سرکاری نظام کے آگے ہار چکے ہیں کرگل شہیدوں کے کنبے، شہید کے کنبے کو اعزاز دینے کی باتیں تو بڑی بڑی ہوتی ہیں

0

جھنجھنو:کرگل لڑائی کے دو دہائی گزر جانے کے بعد آج بھی شہیدوں کے کنبے اپنے حق اور عزت کےلئے دردر کی ٹھوکریں کھاکر سرکاری . ظام کے آگے ہار مان
چکےہیں۔
راجستھان میں ضلع جھنجھنو کے باسمانا کے شہید ہوا سنگھ کا کنبہ حکومت کے ذریعہ اعلان شدہ مدد کا اب بھی انتظار کررہا ہے۔حکومت نے پہلے ہی کنبوں کو
سرکاری فیصلے کے مطابق مدد نہیں دی۔پھر جو دیا وہ بھی چھین لیا۔شہید کنبوں سے ان کی زندگی جینے کےلئے دی گئی سہولیات چھیننے والی یہ داستان سرکاری
نظام کی حقیقت بیان کرتی ہے۔
باسمانا گاؤں اس دن فخر محسوس کررہا تھا جب یہاں کا لاڈلا ہواسنگھ کرگل کی لڑائی میں شہید ہوگیا۔جب ہوا سنگھ کی لاش ترنگے میں لپٹا گاؤں پہنچا تو سبھی کی آنکھیں
نم تھیں۔اس وقت حکومت نے شہیدوں کو کئی سہولیات مہیا کرانے کا اعلان کیا تھا۔اس میں پٹرول پمپ،کنبے کے ایک رکن کو سرکاری نوکری وغیرہ شامل تھیں،لیکن شہید
کی بیوی منوج دیوی کو ایم اے بی ایڈ تک پڑھے ہونے کے بعد بھی نوکری نہیں ملی۔کنبے کی گزر بسر کرنے کےلئے جو پٹرول پمپ ملا تھا،اسے کچھ سال بعد ہی کمپنی
نے دھوکے سے واپس لے لیا۔اب صرف دفتروں کے چکر لگانے کے علاوہ کنبے کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
شہید کے گھروالے بتاتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری نظام میں اپنی سہولیات کو دم توڑتے دیکھا ہے۔اب وہ خود ہارکر بیٹھ گئے ہیں اور اب انہیں امید بھی کم ہی ہے کہ
انہیں جو مدد ملنی تھی وہ انہیں ملے گی۔حالانکہ شوہر کی شہادت سے دو سال پہلے شادی ہوکر آئی شہید کی بیوہ کو اب بھی شوہر کے شہید ہونے پر جو عزت ملی اس
پر اسے اب بھی فخر ہے۔باسمانا فوجیوں کا گاؤں بھی ہے۔یہاں کے سابق فوجی بابو لال نے بتایا کہ ہوا سنگھ بھی عمر میں چھوٹا تھا۔لیکن ملک کے لئے اس کے
جذبےکہیں پر بھی چھوٹے نہیں تھے۔ہونہار تھا،جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
کرگل کی لڑائی میں شہید ہوئےضلع کے سیتھل گاؤں کے شہید حولدار منی رام کی شہادت کو دو دہائی سے زیادہ وقت گزر گیا،لیکن اب بھی شہادت کا اعزاز دینے میں
حکومت کوئی زیادہ فکرمند نظرنہیں آتی ہے۔شہید کے دو بیٹے نوکری کا انتظار کررہےہیں۔تووہیں جس اسکول کانام شہید کے نام سے کیا گیا تھاوہ بھی اب بند ہوگیا ہے۔
سیتھل کے شہید حولدار منی رام مہلا کرگل کی لڑائی کے دوران آپریشن وجے میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے تین جولائی 1999 کو شہید ہوگئے اور شہادت کے تین دن
بعد چھ جولائی 1999 کو ان کی لاش ان کے گاؤں پہنچی۔گاؤں والے بتاتے ہیں کہ 1999 میں جب گاؤں میں پہلی بار کسی شہید کی لاش آئی اس وقت کا جو گاؤں کا
ماحول تھا،اسے یاد کرکے آج بھی لوگ جذباتی ہوجاتےہیں۔شہید کے کنبے  کو اعزاز دینے کی باتیں تو بڑی بڑی ہوتی ہیں۔لیکن دو دہائی گزرجانے کے بعد بھی منی رام
کے کنبے کو اب بھی اعزاز نہیں ملا ہے۔جو اعزاز ملا،وہ بھی واپس ہوچکا ہے۔
شہید کی بیوہ منی دیوی نے بتایا کہ جب ان کے شوہر شہید ہوئے تھے تو انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کے بیٹوں میں سے ایک کو سرکاری نوکری ملے گی،لیکن حکومت بدلی
تو اصول بھی بدل گئے۔اب سرکاری نوکری کےلئے وہ دو دہائی سے چکر لگا رہی ہیں۔اس کے علاوہ گاؤں  کے جس اسکول کا نام ان کے شوہر کے نام پر رکھا گیا تھا۔وہ
بھی مرج کردیا گیا ہے۔شہید  منی رام نے دراس سیکٹر میں دشمنوں سے لڑائی لڑی اور شہید ہوگئے،لیکن اب ان کا کنبہ سرکاری نظام سے لڑ رہا ہے ،لیکن نہ تو حکومت
اور نہ ہی انتظامیہ  اس جانب کوئی توجہ دے رہا ہے جو حقیقت میں شہید اور شہادت دونوں کی توہین ہے۔
نہ صرف ہوا سنگھ  اور منی رام بلکہ درجنوں کرگل شہیدوں کے کنبوں کو ملنے والی سرکاری نوکریاں  لال فیتا شاہی میں دب گئی ہیں۔کچھ کو ملی اور کچھ کو نہیں،لیکن
حکومت آئی اور گئی،لیڈر آئے اور گئے،یقین دہانی سبھی نے کی۔لیکن ان کے دکھوں کو مرہم لگانے کا کام کسی نے نہیں کیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS