عبدالسلام عاصم
کوئی بھی تشدد بے جواز نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس جواز کو تسلیم کرتا ہے اور کوئی یہ موقف رکھتا ہے کہ کسی بھی تشدد کو باجواز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ الگ الگ نوعیت کے ان دونوں انداز ِفکر پر غور کر کے اِس تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے کہ تشدد کی حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی میں معاشرہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں عقلیت سے زیادہ ادعائیت پسند حلقے حاوی ہیں تو وہاں علمی ذہانت رکھنے والوں کو اختلاف رائے کے موڑسے انتہائی محتاط انداز میں گزرنا چاہیے تاکہ اظہار کا کوئی پہلو اس طرح سامنے نہ آئے کہ نیت، ارادہ، منشا اور بنیادی مفہوم کو نہ سمجھنے والے ایکدم سے اختلاف کا کوئی ایسا ظاہری مطلب نہ نکال لیں کہ پھر معاملات سنبھالے نہ سنبھل سکیں۔
ہم میں سے کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بر صغیر میں نظریاتی کشمکش اور فکری آزادی کے الگ الگ ماحول میں پرورش پانے والے لوگ ایک ایسے سماج کا حصہ ہیںجس کی بقا کیلئے کثرت میں وحدت ناگزیر ہے۔ اس میں وقفے وقفے سے خلل اِس لیے پڑتا رہتا ہے کہ مختلف الخیال حلقوں کی سماجی کمان کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو بس اپنی بات منوانے تک ہی سوچنے سمجھنے سے کام لیتے ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر نقد و نظر اور جارحانہ ردّ و قبول نے بعض علمی، فکری اور نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو افسوسناک طریقے سے پُر تشدد تصادم کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ نتائج مظہر ہیں کہ فائدہ کسی کا نہیں البتہ راست اور بالواسطہ نقصان سب کا ہو رہا ہے۔
رد ّو قبول کو اول تو ضد نہیں بنانا چاہیے اور کسی بھی ڈسکورس میں اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایک سے زیادہ قسم کے سامعین/ ناظرین میںکوئی ابلاغ کے فقدان کی وجہ سے کسی کی غیر پابند سوچ، لفظ، جملے یا پیرایے کا کوئی ظاہری مطلب نکال کرگمراہ نہ ہو جائے اور ترسیل کی ساری مثبت کوشش دھری کی دھری نہ رہ جائے۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال یوں دی جا سکتی ہے: ایک شخص چہرے پر معمولی خراش لیے نیم زخمی حالت میں گھر میں داخل ہوا جہاں اتفاق سے اس کے چار بیٹوں میں سبھی موجود تھے۔ باپ کی یہ حالت دیکھ کر اُنہیں سخت حیرانی ہوئی، پوچھا کیا ہوا! تو اُس شخص نے کسی احتیاط کے بغیر بتا دیا کہ راستے میں فلاں شخص سے بحث تکرار میں نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تھی۔ ایک بیٹا باپ کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے مرہم پٹی کرنے میں لگ جاتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ آپ کو اُس کمینے سے الجھنے کی کیا ضرورت تھی! میں یہ مسئلہ پنچایت میں اٹھاؤں گا، تیسرا باپ کی حالت دیکھ کر تقریباً رو پڑتا ہے اور چوتھا منظر سے اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ کچھ پولیس والے اندر داخل ہوکر پوچھتے ہیں: کیا یہ آپ کی فیملی کا رکن ہے! ماں فوراً لپک کر بیٹے کے قریب پہنچ جاتی ہے اور کہتی ہے: یہ میرا بیٹا ہے، کیاہوا! کیا کیا ہے اس نے!! پولیس والے بتاتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کو اِس بری طرح زدوکوب کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکا۔
اس فرضی کہانی کے بنیادی طور پر چھ کردارہیں۔ ماں باپ اور چار بیٹے۔ پولیس والے اضافی کردار ہیں۔ یہ کہانی تشدد کے حوالے سے ایک ایسا نفسیاتی پہلو سامنے لاتی ہے جسے ہم زندگی کے ہر شعبے میں بھاگم بھاگ دوڑ کی وجہ سے اکثر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کی پرورش کرنے والے والدین کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون سا بچہ کس مزاج کا ہے! محبت اور ڈانٹ کا کس پر فوری اثر کیا ہوتا ہے!! یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پڑھے لکھے اور غیر پڑھے لکھے دونوں طرح کے والدین کو یہ علم ہوتا ہے کہ ان کے بچوں میں کون کتنا ضبط رکھتا ہے اور کون ایکدم سے ردّ عمل پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مذکورہ فرضی واقعے میں والد کو اپنے زخمی ہونے کا سبب بچوں کو راست طور پر نہیں بتا نا چاہیے تھا۔ سواری سے گر جانے یا کسی دو کی لڑائی میں بیچ بچاؤ میں زخمی ہو جانے کا بہانہ کر کے وہ اپنے شدید ردعمل والے بچے کو جرم کے ارتکاب سے بچا سکتے تھے۔ اصل واقعہ کا بعد میں جب تک اُس بچے کو علم ہوتا تب تک واقعے پر فوری ردّعمل کی شدت کمزور پڑ گئی ہوتی۔
متذکرہ معاشرے کی سماجی زندگی میں ایک سے زائد حوالوں سے زیادہ تر لڑائیاں اس لیے بے لگام ہو جاتی ہیں کہ معمولی شکایت پنچایت تک پہنچنے سے پہلے تصادم، تھانہ پولیس اور اسپتال کے راستے پر چل نہیں بلکہ دوڑ پڑتی ہے۔ اس کے بعد بدلے کی کارروائی کمزور کو مظلوم اور طاقتور کو فسطائی بنا دیتی ہے۔ حالیہ دہائیوں کے ایسے واقعات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ نقد و نظر سے کام لینے کے نام پر کھلی محاذ آرائی کی سوشل میڈیا پر برقی مجلسیں آراستہ کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کو تکلیف پہنچانے کی جیسے دوڑ مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف مذہبی لوگ ہیں جو اپنے حلقوں میں شدت پسندوں سے پریشان ہیں۔ دوسری طرف مذہب کے غیر پابند لوگوں کے یہاں کچھ ایسے نام نہاد لبرل اور روشن خیال عناصر ہیں جو ہر وقت مذاہب کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ایسے میں جب کہیں کوئی زیادتی ہوجاتی ہے اور اُس کے جواب میںکوئی اُس سے بڑھ کر زیادتی کر بیٹھتا ہے تو راست اور بالواسطہ مذمتوں کے درمیان ماحول کو مزید بے قابو ہونے سے بچانے کیلئے حکومتیںحسبِ روایت بس انتظامی اقدامات کا سہارا لے کر خاموش بیٹھ جاتی ہیں۔ سیاسی اور سماجی ذمہ داران بھی انتظامی اقدامات کو ہی فیصلہ کُن قدم سمجھ کر اصل خرابی کو جوں کی توں حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔
جانوروں کے بر عکس انسان کی زندگی بلوغت تک تین مرحلوں (جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی )سے گزرتی ہے۔ بدقسمتی سے متذکرہ معاشرے میں ’’علوم کے بجائے ہجوم‘‘ کی سیاست کرنے والے عناصر دونوں طرف پائے جاتے ہیں۔یہ لوگ جذباتی طور سے اپنی پُر کشش تجارت میں خریداروں کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں لیکن اُنہیں ذہنی اور نفسیاتی بلوغت کا سامان نہیں بیچتے۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ جاننے اور سمجھنے پر ماننے اور منوانے کی ضد ایک بڑے حلقے کو آج بھی دام فریب میں پھنسائے ہوئے ہے۔ اس کے ذمہ دار جتنے وہ لوگ ہیں جو ہجوم کی سیاست کرتے ہیں اتنے ہی وہ لوگ بھی ہیں جو سماجی انقلاب برپا کر نے کے نام پراکیڈمک ڈسکورس کو اپنی بے اعتدالی کی وجہ سے مناظرے میں بدل دیتے ہیں۔ اس طرح اُن کی تمام تر صلاحیتیںبے احتیاط ردّعمل میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی واقعے یا سانحے کے بعد اس کی مذمت تک اپنی ذمہ داری محدود کر لینا اصل میں ذمہ داری سے فرار ہے۔ مار دھاڑ، اس کے بعد دھر پکڑ سے اگر معاشرتی اصلاح ممکن ہوتی تو بعض قوموں کی پُر تشدد تاریخ ہزاروں برسوں پر محیط نہیں ہوتی۔
وقت آگیا ہے کہ خانوں میں بٹے انسانوں کے پیدا کردہ مسائل اور مصائب کے نفسیاتی حل کی طرف ذمہ دارانِ سیاست و معاشرت عملاً متوجہ ہوں۔ یہ صرف ایک مشکل کام ہے، ناممکن ہرگز نہیں۔ نسلِ آئندہ کو اگر ہم اپنے اعمال کی سزا کاٹنے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں آؤٹ آف باکس سوچنے کی عملی کوشش کرنا ہوگی۔ اس کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ابتدائی، ثانوی اور پھر اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی درسگاہوں کو طالب علموں کے لیے جسمانی بلوغت تک کے سفر کی ایسی سہولت گاہ نہ بنائیں کہ وہاں کے فارغین اطلاعاتی تیکنالوجی سے لیس ہونے کے نام پر صرف روبوٹک معلومات کو اپنی منزل سمجھ بیٹھیں۔موجودہ حالات میں ذہنی بلوغت کا رُخ اعتدال پسندانہ ردّو قبول کی طرف موڑنے کی سخت ضرورت ہے اور یہ کام جس حکمت سے ممکن ہے اُس کا راست تعلق نفسیات سے ہے۔
معاشرتی جرائم روکنے کے انتظامی اقدام کے چند گھنٹوں یا ایک دن کی مساعی کے بعد جو کامیابی ملتی ہے وہی مرحلہ نفسیاتی اقدام کا پہلا زینہ ہوتا ہے جس پر بیشتر معاشرے قدم رکھنا بھول جاتے ہیں یا مصلحتاً نہیں رکھتے۔ مشہور کہاوت ہے کہ ایک مزدور دن بھر کی مزدوری سے حاصل پیسے سے دن بھر کی تھکن اُتارنے کیلئے شام کو شراب پی جاتا تھا۔ بیوی بچے فاقہ کرنے پر مجبور تھے۔ علاقے کے لوگوں نے ایک مقامی طاقتور شخص سے اس کی شکایت کی۔ اُس طاقتور شخص نے اُس مزدور کی ہمہ وقت نگرانی پر اپنے ایک آدمی کو مامور کر دیا۔ اگلے روز سے مزدور کے گھر میں چولہا جلنے لگا۔ بیوی بچوں کے چہرے پر مقدور بھر رونق آگئی۔یہ سلسلہ آگے بڑھا تو دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ابھی بدل ہی رہے تھے کہ ایک دن اتفاق سے نگرانی پر مامور شخص کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ گھر سے نہیں نکل پایا۔ اُس شام وہ مزدور کام ختم ہوتے ہی اپنی یومیہ مزدوری سے دن بھر کی تھکن اُتارنے کیلئے شراب خانے پہنچ گیا۔ ایسا کیوں ہوا! ایسا اس لیے ہوا کہ مذکورہ طاقتور شخص نے اپنے انتظامی اقدام پر ہی انحصار کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہفتے دو ہفتے کی شخصی نگرانی کے بعد اُس مزدور کے اندر فیملی کے ساتھ وقت گزارنے اور اسے انجوائے کرنے کی نفسیاتی ترغیب دی جاتی اور اُس کے اندر گھر چلانے کی ذمہ داری کا احساس اس طرح پیدا کیا جاتا کہ وہ اپنی کسی بھی تکلیف کیلئے مرئی یا غیر مرئی مدد پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا مسیحا آپ بننے کا متحمل بن پاتا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]