکل کا نہ ہونا وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ان کا بکھان کیا جائے تو شاید دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں اور مدح ناتمام ہی رہ جائے۔ القصہ تن ہمہ داغ داغ شْد پنبہ کجا کجا نہم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایڈیشنل چیف سکریٹری نے اصلاحِ نظامِ تعلیم کا بیڑا اٹھا کر بڑی مردانگی کا کام کیا ہے لیکن ایک اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہر طرف سے ان کی مدد کی جائے اور ان کے اعلیٰ مقاصد کو کامیابی سے ہم کِنار کرنے میں جس سے جو کچھ ہوسکے اس سے دریغ نہ کرے لیکن سب سے بڑی ذمے داری حکومت کی ہے۔ حکومت محض بلند بانگ دعوے کرتی ہے لیکن اصلاحِ تعلیم کے لئے اس کی کوششیں اس لائق نہیں ہیں کہ ان کا ذکر کیا جاسکے۔ دوسرے منصوبوں پر کروڑوں اور اربوں خرچ کئے جاتے ہیں لیکن تعلیم جو ساری ترقیوں کی جڑ ہے اور اصلاحِ معاش کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔
(صدر شعبہ اْردو، سمستی پور کالج، سمستی پور، بہار)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS