دینی اور دنیاوی تعلیم میں فرق!

0

عقیدت اللہ قاسمی
ایک زمانہ سے مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے اور مسلمانوں جیسے نام رکھنے والا طبقہ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے وقت بے وقت یہ رٹ لگاتا رہتا ہے کہ تعلیم کو دینی اور دنیاوی خانوں میں بانٹنا غلط ہے۔ مدارس کے منتظمین پر اس مشن کے تحت اکثر لعن طعن کیا جاتا ہے ان پر تعن و تشنیع کے تیروں کی بوچھار کو مشن اور مقصد حیات بنالیا گیا ہے کبھی معاندانہ ، تحقیرانہ روش اپنائی جاتی ہے تو کبھی ہمدردانہ طریقہ اپنا کر علماء کی تحقیر و تذلیل کرتے ہوئے عوام کو ان سے بیزار اور متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اصل مقصد مختلف پیرایوں سے جانے ان جانے میں قصداً اوبلا قصد، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور کبھی ناسمجھی کے ساتھ دشمنان اسلام کا آلۂ کار بنتے ہیں، اسلاموفوبیا کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔
اپنوں کو بھی اور غیروں کو بھی دینی طبقہ کے خلاف متنفر کرتے ہیں بات کہیں سے شروع کی جاتی ہے تان ہمیشہ اسی پر ٹوٹتی ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ بے دینی ، بد دینی اور دینی دشمنی کا زہر دینی مدارس کے منتظمین اور ان کے طلبا کے دل و دماغ میں سلوپوائزن کی شکل میں اتار دیا جائے کہ عصری تعلیم کی کوئی درسی کتاب ایسی تو لکھی نہیں جاسکتی کہ عصری علوم کو اسلامی نقطۂ نظر سے پیش کیا جاسکتا کہ عصری تعلیم کے نصاب کی کس کتاب پر مسلمان کہلانے والے کسی شخص کا نام نظر پیش آتا پر ظاہر ہے جو بھی بے دینی، بد دین اور مخالف اسلام شخص کتاب لکھے گا، وہ اپنے نظریات ہی کے مطابق لکھے گا کوئی دہریہ ہو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی اور اپنی تحریر و تصنیف میں دین اسلام کی نمائندگی نہیں کرے گا۔ اسلام کی تعلیمات کو پیش نہیں کرے گا۔ اسلام کی تعریف نہیں کرے گا۔ پھر دینی مدارس میں اس بے دینی، بد دینی اور اسلام دشمن کا ہی پیوند لگے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام نے دینی اور دنیاوی تعلیم میں فرق نہیں کیا ہے کہ اسلام کے عطا کردہ دستور حیات قرآن کریم میں یہ دعا مانگنے کا تعلیم دی گئی ہے کہ ’’اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں جہنم کی آگ کے عذاب سے بچا (سورہ2 آیت201)
دین اسلام ترک دنیا اور رہبانیت وسنیاس کی نہ اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اس کی تعلیم دیتا ہے ۔ بلکہ ایسی سوچ سخت الفاظ میں زجروتوبیخ اور تنبیہ فرماتا ہے۔ ارشاد باری ہے ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہئے اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا ہے جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا تھا اور کس نے اللہ کے بخشی ہوئی نعمتوں و پاک چیزوں کو ممنوع قرار دیدیا؟ (سورہ7آیت32)
(مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو دنیا کی ساری پاکیزہ زینتیں اور حلال چیزیں اپنے بندوں کے لیے ہی پیدا کی ہیں اس لیے اللہ کا منشا توپاکیزہ اور حلال چیزوں کو حرام کرنے کا نہیں۔ پھر اگر کوئی مذہب یا کوئی نظام اورا خلاق ومعاشرت ایسا ہے جو انہیں حرام یا ممنوع قرار دیتا ہے یا ارتقائے روحانی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتا ہے تو اس کا یہ فعل خود ہی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ یہ زجروتوبیخ ان حجتوں میں سے ایک اہم حجت ہے جو قرآن نے مذاہب باطلہ کی رد میں پیش کی ہیں اور اس کو سمجھ لینا قرآن کریم کے طرز استدلال کو سمجھ لینے کے لیے ضروری ہے)
اسی آیت میں آگے ارشاد ہے :اے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصۃ انہی کے لیے ہوں گی (یعنی حقیقت کے اعتبار سے تو اللہ تعلیٰ کی پیدا کردہ تمام چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی انہی کے لیے ہیں، کیونکہ وہی اللہ کی وفادار رعایا ہیں اور حق نمک صرف نمک حلال لوگوںکو ہی کہ پہنچتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا کا موجودہ نظام ، نظام فطرت ہے اور آزمائش و مہلت کے اصلول پر قائم کیا گیا ہے اور ہم اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو خود اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی کہ یہ دنیا دار العمل ہے ۔ اس لیے یہاں اللہ کی نعمتیں اکثر نمک حرام اور نافرمان لوگوں کی بھی ملتی رہتی ہیں اور اکثر نمک حلال لوگوں سے بڑھ کر ان لوگوںو کو نواز دیا جاتا ہے ۔ البتہ آخرت میں جہاں کا سارا انتظام خالص حق کی بنیاد پر ہوگا، زندگی کی آسائشیں اور پاکیزیں چیزیں سب کی سب صرف نمک حلال لوگوں کے لیے ہی مخصوص ہوں گی اور وہ نمک حرام ان میں سے کچھ نہ پاسکیں گے جنہوں نے اپنے رب کے رزق پر پلنے کے بعد اپنے رب ہی کے خلاف سرکشی کی)
لیکن اس کے ساتھ ہی دین اسلام نے دنیا کو ترجیح دینے، مادہ پرستی اور آخرت فراموش پر بھی سخت تنبیہ فرمائی ہے اور اس کے انجام کے برا ہونے یعنی جہنم میں ڈالے جانے کی خبر بھی دی ہے اور اس پرناگواری کا اظہار بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا)سے محبت رکھتے اور اس کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ (سورہ75آیت20واں) دوسری جگہ ترغیب وتربیت دونوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا۔ تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالات کے مقابلہ میں آخرت بہتر ہے اور وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (سورہ87آیت 14و17) یعنی نہ تم لوگوں کی ساری فکریں دنیا اور اس کی راحت وآسائش اور اس کے فائدوں اور لذتوں تک محدود رہتی ہے۔ حالات کے دنیا کے مقابلہ میں آخرت وحشتوں سے قابل ترجیح ہے ایک یہ کہ اس کی راحتیں اور لذتیں دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں اور دوسرے یہ کہ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS