غزہ لہو لہان عالمی معیشت پر بحران کے دہانے پر

0

اسرائیل کی ہٹ دھرمی بربریت نے مغربی ایشیا کے امن کوبرباد کردیاہے تواس سے پوری دنیا کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں۔ غزہ کابحران پورے خطے اور اب پوری دنیا کو اپنی زد میں لے رہاہے۔ اب آہستہ آہستہ مگر یقینی طورپر عالمی معیشت اس سے متاثر ہونے لگی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں اس کااثر اورواضح ہوجائے گا۔ خطے کا امن وامان تباہ ہونے سے اس خطے میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور سخت گرمی والے خطے کے سیاحت کے لیے جو غیرملکی سیروتفریح کے لیے سردیوں میں یہاں آتے تھے، اب نہیں آرہے ہیں۔
مجموعی طورپریہ اس بحران کا براہ راست اثر جن ممالک پرپڑا ہے، ان میں اسرائیل اور فلسطین کے علاوہ لبنان، مصر اور اردن بھی شامل ہیں۔ لبنان میں سرگرم سیاسی اور فوجی قوت حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ سیدھا مورچہ لیا ہے اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کی اور اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائیوں نے لبنان کے سیاسی اور غیرسیاسی استحکام کو بری طرح متزلزل کیا ہے۔ لبنان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی عام لوگ اور کاروبار اور اقتصادی سرگرمیوں میں ملوث افراد اسرائیل سے تو کیا کسی بھی دوسرے ملک سے جنگ یاخانہ جنگی کی ہلکی سی رمق نہیں چاہتے ہیں۔ اسرائیل جنگ میں تمام غیرانسانی طور طریقہ اختیار کرتا ہے اور براہ راست اسکولوں، اسپتالوں، رہائش گاہوں اور تجارتی اور رفاہی تنصیبات کونشانہ بناتاہے۔ لبنان طویل عرصہ سے سیاسی اور اقتصادی بحران سے گزررہاہے، حالات یہ ہیں کہ کسی بھی وقت وہاں خانہ جنگی چھڑسکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے سماج کے تانے بانے کو تباہ کردیاہے اور کرنسی صفر ہوگئی ہے اورقومی کرنسی کی جگہ امریکی ڈالر میں کاروبار اور لین دین ہورہاہے۔ معیشت کی خرابی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ وہاں فوج اور دفاعی اداروں اور ایجنسیوں کو تنخواہ دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ مستقل اور مکمل بجٹ اس لیے پاس نہیں ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی مستقل حکومت یا عہدیدار کام نہیں کررہاہے۔ سارے عہدیداران عبوری ہیں اور سارے انتظامات عارضی ہیں۔ ایسے حالات نے غزہ کے بحران اور اسرائیل وحماس ٹکراؤ کے حالات کو بد سے بدتر کردیاہے۔ ایسے حالات میں اسرائیل نے غزہ میں سرگرم اور مقتدر حماس کونشانہ بنانے اور فلسطینیوں کو نیست ونابود کرنے کی جستجو میںحزب اللہ کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے جو غزہ کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل نے عام لوگوں اوریہاں تک کہ صحافیوں کو براہ راست گولہ باری کرنے اور جان بوجھ کر ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کی پرانی روایت کو اختیار کیاہوا ہے۔ لبنان کے عوام اور ارباب اقتدارکو لگتاہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے تنازع میں عام لبنانی شہری کیوں اپنی جان کی قربانی دے۔ مذکورہ بالا تینوں ممالک غزہ بحران سے بدترین طریقہ سے متاثرہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کا مصر کی سرزمین پر منتقل ہونا مصر کی معیشت کو متاثر کرنے والا ہے۔ ویسے بھی مصر اس وقت بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ کساد بازاری کا دور ہے، غیرملکی کرنسی کے ذخائر لگاتار کم ہورہے ہیں۔ غیرملکی قرضہ کابوجھ لگاتاربڑھتاہی جارہاہے کہ اس دوران انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس بحران سے چھٹکارا دلانے کے لیے 3بلین امریکی ڈالر کاقرض دیاہے۔ مگر یہ قرضہ حاصل کرنے میںآئی ایم ایف نے غزہ کے بحران کو مدنظر رکھاہے۔ مگریہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ آئی ایم ایف قرض بلامشروط نہیں دیتا ہے۔ پچھلے دنوں تیونس نے آئی ایم ایف کے ساتھ سمجھوتے کو آخری وقت میں رد کردیا تھا۔ اس طرح لبنان میں آئی ایم ایف اپنے منظورنظرافراد کو سیاسی عہدوں پرفائز کرکے سیاست کارخ پلٹناچاہتا ہے اور حزب اللہ اور مغربی طاقتوں کے درمیان اس رسہ کشی کی وجہ ہے کہ لبنان کونہ قرض یا Bail out Pakageمل پارہا ہے اور نہ ہی اہم ترین عہدوں پر سیاست دانوں کی تقرری ہوپارہی ہے۔ آئی ایم ایف کاکہنا ہے کہ مصر قرضہ جات کی واپسی نہیں کرپارہاہے اور نہ ہی کرپشن اور سرکاری فضول خرچی کے خاتمہ کے لیے اقدام پرائیویٹائزیشن کررہاہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ مصر کی حکومت Pravititionکی طرف توجہ مبذول کرے۔
یہ تینوں ممالک کی اقتصادی بدحالی پراقوام متحدہ کا کہناہے کہ ان ملکوں پر 10بلین ڈالر کا خسارہ ہوسکتا ہے اور خطے کی تقریباً 230,000آبادی کوافلاس میں دھکیل سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مالیاتی خسارے سے ترقیاتی کاموں سے رکاوٹ آئے گی۔بے روزگاری بڑھے گی اور سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ یونائٹیڈنیشنل ڈیولپمنٹ پروگرام UNDPکا اندازہ ہے کہ اس بحران سے مجموعی طورپر 10.3بلین ڈالر کا نقصان ہوگا اور جی ڈی پی کی شرح آئندہ چھ ماہ تک 2.3تک ہی رہے گی۔
ماہرین خاص طورپر اقدام متحدہ کے اندازے ہیں کہ اس وقت غزہ کے بحران میں علاقے کی 80فیصد رہائشی اکائیوں کو برباد کردیاگیا ہے۔ اردن کا اقتصادی بحران شدید ہے اور غزہ کے بحران نے اس میں اورشدت پید اکردی ہے۔ یوکرین میں حملہ اور اس سے قبل کووڈ19نے پوری دنیا میں زبردست اتھل پتھل پیدا کی ہے اور اس کا اثر کمزورمعیشت والے ممالک اردن پربھی پڑاہے۔ سرکاری طورپر اردن میں بے روزگاروں کی تعداد22فیصد ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کافیصد 50فیصد ہے۔ فلسطین کی بڑی آبادی جو اردن میں قیام پذیرہے۔ اس کے مسائل زیادہ ہیں اور یہ مہاجرین بدترین بے روزگاری سے گزررہے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کے حملے نے حالات کوبدسے بدتربنادیاہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS