باحجاب ہونے کی وجہ سے اکثر مسلم خواتین کو پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔ ان سے خواہ مخواہ کی ہمدردی کی جاتی ہے۔ ’خواہ مخواہ‘ اس لیے، کیونکہ ایک سے زیادہ ملکوں میں ملبوسات کے انتخاب کی آزادی انہیں حاصل نہیں ہے۔ مسلم خواتین کو ’مجبور‘ بناکر پیش کرنے میں اغیار کے ساتھ اپنوں نے بھی کم اہم رول ادا نہیں کیا ہے۔ اسلام نے مرد کے ساتھ عورتوں پر بھی حصول علم کو فرض قرار دیا ہے، ماں کی گود سے قبرتک علم حاصل کرنے کی تلقین کی ہے، اس کے باوجود مسلمانوں نے صدیوں تک اس طرح اپنی بچیوںکی تعلیم پر توجہ نہیں دی جیسے انہیں دینی چاہیے تھی، البتہ ادھر کے برسوں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے والی مسلم بچیوں کی تعداد بڑھی ہے مگر اس طرف مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کئی باتیں حوصلہ بخش ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کا علم سے ناطہ شروع سے رہا ہے، دوسری بات یہ کہ وہ نہ صرف تعلیم حاصل کرتی رہی ہیں، تعلیمی مراکز بھی قائم کرتی رہی ہیں۔ قبل مسیح کے دور کی بات اگر نہ کی جائے تو دنیا کی پہلی یونیورسٹی کے قیام کا شرف ایک مسلم خاتون، فاطمہ الفہری، کو ہی حاصل ہے۔ یہ قرویین یونیورسٹی ہے۔ یہ پہلے مسجد اور مدرسے کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ اسے یونیورسٹی کا درجہ 1963 میں دیا گیا، اس لیے اسے کئی لوگ 55 سال پرانی یونیورسٹی ہی مانتے ہیں جبکہ اسے ایک ہزار پرانی یونیورسٹی ماننے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے اور ایسا ماننے والوں کی منطق یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی تو اسی وقت قائم کر دی گئی تھی جب اس کی بنیاد پڑی تھی، البتہ اسے یونیورسٹی نام 1963 میں دیا گیا، اس لیے فاطمہ الفہری کو ہی دنیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
فاطمہ الفہری کے کام کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ امریکہ کی ریاست نیو انگلینڈ میں 1750 تک 90 فیصد خواتین خواندہ تو ہو گئی تھیں مگر وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم تھیں۔ یہی صورتحال امریکہ کے دوسرے علاقوںکی بھی تھی۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے کالجوں کا قیام 1860 اور 70 کی دہائیوں میں ہوا مگر فاطمہ الفہری نے تعلیمی مرکز کی بنیاد 857 میں ہی رکھ دی تھی۔ اس سے اس دور کی مسلم خواتین کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی نہیں تھی، وہ تعلیم حاصل کر سکتی تھیں اور تعلیمی مراکز بھی قائم کر سکتی تھیں۔ بدقسمتی سے فاطمہ الفہری کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے، کچھ تاریخ نویس تو یہی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ فاطمہ الفہری جیسی کوئی خاتون ہوئی ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ فاطمہ الفہری جیسی کوئی مسلم خاتون نہیں ہوئیں، قرویین یونیورسٹی کی بنیاد فاطمہ الفہری نے نہیں رکھی تو پھر کس نے رکھی؟ ہزار دوہزار برس پہلے گزرنے والی شخصیتوں پر مختلف آرا کا ہونا نئی بات نہیں ہے۔ اس کے باوجود جنہیں ماننا ہوتا ہے، وہ انہیں مانتے ہی ہیں اور ان کی کارکردگی سے متاثر بھی ہوتے ہیں جیسے آج بھی جن لوگوں کو قرویین یونیورسٹی کی تاریخ متاثر کرتی ہے، وہ فاطمہ الفہری کی شخصیت سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔
فاطمہ الفہری کا پورا نام فاطمہ بنت محمد الفہری القریشی تھا۔ ان کی عرفیت ام البنین تھی۔ وہ تیونس کے شہر قیروان میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں اور ان کی بہن مریم کے ساتھ ان کے والد مراکش کے شہر فاس منتقل گئے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد وراثت میں ملی دولت سے دونوں بہنوں نے مسجد اور مدرسے کی تعمیر کی اور علم کے فروغ پر دولت صرف کی۔ اس وقت شاید ہی فاطمہ الفہری نے یہ سوچا ہوگا کہ والد کے ایصال ثواب کے لیے وہ اور ان کی بہن جس جامع مسجد قرویین اور مدرسے کی بنیاد رکھ رہی ہیں، اس سے آنے والے وقت میں دنیا کے ایک بڑے علاقے میں علم کی ترسیل ہوگی اور بعد میں یوروپی ممالک میں بھی بڑے تعلیمی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ فاطمہ الفہری کی پیدائش 800 میں تیونس کے شہر قیروان میں ہوئی تھی اور ان کا انتقال 880 میں مراقش کے شہر فاس میں ہوا تھا۔n
فاطمہ الفہری نے قائم کی تھی دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS