محمد فاروق اعظمی
دولت او ر سرمایہ کی ہوس نے معاشی بربریت کی ایسی لہر پیدا کردی ہے جس میں دنیا بھر کے غریب، مزدور، محنت کش عوام غوطہ کھانے پر مجبور ہیں۔دنیا کی اکثریت اپنے جسم و جان کا رشتہ برقراررکھنے کیلئے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی ہوس کا شکار ہورہی ہے۔ حکومتوں کی سرپرستی میں یہ سرمایہ کار ایک جانب دیوہیکل منافعوں کا پہاڑ تیار کررہے ہیں تو دوسری جانب دنیا کی80کروڑ آبادی سنگین غذائی بحران کا شکار ہے۔اس وقت دنیابھر کے 80کروڑ افراد کے پاس خوراک نہیں ہے اور 4.5کروڑ افراد ایسے ہیں جو خوراک نہ ہونے کی وجہ سے موت کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں ہے جب وبا کے پہلے ہی سال میں دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے ویکسین اور دوائیں بیچ کر4کھرب امریکی ڈالر کا منافع کمایا ہے لیکن وہ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے بزرگ اور بلبلاتے بچوں کو خوراک فراہم کرنے کیلئے اپنے منافع کا ایک حقیر سا حصہ بھی نکالنے کے روادار نہیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں آنے والی آئی پی سی فوڈ سیکورٹی کی درجہ بندی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند مہینوں کے دوران صرف ایک ملک افغانستان میں 23 ملین یعنی تقریباًڈھائی کروڑ افراد کو غذائی تحفظ کی شدید کمی کا سامنا ہے اوران میں سے90لاکھ افراد ’ ہنگامی سطح ‘ تک پہنچ چکے ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ دنیا کے ایک انتہائی چھوٹے سے جزیرے مڈغاسکر میں 3لاکھ لوگوں کو شدید قحط کا سامنا ہے جب کہ یمن میں 16لاکھ شدید غذائی عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ ورلڈ ہنگر انڈیکس کے مطابق ہندوستان کی27.2فیصد آبادی قلت خوراک اور تغذیہ کی شدید کمی کا سامنا کررہی ہے۔پاکستان کی 24.6فیصد آبادی کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے۔
دستیاب اعدادوشمار کے مطابق اس خطہ ارض پر پیدا ہونے والا اناج دنیا کی کل آبادی کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے۔ چند دہائی قبل یہ صورتحال نہیں تھی، لوگ خوراک کی کمی کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہوتے رہے تھے۔ فصلوں کی قلت کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ہوتے رہے تھے۔ خشک سالی، سیلاب، دیگر قدرتی آفات کی وجہ سے پیداوار میں کمی آتی رہی تھی اس کے ساتھ ہی مقامی معیشت اور محدود تجارت کی وجہ سے ایک خطے کی کمی کو دوسرے علاقے کی پیداوار سے پورا کرنا ناممکن تھا، لیکن اب یہ صورتحال نہیں رہی ہے۔آج دنیا بھر کی زمینوں سے پیداہونے والے اناج کی کل مقدار اوسطاً 280 کروڑ ٹن ہے۔ اگر یومیہ فی شخص ایک کلو گرام اناج بھی کھائے تو ایک دن میں دو بار کھاناکھانے کیلئے یہ مقدار کافی سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا میں سامانوں کی ترسیل کا نظام ختم ہوگیا بلکہ ہمارے پاس ایسا عالمی تجارتی نیٹ ورک ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس نیٹ ورک کے توسط سے دنیا بھر میں ہر سال 1100کروڑ ٹن سامانوں کی ترسیل کی جاتی ہے۔ ان حالات میں بھی اگر دنیا کی10فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا سامناکررہی ہے تو یہ پھر بنیادی حقوق، انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی وغیرہ جیسے خوش نما نعرے سوائے فریب کے اور کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
حکومتیں اس صورتحال کیلئے وبا کو ذمہ دار ٹھہرارہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی مختلف لہروں اور مختلف طرح کے ویرینٹ کی یلغار سے نمٹنے کیلئے لگائے جانے والے لاک ڈائون کے سبب غذائی پیداوار میں کمی آئی ہے ا ور اس سے کم و بیش دنیا کا ہر فرد متاثر ہوا ہے۔ لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسی وباکے دوران پہلے سے اوپر والے زیادہ اوپر پہنچ گئے ہیں اور نیچے آنے والے مزید نیچے گرتے چلے جارہے ہیں۔وبا مزدوروں،محنت کشوںاور عام آدمی کیلئے بدحالی،بے روزگاری اور موت لے کرآئی ہے تو دوسری طرف اسی وبا کی وجہ سے بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں اور سرمایہ داروں نے دولت کا پہاڑ کھڑا کرلیا ہے۔ اطلاعات مظہر ہیں کہ وبا کے دوران ہی 2020 کی دوسری سہ ماہی میں ’سٹی بینک‘ میں ’گولڈمین سے چس‘اور ’جے پی مورگن‘ کی آمدنی کسی بھی وقت کے مقابلے میں زیادہ رہی۔دنیا کے دو بڑے آزاد سرمایہ کار بینکوں میں سے ایک ’ گولڈ مین سے چس‘ نے اپنے منافع میں 41 فیصد کا اضافہ کیا۔اسی طرح دنیا کی بڑی ٹیکنو کمپنیاں ایپل، گوگل، فیس بک، مائیکروسافٹ وغیر ہ اور ای کامرس کمپنیاں ایمیزون، علی بابا اور ویکسین تیار کرنے والی دوا ساز کمپنیوں نے فلک بوس منافع کمایا ہے۔ ہندوستان میں بھی اسی وبا کے دوران ریلائنس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی کی دولت میں24فیصد کا اضافہ ہوا اور اڈانی گروپ آف کمپنیز کے مالک گوتم اڈانی کی دولت بڑھ کر 32ارب امریکی ڈالر ہوگئی۔ وبا کے بعد 4جولائی 2021 تک ایمیزون کے چیف ایگزیکٹیو افسر رہنے والے جیف بیزوس نے 2020میں ہر دن اپنی دولت میں12ارب امریکی ڈالر کا اضافہ کیا۔ دوا ساز اور ویکسین بنانے والی کمپنیاں فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈیرنا آج بھی ہر سیکنڈ میں ایک ہزار ڈالر کا منافع کما رہی ہیںجبکہ فائزر نے2021 کے آخر تک ویکسین کی مد میں 36 ارب ڈالر کمانے کا ہدف رکھا ہے۔اب تو کورونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ نے منافع کمانے کا ایک اور موقع فراہم کردیا ہے۔اومیکرون سے نمٹنے کیلئے نئی ویکسین بنانے کی خاطر یہ کمپنیاں مختلف امیر ترین ممالک سے معاہدے کررہی ہیں۔یہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی بربریت اور وحشت کی بدترین مثال ہے کہ جیسے ہی اومیکرون کی خبر پھیلی دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج میں ان دوا ساز کمپنیوں کے شیئرزبھی بڑھنے لگے۔
ستم تو یہ بھی ہوا کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کو امداد کی ضرورت بڑھ گئی تھی امیر ممالک نے اپنی امداد کم کردی۔ افغانستان، شام اور مشرقی افریقہ کی امداد میں کٹوتی کرکے خوراک کا راشن نصف سے بھی کم کردیا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دنیا میں خوراک کی کمی ہے یا کھانا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے غریب اس کھانے کو خرید نہیں سکتا ہے کیوں کہ دنیا کے وسائل پر ایک محدود طبقہ قابض ہے۔یہ متضاد صورتحال بتارہی ہے کہ سرمایہ داری کا یہ نظام بھوکوں کا پیٹ پالنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے، اسے فقط اپنے منافع کو بڑھانے کی ہوس ہے۔ حکومتیں بھی اس نظام کی سرپرستی کررہی ہیں۔ایک دہائی قبل تک خود کو سوشلزم کا چمپئن کہنے والے ہندوستان میں بھی اب یہی سرمایہ دارانہ نظام اپنی پوری وحشت و بربریت کے ساتھ حاوی ہوتاجارہاہے۔نام نہاد قوم پرستی کے نشہ میں چور ہندوستان کی اکثریت اسے گلے بھی لگارہی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ نظام ہمارے ہی گلے اتارلے اور ہمیں احساس تک نہ ہوسکے۔یہ وقت آنے سے پہلے ہمارے پالیسی سازوں کو اس پرایک بار غور ضرور کرناچاہیے۔
[email protected]