ہستی تمہاری لائقِ تقلیدِ عمل ہے!

0

از: محمد عمر قاسمی کاماریڈی

اس خاکدانِ گیتی پر ہر فردِ انسانی اور بندۂ ربانی اس بات کا مشتاق و آرزو مند ہوتا ہے کہ وہ سرخروئی و کامیابی کی اونچائیوں اور اخلاق و کمالات کی بلندیوں پر پہونچ جائیں، عزت و وقار اور شرف و کمال کی برتری پا جائے، ہر ایک کا منظورِ نظر اور محبوبِ خاص و عام ہوجائیں، اس کی جانب فقط لوگوں کی عزت و محبت بھری نگاہیں اٹھے؛ لیکن ان جملہ مقاصد و مناصب کی حصول یابی اور فلاحِ دارین کی اقبال مندی کے لئے کسی قابل مقتدا اور کامل رہنما کا اسوہ چاہیے کہ اس نقشِ پا یا نشانِ راہ سے ہوکر منزلِ مقصود تک رسائی ہوسکے؛ لیکن اس بابت آئینۂ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تحت أديم السماء کوئی ایسی مقدس و متبرک شخصیت (جو اس قدر قابلِ تقلید اور لائقِ اتباع ہو ) نہیں گذری؛ سوائے اس ہستی کے کہ جو ماہِ درخشاں ، نیرِ تاباں ، صاحبِ عرفاں ، ممدوحِ یزداں اور وجہ تخلیق کون ومکاں ہے یعنی محمدﷺ کی ذات گرامی قدر ہے جیسا کہ آپ کی سیرت و اسوہ کے تعلق سے قرآن مجید کا اعلان ہے : ( اے مسلمانو !) تمہارے لئے اللہ کے پیغمبر کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ (سورۃ الاحزاب: ۲۱)
یعنی یہی وہ سانچہ ہے جس میں ڈھل کر ہر مردِ مومن اقدار و کمالات کا مرکز اور محاسن و مکارم کی معراج پاسکتا ہے کیوں کہ قرآن میں جو قال ہے وہی ذاتِ نبوی میں حال ہے اسی کو شاعر نے شعر کے قالب میں ڈھال کر یوں ترجمانی کی ہے کہ:
نبی کا اسوۂ حسنہ تجھے یہ درس دیتا ہے
کہ تیری زندگی قرآن کی تفسیر ہوجائے

ہستی تمہاری قابلِ تقلیدِ عمل ہے
نبی ﷺ سے ہر مسلمان کی شہ رگ کا تار مربوط ہے، نبی ﷺ کی ذات ہمارے لئے لائقِ اتباع اور واجب الاطاعت ہے کہ آپ کا ہر بول انسانیت کے لئے نجم ثاقب اور ہر ادا شمعِ فروزاں ہے، آپ کے کریمانہ اخلاق اور شریفانہ عادات واطوار ہر کسی کے لئے تسکینِ قلب اور قرۃِ عین کا موجب ہے، آپﷺ کی حیاتِ طیبہ امت کے لئے سراپا ہدایت اور جہالت و لاعلمی کے ظلمت کدہ میں مشعلِ راہ ہے، آپ کا کردار و عمل انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور حیاتِ مستعار کے جملہ شعبوں میں راہ نما اور قطب نما ہے، آپ نے اپنے خلقِ عظیم کے ذریعہ صدق وامانت، وفاداری و راست گوئی ، عفو و درگذر ، عدل و انصاف ، صبر و تحمل ، حلم‌ و بردباری ، دریا دلی و فیاض دستی ، ہم دردی و غم خواری ، عاجزی وانکساری ، خبرگیری و یتامیٰ پروری ، نرم خوئی و بہی خواہی ، حسنِ سلوک و خوش مزاجی ، معاونت و دستگیری ، زہد و تقویٰ ، عبادت و ریاضت ، انقیاد و اطاعت ، صوم و صلوٰۃ ، الفت و محبت ، خوف و خشیت ، رحمت و رأفت ، شفقت و عاطفت اور ارشاد و تبلیغ کا عملی نمونہ پیش کیا۔
فدا ہوں آپ کے کس کس ادا پر
ادائیں لاکھ اور بے تاب دل ایک

