ایٹمی جنگ کا اندیشہ بڑھا!

0

کسی ملک سے کی جانے والی جنگ کے اثرات اسی ملک تک محدود نہیں رہتے۔ اس کے اثرات سے حملہ آور ملک کے ساتھ کئی دیگر ممالک بھی بچ نہیں پاتے۔ عراق جنگ کے وقت دنیا کے بیشتر ممالک یہ بات سمجھ نہیں پائے تھے یا یہ کہیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ امریکہ کے ساتھ کئی یوروپی ملکوں نے بھی عراق کے خلاف جنگ لڑی تھی مگر اب انہی ملکوں کو یوکرین جنگ نے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ جنگ کی توسیع یوروپ کو کہیں ایک اور عالمی جنگ کا میدان نہ بنا دے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جرمنی جیسے ان ملکوں نے بھی یوکرین کی مدد میں فراخ دلی دکھائی ہے جن کے روس سے اچھے تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ یوروپی ممالک چاہتے ہیں کہ یوکرین جنگ کسی بھی حال میں ختم ہو یا یہ جنگ روس جیت نہ پائے، اسے شکست سے دوچار ہونا پڑے لیکن یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ روس اگر یوکرین جنگ جیتے گا تو وہ آگے بڑھے گا، ’وارسا پیکٹ‘ کے دور کو واپس لانا چاہے گا تاکہ ناٹو کی مسلسل توسیع اس کے لیے باعث تشویش نہ بنے، یہ فکر اسے نہ رہے کہ یوکرین جیسا اس کا کوئی پڑوسی ملک اگرناٹو کی رکنیت لے لیتا ہے تو امریکہ کے لیے اسے مرعوب کرنا آسان ہوجائے گا اور اگر روس کو شکست نظر آنے لگی تو وہ ایٹم بم کو سجاکر نہیں رکھے گا۔ یہ بات اس لیے بھی کہی جا سکتی ہے، کیونکہ روسی سربراہ ولادیمیر پوتن اور دیگر روسی لیڈروں نے ایٹم بم کا ذکر ایک سے زیادہ بار چھیڑاہے۔ ولادیمیر پوتن کی باتیں اگر باتوں تک ہی محدود رہتیں تو یہ بات سوچی جا سکتی تھی کہ مستقبل قریب میں ایٹم بم کے استعمال کرنے یا ایٹمی جنگ چھڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے مگر بات آگے بڑھ چکی ہے، اسی لیے اب اس سوال کی زیادہ اہمیت نہیں رہ گئی ہے کہ کیا دنیا ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے بلکہ یہ سوال اہمیت کا حامل ہوگیا ہے کہ یوکرین جنگ میں توسیع اسی سال ہوجائے گی یا اگلے سال ہوگی یا اس کے بعد والے سال میں؟
مطلب یہ بات طے سی ہے کہ دنیا کے لیے یہ سال اور آنے والے سال بے حد اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ایک طرف چین اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بے چین ہے اورتائیوان کے خلاف کبھی بھی وہ جنگ چھیڑ دے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، دوسری طرف امریکہ چین کی بڑھتے ہوئے دائرۂ اثر کو محدود کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کی ساکھ کے لیے چنوتی نہ بنے۔ امریکہ روس کو بھی کمزور دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے اس نے یوکرین کی بھرپور مددکی ہے مگر اس کی مشکل یہ ہے کہ روس، عراق نہیں ہے۔ اس کے خلاف براہ راست جنگ چھیڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین جنگ میں اور شدت آجائے گی، روس ایٹم بم استعمال کرنے کے اندیشوں کو حقیقت میں بدل دے گا مگر کیا امریکہ کے براہ راست جنگ نہ کرنے سے ایسا نہیں ہوگا؟ یہ سوال جواب طلب ہے، کیونکہ بات اب پہلے والی نہیں رہ گئی ہے۔ روس کو یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ یوکرین تنہا اس سے نہیں لڑ رہا ہے، اس کے ساتھ بالواسطہ طورپر امریکہ اور متعددیوروپی ممالک بھی لڑ رہے ہیں، اس لیے اس کا بہت دیر تک مضبوطی سے جمے رہنا آسان نہیں ہوگا اور اگر وہ جما بھی رہے گا تواس کی اقتصادیات خستہ ہوتی جائے گی اور پھر اس کے لیے جنگ لڑنا آسان نہیں ہوگا۔ غالباً اسی لیے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بیلاروس میں ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان کیا ہے اور رپورٹ یہاں تک آئی ہے کہ بیلا روس میں ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کی سہولتوں کی تعمیر یکم جولائی تک پوری ہوجائے گی۔ یوکرینی حکومت نے بجا طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے مگر یہ ہنگامی اجلاس بلانے یا مختلف ملکوں کے روس کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کر دینے سے کیا ہوگا؟ پوتن نے اگر ان باتوں کا خیال کیا ہوتا تو یوکرین پر روس حملہ ہی نہ کرتا مگر اس نے کیا، کیونکہ اس کا موقف واضح تھا کہ اسے یہ منظور نہیں کہ اس کا پڑوسی یوکرین ناٹو کی رکنیت لے۔ بات سوچنے والی بھی تھی کہ آخر ناٹو کی رکنیت لینے کی یوکرین کو ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ پھر وار سا پیکٹ کے تحلیل ہو جانے کے بعد ناٹو کو قائم رکھنے اوراس کی مسلسل توسیع کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ روس کے بیلا روس میں ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کی سہولتوں کی تعمیر کے اعلان سے حالات اور سنگین ہوگئے ہیں،کیونکہ یہ اعلان روس نے چینی صدرشی جن پنگ کے دورۂ روس کے بعد کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چین نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ جولائی کے بعد تائیوان پر حملہ کرے گا، اس لیے روس پہلے سے تیار رہنا چاہتا ہے تاکہ اس وقت اسے دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ دنیا بدترین دور کی طرف بڑھ چکی ہے۔ اس وقت وہی لوگ مطمئن رہیں گے جو حالات کو سمجھیں گے اور اسی مناسبت سے آگے بڑھیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS