کاغذی صحراکے سراب میں زندگی کے مرجھاتے گلاب

0

محمد حنیف خان

قدرتی عطیات سے مالا مال ملک ہندوستان کی دو ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں،جنہوں نے ہر ذی شعور کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایک تصویر زمینی ہے اور دوسری کاغذی۔ دوسری تصویر جہاں صحرا میں سراب اور آنکھوں میں امیدوں کے دیے جلاتی ہے تو وہیں پہلی تصویر ان آنکھوں کے دیے کا پانی بھی کشید کر لیتی ہے اور زندگی صحرا کی طرح ویران،حیران و پریشان نظر آتی ہے۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی معیشت برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ کر پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گئی ہے۔ امریکہ ، چین، جاپان اور جرمنی کے بعد ہندوستان کا مقام ہے۔ آزادی کے 75ویں برس جب ہندوستان آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے تو اس رپورٹ نے اس خوشی کو دوبالا کردیا اور اہل حل و عقد ہر طرف بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں کہ وہ ملک جس کے زیر نگیں ہندوستان تھا، آج ہم سے معیشت میں شکست کھا کر پچھڑ گیا ہے ۔اس مقام پر پہنچانے میں سب سے زیادہ کردار زراعت نے ادا کیا ہے۔محکمہ شماریات نے اس حوالے سے امید افزا اعداد و شمار بھی جا ری کیے ہیں۔ معیشت کی رفتار اتنی تیز ہے کہ چین تو اس کے آس پاس بھی نہیں ہے۔ چین کی معیشت کی رفتار جہاں 0.4 فیصد رہی، وہیں ہندوستان کی اپریل تا جون سہ ماہی میں 17.6فیصد رہی جو گزشتہ اسی سہ ماہی میں 10.5فیصد تھی۔ شعبہ زراعت میں اضافے کی رفتار 4.5فیصد تھی جو گزشتہ سہ ماہی میں 2.2فیصد تھی۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی معیشت کی رفتار کس قدر تیز ہے۔اخبارات کی سرخیوں اور ٹی وی چینلوں کی خبروں اور مباحثوں میں راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا ہے، لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راوی کی نظروں میں جو سرسبزی اور شادابی سمائی ہوئی ہے یا اس کی شریانوں میں جس خوشی کا خون دوڑ رہا ہے وہی پورے ہندوستان کے عوام کی شریانوں میں بھی ہے؟کیا اس سرسبزی اور شادابی سے دوسری آنکھیں بھی سرشار ہیں؟تو اس کا جواب نفی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی)نے حال ہی میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں وہ حد درجہ خطرناک ہیں۔اس سے دو ہندوستان سامنے آتے ہیں ایک وہ جس کی زندگی میں صرف چین ہی چین ہے،جس کی دولت میں دن دونا اور رات چوگنا اضافہ ہوتا ہے جس کے حوالے سے بلوم برگ جیسے ادارے جب اعداد و شمار جاری کرتے ہیں تو ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں دکھائی دیتی ہیں اور ایک وہ ہندوستان جس کی زندگی آج بھی اجڑی ہوئی ہے،جس میں بچے بھوکے ہیں،ماؤں کی مانگیں سندور سے خالی ہیں اور بنیادی ضروریات تعلیم اور علاج و معالجہ کے فقدان میں زندگیاں جہنم بنی ہوئی ہیں۔غریب خود کشی میں نجات تلاش کر رہے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں 7.17فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جہاں 2020میں 153052افراد نے خود کشی کی تھی، وہیں اس سال 7.17فیصد کے اضافے کے ساتھ 164033افراد نے موت کو گلے لگا کر غموں سے نجات حاصل کی۔جس میں سب سے زیادہ یومیہ مزدور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر چوتھا خودکشی کرنے والا یومیہ مزدور ہے ۔ان مزدوروں کی خود کشی میں 11.52فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی آر بی)کے مطابق خود کشی کے اہم اسباب میں پیشے یا کریئر سے متعلق مسائل، تنہائی کا احساس، غلط رویہ، تشدد، ذہنی تناؤ اور مالی نقصانات ہیں۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ خود کشی کرنے والوں میں کم آمدنی والوں کی کثرت رہی ہے ،جن افراد نے اس برس خودکشی کی ہیں، ان میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو سال میں ایک لاکھ روپے بھی نہیں کما پاتے تھے، اسی طرح چھوٹے کاروباری،یومیہ مزدور ،نوکری کرنے والے اور طلبا نے بھی کثیر تعداد میں خود کشی کی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی معیشت میں اگر اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا تعلق عوام کی خوشحالی اور غریبوں کی آمدنی میں اضافے سے کتنا ہے۔
یہ دو رپورٹیں ہندوستان کی دو تصویریں پیش کرتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کن خطوط پر جا رہا ہے اور اہل اقتدار کی نظروں میں عوام کی کتنی اہمیت ہے۔ٹی وی مباحثوں اور اخبارات میں ہندوستانی معیشت کے اضافے پر تو خوشیاں ظاہر کی جا رہی ہیں اور اہل اقتدار کی قصیدہ خوانی کی جا رہی ہے کہ کووڈ19کے بعد کس طرح سے معیشت کو دھار دی ہے۔ اس اضافے کا سہرا تو ان کو دیا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی ان غریبوں کی خودکشیوں کے نہ تو اسباب پر بات کرتا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اس کے پس پشت عوامل پر نظر ڈالتا ہے۔رپورٹ میں یہ تو بتا دیا گیا کہ زراعت، جی ایس ٹی اور دیگر شعبوں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ہندوستان دنیا کی پانچویں معیشت بن گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ مہنگائی،جی ایس ٹی اور دیگر کئی طرح کے ٹیکس کی وجہ سے عوام کی زندگی جہنم بن گئی ہے،جس کا سب سے زیادہ اثر غریبوں کی زندگی پر پڑا ہے جس کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے اقدام کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔
دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بنانے میں شعبہ زراعت کا سب سے اہم کردار تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس شعبے سے وابستہ افراد کی زندگیوں،ان کی خوشیوں اور دشواریوں سے متعلق نہ تو کوئی رپورٹ آئی ہے اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی گفتگو ہوئی ہے۔کسان ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں کیونکہ یہ موسم کی پروا کیے بغیر جی توڑ محنت کرکے پیداوار کرتے ہیں،ان کو یہ نہیں پتہ ہوتا ہے کہ جو وہ کھیتی کسانی میں لگا رہے ہیں وہ واپس بھی آئے گایا نہیں۔وہ بیج تو خریدتے ہیں پانچ سو روپے کلو لیکن اسی بیج سے جب غلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ محض بیس روپے کلو فروخت ہوتا ہے۔جراثیم کش دوائیں اور کھاد پر اس قدر خرچ ہوتا ہے کہ پیداوار کی فروختگی کے بعد ان کے ہاتھ میں قوت لا یموت کے سوا کچھ نہیں آتا۔منڈی اور بچولیے ان کی پیداوار کو کھا جاتے ہیں لیکن ان کی پیداوار جب دوبارہ پروسیسنگ کے بعد مارکیٹ میں آتی ہے تو بیس گرام آلو کے چپس کی قیمت پچیس روپے ہوتی ہے۔اس طرح شعبہ زراعت ملک کی معیشت کو رفتار دینے اور اس کے حجم میں اضافے کا تو سبب بنتا ہے اور اس سے غیر متعلق کاروباری بھی خوب خوب منافع اٹھاتے ہیں۔ مگر وہ افراد جو براہ راست اس سے وابستہ ہیں،جو دن رات اپنے کھیتوں میں خون پسینہ ایک کرتے ہیں، ان کی زندگی خوشیوں سے دور رہتی ہے اوروہ خودکشی پر مجبور ہوتے ہیں۔
حکومت کسانوں کی پیداوار کی مناسب قیمت کے لیے ایم ایس پی کا بھی تعین نہیں کرتی ہے۔وہ دھان اور گندم پر اگر ایم ایس پی دیتی بھی ہے تو صرف اپنے خریداری مراکز پر ہی دیتی ہے، منڈیوں کو مجبور نہیں کرتی ہے کہ وہ بھی سرکاری قیمت پر خریداری کریں اور خود حکومت کے غلہ خریداری مراکز پر کسانوں کے ساتھ جو دھاندلیاں کی جاتی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ایسے ملک کی معیشت میں تو اضافہ ہوسکتا ہے ۔دھنا سیٹھوں، کاروباریوں اور پروسیسنگ کارخانہ والوں کا بینک بیلنس بڑھ سکتا ہے لیکن کسانوں کی حالت نہیں سدھر سکتی ہے۔اسی طرح ان افراد کی زندگیوں میں بھی خوشیاں نہیں آسکتی ہیں جو کھیتوں میں مزدوری کا کام کرتے ہیں کیونکہ جب کسانوں کا ہی پیٹ نہیں بھرے گا تو بھلا وہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو کتنا اور کہاں سے دیں گے جس سے ان کی زندگیاں خوشحال ہوجائیں۔جن یومیہ مزدوروں نے اس برس سب سے زیادہ خود کشی کی ہے، ان میں کھیتوں میں کام کرکے پیٹ پالنے والوں کی اکثریت ہے ۔دیہات میں جب کھیت ان کے پیٹ نہیں بھرتے ہیں تو یہ شہروں کی جانب مزدوری کے لیے نکل جاتے ہیں،جہاں کارخانوں میں ان کا استحصال ہوتا ہے۔حکومت کو ملک کے غریب طبقات کی جانب دیکھنا چاہیے کیونکہ ہندوستان کی شناخت زراعت سے ہے اور اس سے وابستہ افراد کی زندگیوں میں اگر خوشیاں نہیں ہیں تو کاغذی سطح پر معیشت میں اضافہ اور اس کے حجم کی وسعت سے ملک کا بھلا نہیں ہونے والا ہے۔ یہ رپورٹ کاغذی صحرا کے سراب میں زندگیوں کے مرجھاتے گلاب کی دستاویز کے سوا کچھ نہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS