اسرائیل کے مسئلہ فلسطین اورعربوں کے تئیں کیا رخ ہے وہ کسی سے کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہی ۔ 1992 کے اوسلو سمجھوتے کے تناظرمیں اگرچہ اسرائیلی قیادت کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے راضی ہوناپڑاتھا مگر صہیونی قیادت نے کبھی نہیں چاہا کہ فلسطینی عوام کی آزادی اور عرب کے ساتھ پرامن طریقہ سے زندگی پسند کریں۔ 1947اور 1967کے بعد کے حالات اور اب تک کا اسرائیلی ریکارڈ بالکل ایسا ہی رہا ہے۔ اسرائیل کے قول و عمل سے کبھی بھی یہ ظاہرنہیں ہواہے کہ وہ 1993کے سمجھوتے کے تئیں مخلص تھا۔ اب برطانیہ میں اسرائیل کی سفیر نے اس حقیقت کوبیان کرہی دیاجو ارض فلسطین پر معصوم بچوں اور عورتوں کے خون سے صاف لکھی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی نیت اور حکمت عملی سے بالکل بھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ کیاچاہتا ہے۔ ہتھیار سازی کو ایک مکمل صنعت کے طورپر اختیار کرنا اور تمام عالمی اداروں پر امریکہ برطانیہ اوراس کے حواریوں کے ذریعہ کنٹرول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہرمحاذ ہرمیدان عمل پرمکمل کنٹرول کرکے من مانی کرنا چاہتاہے، امریکہ کی قیادت کی ’بے بسی‘ بالکل صاف دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کاویڈیو وائرل ہوا جس میں وہ صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم اوراپنے مکروہ عزائم کوبیان کررہے ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے مگر پھر بھی عالمی برادری کی بے حسی اوربے بسی کی طرف واضح اشارہ ہے۔ دومہینہ سے چلی آرہی غزہ پراسرائیل کی قومی بربریت میں ہر روزسیکڑوں اموات کا اضافہ ہورہاہے اس بے ہنگم جابروظالم ملک کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسرائیل کا گیم پلان الگ ہے اور امریکہ اورمغربی حواریوں کی ریشہ دوانیاں الگ ہیں۔ امریکہ غزہ کو بھی فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں منتقل کرناچاہتاہے تودوسری طرف اسرائیل مغربی کنارے سے فلسطینی اتھارٹی کو بے دخل کرنے اور اس کے بچے کھچے نظام کو نیست ونابود کرناچاہتا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل تمام فلسطینیوں کے خلاف اسی طرح قومی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے جس طرح اور جس ’مستقل مزاجی‘ کی غزہ میں کررہاہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ ’دشمن‘ کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال نہیں کرپارہا ہے، کیونکہ مغربی کنارے میں آبادی صرف فلسطینیوں کی نہیں ہے وہاں دنیا بھر سے دھونڈھ ڈھونڈ کر لائے گئے یہودی بسائے گئے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر یہودی بستیاں ہیں اور درمیان میں گھیٹو میں فلسطینی رہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس کی فوجی حکمت عملی زمینی کارروائی کرنے کی ہے۔
اسرائیل نے مغربی کنارے سے نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کا صفایا کرنے کاپروگرام بنایا ہے اور رملہ جو کہ فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اسرائیلی فوجی نظام فلسطینی اتھارٹی کے دفاتر کے قریب سے قریب تر آرہا ہے اور چند میٹر کے فاصلہ پر اسرائیلی فوجی دستے ’دہشت گردوں‘ کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ قارئین کومعلوم ہوگا کہ فلسطینی اتھارٹی پی ایل او کے قبضہ میں ہے اور اس کی سیاسی جماعت ’الفتح‘ اور ’پی ایل او‘ سے وابستہ تربیت یافتہ جنگجواسی خطے میں قانون والے ادارے اور پیراملٹری دستوں کی طرح خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ ادارے اورفلسطینی اتھارٹی رملہ کے قرب وجوار کے علاقوں پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیںاور اب بہت شدت کے ساتھ فلسطینیوں کے دیگر ادارے، مجاہد اور لڑاکے—— اسرائیل کی فوجی کاررائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ غزہ پرحملہ سے بہت پہلے اسرائیل مغربی کنارے پر اپنا بالکل منفرد آپریشن چلائے ہوئے ہیں جس میں وہ ’اسلامک جہاد‘ اور دیگر مقامی طورپر سرگرم حریت پسندوں کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں۔ 7اکتوبر کے بعد سے تواس کے فوجی آپریشن میں زیادہ شدت آگئی ہے۔ ہر روز کئی کئی مورچوں پراسرائیل کے فوجی آپریشن چلا رہے ہیں اور اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو باقاعدہ منتقل کرنے کی پالیسی اختیارکیے ہوئے ہے۔ اسرائیلی فوج عام شہریوں اور نام نہاد مجاہدین کے خلاف مظالم اور قتل کرکے پی اے کے حکام کو منتقل کرنے کی ہے۔ اتھارٹی کے خلاف جذبات اور ناراضگی کو بڑھانااورعام فلسطینی کویہ باور کرانا ہے کہ محمود عباس کی قیادت والی یہ انتظامی اکائی بے اثر اور نالائق ہے اور اسرائیل حکام اور فوجی کارروائی کے سامنے اس کی کوئی حیثیت اور افادیت نہیں ہے اوراسرائیلی فوج جو کرنا چاہتی ہے، کررہی ہے۔ اس سے عام فلسطینی کے دل میں خوف بھی پیدا ہونا ہے اور پی ایل اتھارٹی کی بے بسی بھی ظاہر ہورہی ہے۔
چندروز قبل بنجامن نتن یاہو فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں بیان دے چکے ہیں کہ ’وہ اسرائیل کو مرحلہ وار طریقہ سے تباہ کرناچاہتی ہے۔‘ اسرائیلی میڈیا میں ان کا بیان آیاہے جس میں وہ حماس اور پی ایل کا موازنہ کررہے ہیں ’وہ حماس ہم کوابھی اوریہیں برباد کرنا چاہتا ہے اور پی ایل مرحلوں میں یہ کام انجام دیناچاہتی ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ غزہ میں بھی پی ایل نظام سنبھال لے اورجنگ بندی کے بعد دونوں علاقوں ——مغربی کنارے اور غزہ میں انتخابات کرادیے جائیں اور ایک نمائندئہ فلسطینی قیادت دو ریاستی منصوبے کے مطابق مذاکرات کرے——گزشتہ روز کا برطانیہ میں اسرائیل کی سفیر کابیان اس سلسلہ کی کڑی تھی۔ یعنی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام قطعی ممکن نہیں ہے اور آج حماس توکل فلسطینی اتھارٹی یا پی ایل او کی باری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بنجامن نتن یاہو پی ایل او، یا الفتح کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ انھوںنے فلسطینی اتھارٹی کوختم کرنے کا ہدف طے کیاہے۔
پی اے یا فلسطینی اتھارٹی 1993کو اوسلو سمجھوتے کے بعد قائم کی گئی تھی، اس معاہدے کے تحت مغربی کنارے میں ایک عبوری نظام کیاجاناتھا اوراس کے بعد وہاں مذکورہ بالا دونوں علاقوں اور مشرقی یروشلم میں آزاد اور خودمختار حکومت قائم کی جانی تھی مگر تین دہائیوں سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو اپنے عزائم سے نہیں روک سکی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کررہا ہے اور لگاتار کررہا ہے اور اس کو کوئی نہیں روک پایاہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کو پی ایل اتھارٹی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوںکاتعاون ملتاتھا۔ یعنی فلسطینی مجاہدین آزادی کے خلاف کارروائی میں فلسطینی اتھارٹی کو صہیونی حکومت کا ساتھ دینا تھا۔n
فلسطینی ریاست کے معدوم ہوتے امکانات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS