مینارہ علم و ادب شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سو سال

0

محمد حنیف خان

اردو زبان کی شیرینی،حلاوت اوراس کی شگفتگی کا تو ہر شخص قائل ہے۔ اردو شیرینی، حلاوت اور شگفتگی کے ساتھ ہی تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی شعور کی حامل زبان ہے۔یوں تو اردو زبان و ادب کے فروغ میں بہت سی تحریکات اور افراد کا حصہ ہے لیکن اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو سر سید احمد خاں اور ان کی علی گڑھ تحریک نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔سر سید احمد خاں ہندوستان کی تاریخ میں پہلے ایسے شخص ہیں جنہوں نے اردو زبان کو ایک بڑے مقصد کے تحت استعمال کیا،جس سے زبان و ادب کا تو فائدہ ہوا ہی اس کے ساتھ ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بھی زبان کاکردار نمایاں ہو کر سامنے آیا۔سر سید احمد خاں سے قبل اردو نثر مسجع و مقفیٰ عبارت آرائی کا شکار تھی،میر امن نے ضرور اس سے آزادی دلانے کی کوشش کی مگر اس میں قومی منفعت کا کوئی گزر نہیں تھا، البتہ سر سید احمد خاں نے اردو زبان کا استعمال مقصدیت کے تحت کیا جس کے لیے انہوں نے اس کو سادہ نثر سے ہمکنار کیا،اردو کو ایسا عام اسلوب دیا جوعوام الناس کی تفہیمی صلاحیت سے قریب تر تھا۔سر سید احمد خاں قوموں کے عروج و زوال میں زبانوں کے کردار کی اہمیت سے واقف تھے، اس لیے 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب مسلمان پستی کا شکار ہوئے اور قعر مذلت ان کا مقدر ٹھہرا تو انہوں نے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنی اصلاحی اور تعلیمی تحریک شروع کی جسے بعد میں ’’علی گڑھ تحریک‘‘ سے موسوم کیا گیا،اس تحریک کی زبان اردو تھی۔تہذیب الاخلاق، سائنٹفک انسٹی ٹیوٹ گزٹ اردو میں شائع ہوتے تھے۔سر سید احمد خاں نے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور ان کی اصلاح کے لیے متعدد موضوعات پر اردو زبان میں ہی کتابیں تصنیف کیںجن کی زبان سادہ اور عام فہم ہوتی تھی۔اس طرح سر سید احمد خاں نے اردو زبان کا سہارا لے کر ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالا۔
مسلمانوںکی فلاح و بہبود میں سر سید احمد خاں اور ان کی علی گڑھ تحریک سے زیادہ کسی فرد یا تحریک کا حصہ نہیں ہے،جو اردو زبان کی ہی مرہون منت ہے۔سر سید احمد خاں نے 1875میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج(ایم اے او کالج) علی گڑھ میں قائم کیا جسے 1920میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا۔جہاں ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ میں اردو نصاب میں شامل تھی اور بطور لازمی مضمون پڑھایا جاتا تھا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وہ واحد ادارہ ہے جس میںنیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020(این ای پی )سے قبل تک اردو زبان کو جنرل کورسیز میں بطور لازمی مضمون پڑھایا جاتا رہا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے ایک برس بعد 1921میںیہاں شعبہ اردو کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے صدر اس وقت کے رجسٹرار ادب لطیف کی نمایاں شخصیت سید سجاد حیدر یلدرم ہوئے،جس کے بعد ای ایچ ہارن اور آر بی ریمز باتھم(دونوں پرووائس چانسلر)صدر ہوئے۔پروفیسر رشید احمد صدیقی شعبہ اردو کے چوتھے صدر تھے۔اب تک اس شعبے کو 25صدور شعبہ ملے ہیں جنہوں نے شعبہ اردو اور زبان اردو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔اس وقت پروفیسر محمد علی جوہر صدر شعبہ ہیں،جن کی صدارت میںشعبہ ترقیات کی منازل طے کر رہاہے،صرف ان کے دور صدارت (تقریباً پونے تین برس)میں 30سے زائد ریسرچ اسکالروں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے،ان ہی کی سربراہی میںشعبہ اردو اپنا صدسالہ جشن منا رہا ہے۔ 6اور 7مئی 2023کو دو روزہ صد سالہ جشن (بین الاقوامی سمینار)میں گزشتہ ایک صدی کی حصولیابیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔یوں تو یہ جشن 2021میںمنایا جا نا تھا مگر کووڈ19-کی وجہ سے نہیں منایا جاسکا۔
شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ان اہم شعبوں میں سے ہے جس سے یونیورسٹی کی شناخت قائم ہوتی ہے۔زمانے میں مشہور علی گڑھ کی تہذیب و ثقافت بھی اسی سے وابستہ ہے،علی گڑھ کی روایت کی امین شستہ اور شگفتہ زبان کا تعلق بھی اسی شعبے سے متعلق ہے۔جب بھی کہیں علی گڑھ کا نام آتا ہے تو جو زبان سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ اردو ہے اور اسی سے وابستہ تہذیب و ثقافت کے مظاہرے کی امیدبھی کی جاتی ہے۔اس طرح شعبہ اردو یونیورسٹی کا ایک شناخت نامہ ہے،جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام سے قبل اردونے علی گڑھ تحریک کے توسط سے ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمانوں کی تعمیر و ترقی اور ان کی فلاح و بہبود میں نمایاں کردار اداکیا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔یونیورسٹی اور شعبے کے قیام کے بعد اردو نے مسلمانوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کی ترقی و تحفظ میں کیا کردار ادا کیا، یہ ایک اہم سوال ہے۔تہذیب و ثقافت ایک نامیاتی عمل ہے،جس کا دائرہ بہت وسیع ہے،وقت کے لحاظ سے اس میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور اس کے دائرے میں وسعت آتی ہے۔شعبہ اردو نے ہندوستانی مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں لانے اور ان کو بین العلومیت سے آشنا کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس شعبے نے اپنے ماقبل و مابعد دنیا میں وجود میں آنے والے زندگی اور ادب کے متعدد فلسفوں اور ان کے رموز و نکات سے آگاہ کرانے اور اردو داں طبقے /مسلمانوںکے ذہنی کینوس کو وسیع کرنے میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
شعبۂ اردو کے اساتذہ اور طلبا کی ایک کہکشاں ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، تخلیق، تنقید اور تحقیق کے ساتھ غیر افسانوی نثر کے فروغ میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 1934میں شعبۂ اردو میں بی اے(آنرز) اورایم اے کی کلاس شروع ہوئیں، اس طرح یہاں اردو میں اعلیٰ تعلیم کا نظم ہوا۔ 1938 میں اس شعبے میں لڑکیوں کی اعلیٰ اور مخلوط تعلیم کا اس وقت نظم ہوا جب یہ شعبہ موجودہ سر سید ہال جنوبی میں واقع لٹن لائبریری کے قریب بیک منزل سے ملحق واقع تھا۔بعد میں 1961میں جب آرٹس فیکلٹی کی عمارت تعمیر ہوئی تو وہاں یہ شعبہ بھی منتقل کردیاگیا۔1938میں سلیمہ سلطانی اور 1939میں سلمیٰ اسلام الحق نے اردو سے ایم اے میں داخلہ لیا جو 1942میں ویمنس کالج میں لیکچرار مقرر ہوئیں،اس شعبے سے ڈاکٹر آمنہ خاتون (میسور)کو 1953میں خواتین کے زمرے میں پہلی ڈگری تفویض کی گئی۔ انہوں نے ان شاء اللہ خاںکی دریائے لطافت کی تدوین ڈاکٹر محمد عزیرکی نگرانی میں کی تھی،اس طرح خواتین بالخصوص مسلم خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی شعبۂ اردو اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔شعبۂ اردو میں1938میں تحقیق کا آغاز ہوا اور ابوللیث صدیقی نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں اپنامقالہ ’’لکھنؤ کا دبستان شاعری ‘‘تحریر کیا،جن کا زبانی امتحان حسرت موہانی نے لیا تھا جو خود اسی شعبہ کے طالب علم رہ چکے تھے۔نورالحسن ہاشمی کی کتاب ’’دلی کا دبستان شاعری‘‘ بھی اسی شعبۂ اردو کی مرہون منت ہے۔شعبہ اردو کے ابتدائی ایام میں ہی یہ ایسے اہم کام ہوئے جنہوں نے دونوں دبستانوںکی امتیازی خصوصیات کو نمایاں کیا۔ خود رشید احمد صدیقی کی شخصیت ایسی علمی تھی کہ اپنے زمانے میں ہی کیا آج تک ان کے پائے کا بھلا کون ہوا ہے۔ترقی پسند تحریک کو اس شعبے سے وہ افراد ملے جنہوں نے اس کی توانائی کیلئے خود کو وقف کردیا،یہ وہ تحریک تھی جس نے نہ صرف ملک کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ ادب کو عوام کی آواز بنا دیا۔ترقی پسند تحریک پر خلیل الرحمن اعظمی نے ’’اردو میں ترقی پسند تحریک‘‘ جیسی مرجع و مصدر کی حامل کتاب تصنیف کی۔ آل احمد سرور کی شخصیت اردو ادب میں محتاج تعارف نہیں، وہ شاعر بھی تھے مگر ان کی نثر کا کوئی جواب نہیں، انہوں نے تنقید کے باب میں جس زبان اور اسلوب کو اختیار کیا، وہ آج بھی لائق تقلید ہے۔ تنقید میں جو سلسلہ رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرور سے شروع ہوا، اس میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور قاضی افضال حسین جیسے نام جڑ گئے، شاعری میںجوش،مجاز،علی سردار جعفری،خلیل الرحمن اعظمی، معین احسن جذبی اور کنور اخلاق محمدخاں (شہریار)، فکشن میں عصمت چغتائی، قاضی عبد الستار،طارق چھتاری اور سید محمد اشرف جیسے اہم نام ہیں جنہوں نے اردو زبان وادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔
گزشتہ سو برس کی تاریخ میںبرصغیر میں اردو زبان و ادب سے متعلق اگر اہم شخصیات کاجائزہ لیا جائے تو ان کا تعلق مسلم یونیورسٹی خصوصاً اس کے شعبۂ اردو سے نکل کر سامنے آئے گا، شعبۂ اردو کی حصولیابیوں، اردو زبان و ادب کی ترقی اور اس کو گہرا تہذیبی و ثقافتی شعور دینے میںاس شعبے کے کردارکی یہ جھلک بھر ہے، اس کامکمل جائزہ صد سالہ جشن میں ملک و بیرون ملک کے وفود پیش کریں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS