عبدالعزیز
ایک حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی اس کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو، اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل ہو۔ پوچھا گیا کہ کون اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فرمایا جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا۔ ان میں سے ایک کو یا دونوں کو اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی رضا مندی کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ٹھہرایا اور باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے‘‘۔
اور پھر والد کی نافرمانی کو نہ صرف اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ والد کی نافرمانی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا میں ہی اس کی سزا نہ دے دی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمام گناہوں میں سے جس کو چاہے گا معاف فرمائے گا مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ وہ نافرمان کو موت سے پہلے زندگی میں ہی سزا دے ڈالے‘‘۔
ماں چونکہ اولاد کی پیدائش میں اور بچپن میں ان کی تربیت میں زیادہ دکھ اٹھاتی ہے اور باوجود اس کے کہ اس کا تعلق صنف نازک سے ہے لیکن وہ کس قدر حوصلہ مندی کے ساتھ اپنی اولاد کی ہر غلط بات اور بڑی سے بڑی خدمت کے بوجھ کو برداشت کرتی ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں کی خدمت اور حسن سلوک کا حق باپ کی نسبت سے تین گنا تم پر زیادہ ہے: ’’ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بہتر حق کا اور بہتر مصاحبت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ کہا تمہاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا:کہا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ کہا تمہارا باپ اور پھر تمہارے اور درجہ بدرجہ قریبی رشتے دار‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت کو باپ کی نسبت تین گنا زیادہ اہمیت دی۔
عہد نبوت کی ایک معروف شخصیت حضرت اویس قرنی علیہ الرحمہ ہیں جو یمن کے علاقے قرن کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے علاقے میں کسی صحابی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور پھر انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ’’حضور میری والدہ بوڑھی ہیں، کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ ارشاد فرمائیے میرے لئے کیا حکم ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’تم اپنی ماں کی خدمت کرتے رہو۔ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
ذرا غور کیجئے کہ ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بہرہ ور ہونے والے کو ’صحابی‘ کہتے ہیں اور یہ شرف صحابیت جو محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے ملتا ہے، اس سے بڑھ کر کوئی شرف دنیا میں نہیں۔ ایک آدمی ساری عمر بھی اللہ کی عبادت کرتا رہے تو وہ ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔
حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ علیہ اور ماں کی خدمت:
تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک جو بڑے جیل القدر محدث ہیں، ان سے کسی نے پوچھا ’’امیر معاویہ؟ افضل ہیں یا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز؟‘‘ تو حضرت عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ’’بھائی! تم نے ان دونوں میں عجیب تقابل کیا ہے۔ ان دونوں کا آپس میں تو کوئی مقابلہ ہی نہیں، کیونکہ حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیلئے نکلتے تھے تو جو مٹی اڑکر ان کی ناک میں جاتی تھی جو مقام و مرتبہ اس مٹی کا ہے وہ بھی حضرت عمربن عبدالعزیز کا نہیں ہوسکتا، کیونکہ بعد میں آنے والا بڑے سے بڑا شخص بھی شرفِ صحابیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ اندازہ فرمائیں کہ اتنا بڑا شرف حضرت اویس قرنی علیہ الرحمہ نے ماں کی خدمت کی وجہ سے قربان کر دیا، کیونکہ ان کی والدہ زندہ رہیں اور وہ ان کی خدمت میں لگے رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں باوجود اس کے کہ آپ ہمیشہ اس کیلئے تڑپتے تھے، حاضر نہ ہوسکے، حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ، لیکن ماں کی خدمت کی اطاعت کا جو ان کو صلہ ملا اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا’’عمر! میرے بعد ایک شخص اس حلئے کا جس کا نام اویس ہوگا، یمن سے آئے گا۔ تم اس کو تلاش کرنا۔ اگر وہ تمھیں مل جائے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مستجاب الدعوات بنایا ہے‘‘ یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ آپؒ کو یہ شرف صرف اس وجہ سے ملا کہ آپؒ نے ماں کی خدمت کی، چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے یہ تلاش جاری رکھی کہ جو بھی قافلہ یمن سے آتا آپؓ اس میں معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ اس نام اور حلئے کا آدمی اس میں موجود ہے یا نہیں؟ چنانچہ آپؐ کو ایک دفعہ یہ خبر ملی کہ کوئی قافلہ یمن سے آیا ہے اور اس میں اس نام کے صاحب موجود ہیں تو آپؓ فوراً ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے حیران ہوکر پوچھا کہ حضرت آپ مجھ سے دعا کراتے ہیں حالانکہ آپ کا مقام و مرتبہ تو معروف و معلوم ہے تو پھر آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ سارا واقعہ بیان کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ایک ماں کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
جہاد جو اسلام میں سب سے بڑی عبادت ہے، والدین اگر بوڑھے ہیں اور کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں یا صرف اکیلی ماں ہے اور ان کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خدمت کو جہاد پر اہمیت دی ہے۔ آپ درج ذیل دو احادیث کو ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے عرض کیا: ہاں! فرمایا: واپس جاؤ، ان دونوں کے حوالے سے جہاد کرو یعنی ان دونوں کی خدمت کرو‘‘۔
’’جاہمہ نام کا ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہاکہ اے اللہ کے رسولؐ میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ سے مشورہ کروں۔ فرمایا: کیا تمہاری والدہ ہیں؟ کہا: ہاں! فرمایا: جاؤ جاکر ہر وقت ان کی خدمت کرو۔ اس لئے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔
ان دونوں احادیث میں والدین کو یا والدہ کی خدمت کو جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ان کے والدین یا ان کی والدہ کی نگہداشت کرنے والا کوئی اور نہیں۔ اس لئے آپ نے ان کو والدین کی خدمت یا ماں کی خدمت کو جہاد پر ترجیح دینے کا حکم دیا۔
ماں باپ کی خدمت اور جہاد:
بات یہ ہے کہ اگر جہاد فرض نہ ہوا ہو بلکہ جہاد میں شرکت صرف ثواب کی نیت سے کرنا ہو تو پھر ایسے جہاد کیلئے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے، لیکن اگر جہاد فرض ہوجائے جیسے جنگ تبوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صحابی کو نکلنے کا حکم دے دیا تھا، ایسے جہاد کو فرض عین کہتے ہیں تو پھر سب کا جہاد پر نکلنا فرض ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ ماں باپ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہ سکتے ہوں اور اندیشہ ہو کہ بیٹے کے چلے جانے کی صورت میں ان کی موت واقع ہوجائے گی تو ایسی صورت حال میں ماں باپ کی دیکھ بھال جہاد سے زیادہ درجہ حاصل کرجاتی ہے۔
والدین کی اطاعت قانوناً بھی ضروری ہے اور اخلاقاً بھی:
ماں باپ کی اطاعت کا ذکر ہو رہا ہے تو اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اطاعت ایک تو خدمت کو کہتے ہیں، یعنی ماں باپ کی دیکھ بھال، نگہداشت، ان کی ہر طرح کی مدد اور تعاون لیکن اطاعت کی دوسری صورت ان کے اخراجات کو برداشت کرنا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ کو صرف مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والے دوسرے بھی ہوتے ہیں تو اطاعت جس کو ہم نفقہ کہتے ہیں اولاد پر قانونی طور پر بھی ضروری ہے اور اخلاقی طور پر بھی۔ قانونی طور پر ضروری ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر کوئی اولاد والدین کی جائز ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ عدالت کے ذریعے اس اولاد کو مجبور کرے اور اخلاقی طور پر ضروری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جو مسلمان معاشرے میں قابل نفرت ہونا چاہئے۔ آخرت میں اللہ کے یہاں اس کی شدید باز پرس ہوگی۔ قرآن حکیم نے اولاد کو ماں باپ پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تاکید فرمائی ہے اور دورِ خلافتِ راشدہ میں خلفائے راشدین نے اس کے بارے میں فیصلہ بھی فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے:
’’حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہاکہ اے اللہ کے رسولؐ میرے پاس مال اور دو بیٹے بھی ہیں اور میرے والدین میرے مال کے محتاج ہیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے‘‘۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں ایک ایسے شخص کی شکایت کی گئی جو اپنے والدین کے اخراجات کے تحمل میں کوتاہی کا ارتکاب کر رہا تھا تو حضرت عمرؓ نے اسے حکم دیتے ہوئے یہی جملہ دہرایا یعنی ’’تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کی ملکیت ہے‘‘۔
قرآن کریم نے اولاد کو جو والدین کی اطاعت اور خدمت کرنے کا حکم دیا ہے اس میں یہ قید بھی لگائی ہے کہ ’’والدین کے سامنے فرماں برداری کے بازو محبت سے جھکائے رکھو‘‘۔
یعنی تم اپنے والدین کی خدمت ایک بوجھ سمجھ کر مت کرنا بلکہ تمہاری فرماں برداری کے بازو رحمت اور محبت سے ان کے سامنے پھیلے رہنے چاہئیں، یعنی جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو بوجھ سمجھ کر نہیں پالتے بلکہ نہایت محبت اور پیار سے پالتے ہیں بالکل اسی جذبے کے ساتھ اولاد کو بھی اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کرنی چاہئے اور اگر وہ ایسے ہی جذبے سے اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کریں تو یقین جانئے یہ خدمت اور یہ محبت سے کی ہوئی دیکھ بھال اتنا بڑا ذریعہ ہے کہ آدمی اگر کبھی کسی ایسی صورت حال میں گرفتار ہوجائے جس سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نہ ہو تو اس عمل کے واسطے سے اگر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے رد نہیں فرماتا۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ بیان فرمایا:
ارشاد ہوا کہ تین مسافر راہ میں چل رہے تھے کہ اتنے میں موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ تینوں نے بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی۔ قضارا ایک چٹان اوپر سے اس طرح گری کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہوگیا۔ اب ان کی بے کسی و بے چارگی اور اضطراب و بے قراری کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ ان کی موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی۔ اس وقت انھوں نے پورے خضوع و خشوع کے ساتھ دربارِ الٰہی میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ ہر ایک نے کہاکہ اس وقت ہر ایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ خدا کو دینا چاہئے۔ ایک نے کہا ’’یا الٰہی تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، میں بکریاں چراتا تھا اور انہی پر ان کی روزی کا سہارا تھا۔ میں شام کو جب بکریاں لے کر گھر آتا تھا تو دودھ دوہ کر پہلے اپنے اپنے والدین کی خدمت میں لاتا تھا۔ جب وہ پی چکتے تب اپنے بچوں کو پلاتا تھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دور نکل گیا۔ لوٹے تو میرے والدین سو چکے تھے۔ میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہوا، نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آجاتا اور نہ ہٹتا تھا کہ خدا جانے کس وقت ان کی آنکھیں کھلیں اور دودھ مانگیں۔ بچے بھوک سے بلک رہے تھے مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں۔ میں اسی طرح پیالہ میں دودھ لئے رات بھر سرہانے کھڑا رہا اور وہ آرام کرتے رہے۔ خداوندا! اگر تجھے معلوم ہے کہ میں ںے یہ کام تیری خوشنودی کیلئے کیا تو اس غار کے منہ سے چٹان کو ہٹادے‘‘۔ یہ کہنا تھا کہ چٹان کو خود بخود جنبش ہوئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سرک گئی۔ اس کے بعد باقی دو مسافروں کی باری آئی اور انھوں نے بھی اپنے نیک کاموں کو وسیلہ بناکر دعا اور اور غار کا منہ کھل گیا۔
تیسرا حق والدین کے لئے دعا کرنا:
اولاد پر ماں باپ کا تیسرا حق دعا کرنا ہے۔ اس کا تعلق والدین کی زندگی سے بھی ہے اور والدین کی زندگی کے بعد سے بھی۔ جب تک والدین زندہ رہیں تو آدمی حتی المقدور ماں باپ کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے:
رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیـَانِیْ صَغِیْرًا۔ ’’اے میرے پروردگار! تو ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے‘‘۔
اس میں اشارہ دو باتوں کی طرف ہے۔ ایک تو یہ کہ جو آدمی اپنے والدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کیلئے اس طرح دل سے دعا بھی مانگے گا تو یقینا اس کے دل میں اپنے ماں باپ کی خدمت بوجھ نہیں بنے گی اور پھر اس دعا سے ماں باپ کی محبت کا جذبہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہ امکانی حد تک کبھی اس خدمت سے دریغ نہیں کرے گا اور دوسرا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دنیا میں ہر آدمی کیلئے بہت سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں جن میں دوست احباب ہیں، بیوی ہے، بچے ہیں، ان کی دعاؤں میں یقینا اخلاص بھی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بے لوث اور بے غرض دعا سوائے والدین کے اور کوئی نہیں مانگتا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کے اٹھ جانے سے بے لوث اور بے غرض دعائیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اولاد چاہے کتنے پیار سے دعا مانگے، لیکن کوئی نہ کوئی خواہش کہیں نہ کہیں چھپی ہوتی ہے۔ یہی حال بیوی اور دوست احباب کا بھی ہے، لیکن والدین جب دعا مانگتے ہیں تو اپنی ذات کی مکمل نفی کرکے دعا کرتے ہیں۔
یہاں خدمت کے ساتھ ساتھ جو دعا کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی والدین کا حوالہ بھی ہے تو اس میں شاید اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ دیکھو؛ تمہارے والدین نے جب تمہاری تربیت کی تھی اس میں جہاں ہر طرح کی دیکھ بھال، خیر خواہی، ہمدردی اور ایثار کا جذبہ کار فرما تھا وہیں اس میں تمہارے لئے بے لوث دعائیں بھی شامل تھیں۔ جن کا سلسلہ ان کی زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔ وہ اپنے آپ کو بھول کر ہمیشہ تمہاری بھلائی کی دعا اپنے رب سے مانگتے رہے۔ دیکھنا تم بھی ایسے ہی جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کرنا اور جہاں تک زندگی کے بعد دعاؤں کا تعلق ہے اسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں باپ کے بعد از وفات حقوق میں شامل فرمایا۔
ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ابو سید الساعدی سے روایت ہے کہ’’ ایک وقت جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے بنی سلمہ میں سے ایک شخص آیا اور اس نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! ان کیلئے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا، ان کا اگر کوئی عہدو معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہیں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا‘‘۔
بعد از وفات والدین کے حقوق:
اس حدیث میں ماں باپ کیلئے دعا، اللہ سے ان کی بخشش کی طلب، بندوں میں سے کسی کے ساتھ اگر کوئی عہد ومعاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا، ماں باپ کے تعلق سے جو رشتے بھی ہیں، ان کا لحاظ کرنا اور ان کا حق ادا کرنا اور زندگی میں ان کے جن سے دوستی کے تعلقات تھے ان کا اکرام و احترام کرنا۔
یہ وہ حقوق ہیں جو ماں باپ کی وفات کے بعد بھی اولاد پر باقی رہتے ہیں تو ان میں سب سے پہلا حق ان کیلئے دعائے خیر و رحمت کرنا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب موقع ملے تو آپ اپنے والدین کیلئے دعا کرتے رہا کریں: رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیـَانِیْ صَغِیْرًا۔ ’’اے میرے پروردگار! تو ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے‘‘۔
اس کا فائدہ اس کے والدین کو قبر میں اور آخرت میں انشاء اللہ جو ہوگا سو ہوگا خود اولاد کو بھی اس کا فائدہ پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ نافرمان اولاد کو بھی اس دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماں بردار اولاد میں شامل فرما دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے اور اولاد زندگی میں ان کی نافرمان رہتی اور رضامندی سے محروم ہوتی ہے، لیکن یہ اولاد ان کے انتقال کے بعد سچے دل سے ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے خیر و رحمت کی دعا مانگتی اور بخشش کی التجا کرتی رہتی ہے۔ (اور اس طرح اپنے قصور کی تلافی کرنا چاہتی ہے) تو اللہ تعالیٰ اس نافرمان اولاد کو فرماں بردار قرار دے دیتاہے اور پھر وہ ماں باپ کی نافرمانی کے وبال اور عذاب سے بچ جاتے ہیں‘‘۔
اندازہ فرمائیے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا کرم کیا ہوگا؟ دنیا میں کی ہوئی غلطیوں کی تلافی اور وہ بھی حقوق العباد کے حوالے سے متعلقہ لوگوں کی موت کے بعد، ظاہر ہے کہ ایک ناممکن بات ہے، لیکن پروردگار نے محض اپنے فضل و کرم سے نافرمان اولاد کی کوتاہیوں اور ان کی نافرمانیوں کا ازالہ اس صورت میں فرمایا کہ اگر وہ اپنی کوتاہیوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے لئے مغفرت مانگتے رہیں اور اپنے والدین کیلئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں تو جہاں والدین کو قبر میں رحمت و سکون ملے گا وہاں اس اولاد کے بارے میں بھی امید کی جاسکتی ہے کہ یہ قیامت کے دن عذاب سے بچ جائے گا۔ جہاں تک والدین کے بعد از وفات دوسرے حقوق کا تعلق ہے اس کی پابندی بھی اولاد پر لازم ہے، یعنی انھیں ہر صورت میں اپنے والدین کے معاہدوں کی پابندی کرنی چاہئے۔ وہ اپنے عزیزوں سے جس طرح صلہ رحمی سے پیش آتے تھے، انھیں بھی اس میں کمی نہیں کرنی چاہئے اور زندگی میں جن لوگوں سے انھوں نے اپنی دوستی اور محبت کا تعلق قائم کیا تھا انھیں ان کا احترام ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی احباب کی فہرست میں اپنے والدین کے ملنے والوں کو بھی شامل کرے۔ پھر جس طرح مختلف تقریبات کے حوالے سے وہ اپنے احباب کو یاد رکھتا ہے اسی طرح وہ اپنے والدین کے احباب کو بھی یاد رکھے۔
اپنی والدہ کی سہیلیوں کو بھی مختلف اوقات میں تحائف بھیجتا رہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ہمیں احادیث سے ملتا ہے کہ گھر میں جب کبھی آپ کوئی اچھا کھانا تیار کرواتے تو اپنے والدین کے احباب کو بھی یاد فرماتے، حتیٰ کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھروں میں بھی پکوان بھجواتے۔
ایک حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے قریبی لوگوں سے حسن سلوک اولاد کے ذمہ صرف ماں باپ کا حق نہیں بلکہ خود اولاد کو اس سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ اگر ان سے کوئی ایسا بڑا گناہ ہوجائے جس سے بظاہر بخشش کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو تو والدین کے قریبی لوگوں سے حسن سلوک کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ وہ گناہ بھی معاف فرما دیتے ہیں۔ یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے:
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضورؐ!میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اور مجھے معافی مل سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ماں تو نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں خالہ موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اس کی خدمت کر اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔ (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرمالے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا)۔
والدین کی اطاعت کی دنیوی برکات:
آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ماں باپ کی فرماں برداری کے دنیوی اور اخروی نتائج کیا ہوں گے؟ جہاں تک دنیا میں اس کے نتیجہ خیز ہونے کا تعلق ہے تو اس کا ذکر ہم شروع میں کرچکے ہیں۔ کوئی معاشرہ کبھی حفاظت اور تربیت کے حوالے سے مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں ہوسکتا، جس معاشرے میں والدین کا مقام و مرتبہ محفوظ نہ ہو اور جس میں ماں باپ کے تعلق کو معاشرے کی ایک مضبوط بنیاد کے طور پر قبول نہ کیا جائے، لیکن جہاں تک اس کی دنیوی برکات کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث نقل کرتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی فرماں برداری کرنے والوں کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی خدمت، فرماں برداری اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر میں اضافہ فرما دیتا ہے‘‘۔
دوسری دنیوی برکت یہ ہے کہ جو اولاد ماں باپ کی فرماں برداری اور خدمت کرے گی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو اس کی فرماں بردار اور خدمت گزار بنا دے گا۔ اسی طرح جو لوگ پاک دامنی کی زندگی گزاریں گے اللہ تعالیٰ ان کی بیویوں کو پاکدامنی کی توفیق عطا فرمائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے والدین کی خدمت اور فرماں برداری کرو، تمہاری اولاد تمہاری فرماں بردار اور خدمت گزار ہوگی اور تم پاک دامنی کے ساتھ رہوگے، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔
تیسرا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ والدین کی خدمت سے اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے:’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کے اجل میں تاخیر کی جائے تو اپنا رشتہ پیوست رکھے‘‘۔
مختصر یہ کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت اور بعد از وفات ان کیلئے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرنا، ان کے معاہدوں کی پاسداری کرنا اور ان کے ملنے جلنے والوں سے اچھا رویہ رکھنا۔ یہ وہ قدریں ہیں جن سے خاندان مضبوط و مستحکم ہوتا اور اہل خاندان کو معاشرتی تحفظ میسر آتا ہے۔ نتیجتاً معاشرے میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ ایثار و محبت کی قدریں پروان چڑھتی ہیں اور معاشرے میں رہنے والے لوگ خوشحالی، خوش اطواری اور خوشگواری کی زندگی گزارتے ہیں، لیکن اگر والدین کا یہ ادارہ متاثر ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں پلنے والے بچے ان تمام قدروں سے آہستہ آہستہ محروم ہوجائیں گے جن کا ابھی ہم نے ذکر کیا اور خود غرضی اور خود سری کی لعنتیں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرہ اجتماعی سکون سے محروم ہوکر حیوانوں کا ایک انبوہ بن جائے گا۔ اس لئے ہم اگر ایک زندہ قوم کی طرح اسلامی اطوار کے حامل بن کر ایک آبرو مندانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انتہائی ضروری ہے کہ والدین کے احترام اور حسن سلوک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ باپ کو صحیح احترام دیا جائے، وہ نہ صرف گھر کامرکز ہے بلکہ وہ گھر کا سربراہ بھی ہے، جس طرح گھر بھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بچے اپنے کندھے پر اٹھائیں اسی طرح بچے ا س کے نقوش قدم کو بھی اپنے لئے ایک نعمت سمجھیں۔ اس لئے اسلام نے باپ کی طرف پاؤں پسارنے سے، اس کے آگے چلنے سے، اس کے سامنے بلند آواز سے بولنے سے اور اس کی رضامندی سے ہٹ کر فیصلہ کرنے سے منع فرمایا اور جہاں تک حسن سلوک کا تعلق ہے تو ماں کو باپ سے تین گنا بڑھ کر اس کا مستحق ٹھہرایا گیا، کیونکہ جو بے تکلفی اولاد کو اپنی ماں سے ہوتی ہے باپ سے نہیں ہوتی۔ البتہ رہنمائی کا فریضہ چونکہ باپ کو انجام دینا ہے اس لئے اولاد اور باپ میں ایک فرق رکھتے ہوئے اس کے احترام کی زیادہ تاکید فرمائی اور ماں کو حسن سلوک کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ محترم بنایا گیا۔ بہر حال والدین ہی اولاد کی جنت بھی ہیں اور جہنم بھی۔ انہی کے حوالے سے معاشرہ بنتا اور بگڑتا بھی ہے اور یہی وہ نعمت ہیں جن کی قدر کرکے قومیں دنیا میں سرفراز ہوتی ہیں۔
’’تمہارا رب خوب واقف ہے اس سے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اگر تم نیک رہوگے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بڑا بخشنے والا ہے‘‘ (سورہ بنی اسرائیل،آیتـ: 25)۔
والدین کی خدمت کی انتہائی تاکید کے بعد بھی پروردگار نے اس آیت میں مزید ایک بات کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ یہ کہ اگر تم والدین کی خدمت اوپر دل سے کرتے رہے، محض یہ سمجھ کر کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور یا لوگوں کو خوش کرنے کیلئے، لیکن تمہارا دل اس میں شریک نہیں تھا تو یاد رکھو؛ یہ خدمت اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں ہوگی۔ اس کیلئے انتہائی پاکیزہ قلبی، جذبۂ محبت اور دلی لگاؤ بھی بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ خدمت کو بھی دیکھتا ہے لیکن اس کی نگاہ دلوں پر بھی رہتی ہے کہ خدمت کرنے والا کس طرح کے جذبے سے خدمت کر رہا ہے۔ البتہ اس میں ایک اطمینان کی بات بھی ہے کہ آیت کے دوسرے حصے میں فرمایا کہ اگر تم نے اپنے دلی جذبات کو درست رکھا اور دل سے خدمت بجالانے کی کوشش کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتے رہے کہ کوئی کمی بیشی ہوجائے تو معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ کا کرم یہ ہے کہ ان جذبات کے ساتھ اگر خدمت میں کوئی کمی بھی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ نظر کرم سے محروم نہیں کرتا بلکہ وہ ایسی تمام غلطیوں کو جو بے خیالی میں ہوجاتی ہیں معاف کرنے والا ہے۔