وفا کو ایک تخیل بنالیا ہم نے!
سرورِ کائنات ﷺ اپنی قوم کے لئے صرف بہترین رول ماڈل اور مکمل آئیڈیل ہی نہیں بلکہ امت کے تئیں سب سے بڑے محسن اور بہت ہی زیادہ مشفق بھی تھے؛ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے لیل و نہار امت کی نجاح و فلاح کی فکر اور غم میں صرف ہوتے، آپ کے شب و روز کی قیمتی ساعات ہدایتِ امت کی تڑپ میں گذرتی، راتیں مصلے پر آہ سحر گاہی و نالۂ نیم شبی میں بسر ہوتی، تقریباً تین سال کا پر کٹھن عرصہ ” شعب ابی طالب “ میں انتہائی کلفت و پریشانی اور کروب و آلام کے ساتھ گذارا ، اور اس پر طرہ یہ کہ طائف کی گلیوں کی وہ خون آلودہ اور لہولہان داستاں جسے سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے، آنسو رواں ہوجاتے ہیں، اور غزوۂ احد میں آپ کے رخسارِ مبارک کے زخمی ہونے کا وہ اندوہ ناک حادثہ ! صرف یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے غرباءِ امت کی رعایت میں اپنی راحت و آسائش بھری زندگی کو تج کرکے فقر وفاقہ اور مفلسی و ناداری کو ترجیح دی ؛ لیکن حیف صد حیف کہ آج امت مسلمہ نے اپنے اس محسن و غم گسار نبی کو کیا صلہ دیا ؛ یہی کہ ان کی سیرت و سنت کو چھوڑ کر اپنی عمریں عیش میں تیر کردیں، کیا یہ احسان فراموشی اور نمک حرامی نہیں کہ جس رہنما نے اپنے پورے وجود کو جس کی خاطر گھولا دیا اسی نے ان کے نقشِ پا کو یکسر بھلا دیا ، کیا ہمارا کریکٹر نبی ﷺ کے پاکیزہ کردار سے ہم آہنگ اور موافق ہے؟ صورتِ حال تو یہ ہے کہ ہمارے معمولاتِ یومیہ اور اعمالِ صبح و شام اغیار کی نقالی اور اسلام سے بے وفائی میں گذرتی ہیں ، ہمارا اندازِ رہن سہن، طرزِ زندگی اور جینے کا ڈھنگ سنت کے بالکل خلاف! مغربی انداز اور یورپین طور طریق پر جاری ہے ، فیا حسرۃ علی العباد!
ذرا غور کریں اور سنجیدگی سے سوچیں کہ کل بروزِ محشر خدا کی عدالت میں نبی ﷺ اگر ہمارا دامن‌ پکڑ کر پوچھ لیں تو کیا جواب ہوگا ؟
نیز یاد رکھنا چاہیے کہ عشق و محبّت کے پر فریب نعرے اور جھوٹی عقیدت و بے بنیاد زبانی دعوے محض خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہیں، ہم تو ایسی قوم‌ ہیں جو محبتِ رسول کا دم تو بڑے زور وشور سے بھرتے ہیں؛ لیکن اپنے اس محسن نبی کے احوال و آثار سے اس قدر انجان اور ناواقف ہو کہ سیرت سے واقفیت ہے نہ ازواج اور آل و عترت سے آشنائی، نہ شمائل‌ِ نبوی اور خصائلِ محمدی کا پتہ ہے نہ سنن و آداب کی خبر حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں ہر آن ہر لحظہ اور ہر لمحہ یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ ہمارا ہر کام سنتِ رسول کے مطابق ہو ؛ عادات و عبادات ، معاملات و معاشرت، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، سفر و حضر ؛ حتی کہ صبح سے شام تک کی تمام مصروفیات کا دائرہ کار سیرت و سنت سے مربوط و منسلک ہو ؛ کیوں کہ
کافی نہیں ہے بیٹھ کے مدح و ثناء کریں
اٹھو کہ آج حقِ محبت ادا کریں

معیارِ محبت کردار و عمل ہے نہ کہ گفتار و قول!
یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ آج ہر طرف مسلمان پریشان ہیں ، ہر آئے دن مسلمانوں کو جبر و استبداد اور آزمائشوں کی چکی میں پسا جارہا ہے ، اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف انگشت نمائی ہورہی ہے ، وقفہ وقفہ سے ان کے مذہبی شعائر کی بے حرمتی و پامالی کی جاتی ہے ، اور پیغمبر اسلام ﷺ پر سب و شتم کیا جاتا ہے ، آپ ﷺ کی ذات وصفات کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، آپ ﷺ کی بلند پایہ شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے نت نئے سازشوں کا جال بنا جاتا ہے ؛ نیز ہر بے وفائی اور بد عہدی کا سہرا مسلمانوں کے سر رکھا جاتا ہے، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلمان خود اپنی عزت و پہچان اور تشخص و شناخت کھو بیٹھے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی معزز ترین قوم آج رسوائے زمانہ بنی ہوئی ہیں ، اور ہر کسی نے شکوہ کی پٹی سر پر باندھ رکھی ہے، ان سب کی بنیادی وجہ سنت نبوی سے دوری اور نبی ﷺ سے رشتۂ محبت و اطاعت کا انقطاع ہے ؛ کیوں کہ ہماری زندگی میں نہ تو اخلاق کی جھلک ہے نہ کردار کی رمق، شب و روز سنتوں کا جو قتل عام ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ! حالانکہ نسلِ انسانی کی بحران کا مداوا اتباعِ رسول میں مضمر ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ نبی ﷺ کے اسوہ اور سیرت پر اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والی ننگِ انسانیت قوم رشکِ ملائک بن گئی، کامیابی کا معیار اور نجاح و فلاح کی کھلی شاہ راہ پیغمبر کی حیاتِ طیبہ ہے ، ذاتِ رسول ﷺ سے قلبی و روحانی ربط و تعلق زندگی کی اصل قیمت و لذت اور محبت کی اصل سوغات ہے ؛ لیکن امت کا نبی کا تعلق کیسا ہونا چاہیے اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے امام ابن قیم جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب ” زاد المعاد کے مقدمہ “ میں رقم طراز ہیں : ” پس امت کو نبی کی معرفت کی ضرورت اس سے بھی زیادہ ہے جتنی بدن کو روح کی ، آنکھوں کو روشنی کی ، اور روح کو زندگی کی ضرورت ہے، پس بندہ کو دنیا میں جتنی چیزوں کا محتاج بنایا گیا ہے ان میں سب سے بڑی اور اہم ضرورت جو ہوسکتی ہے وہ بندہ کا اپنے رسول کا محتاج ہونا ہے ، اگر مؤمن پل جھپکنے کے بقدر بھی نبی اور اس کی تعلیم سے غافل رہتا ہے تو اس کا دل اجڑ جاتا ہے اور وہ ماہئ بے آب کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تڑپنے لگتا ہے ؛ مگر اس مفارقتِ رسول کا احساس اور نقصان کا اندازہ صرف اسی قلب کو ہوسکتا ہے جو زندہ ہو “ ۔ (۱۵، ۱۶)

پیغامِ تحریر:
نبی ﷺ کی زندگی امت کے لئے تمام دین و دنیا کے معاملات میں دستور العمل ہیں، اور وقت کا ایک اہم‌ ترین تقاضہ یہ ہےکہ سیرت النبی ﷺ کو جاننے اور پڑھنے کا اہتمام کیا جائے ؛ کیوں کہ نبی ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو اپنی ذات سے بھی زیادہ جاننا لازم و ضروری ہے ؛ نیز اخلاقِ نبوی کی خوبصورت پوشاک زیب تن کرلیں ، نبی ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں اپنے آپ کو ڈھالیں ، اور سنت نبوی کے قیمتی و گراں قدر زیور سے خود کو آراستہ کرلیں ؛ ورنہ ہماری تیرہ بختی اور حرماں نصیبی ہوگی کہ ہم نبی کا سامنا بھی نہیں کرسکیں گے، اور صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ ہستیوں اور نفوسِ قدسیہ کو کیا منہ دکھائیں گے ؛ لہٰذا ابھی مطالعۂ سیرت اور اتباعِ سنن و آداب کا اہتمام شروع کردیں؛ نیز درود و سلام کی سوغات کا بھی التزام کریں ؛ ورنہ
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی ۔۔۔۔۔ باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS