ایم اے کنول جعفری
عدالت عظمیٰ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ 22مارچ 2024 کو سنائے گئے فیصلے میں ’یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ2004‘کو غیر آئینی اور سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والا بتاتے ہوئے منسوخ کرنے کے فیصلے پر عبوری طور پر روک لگا دی۔سنجیدہ لوگوں نے طلبا کے بنیادی حق کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو آئین اور جمہوری نظام کی جیت بتاتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ حتمی فیصلہ مدارس کے حق میں آئے گا اور طلبا کا تعلیمی سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ہائی کورٹ نے مدرسہ تعلیمی قانون کو ختم کرنے کے ساتھ ریاست کے سبھی مدارس کے طلباو طالبات کو اسکولوں میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔اس فیصلے سے نہ صرف مدارس کی انتظامیہ میں زبردست بے چینی تھی، بلکہ اقلیتی طبقے کے چہروں پر تفکرات بھی صاف دکھائی دینے لگے تھے۔ حکومت کے ذریعہ گزشتہ برس کرائے گئے اسلامی تعلیمی اداروں کے سروے کے مطابق صوبے میں 25ہزار مدرسے ہیں۔ان میں 16,500 مدرسے اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے منظور شدہ ہیں۔ منظور شدہ مدارس میں 560 مدرسوں کو سرکار کی جانب سے گرانٹ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں8,500 مدارس غیر منظور شدہ ہیں۔ہائی کورٹ کے فیصلے سے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے تقریباً17لاکھ طلبا و طالبات اور 10ہزار اساتذہ کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تھا۔
دراصل انشومن سنگھ راٹھور ایڈووکیٹ نے یوپی مدرسہ بورڈ کے آئینی جواز اور بورڈ کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔اس میں مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اور دیگر متعلقہ محکموں کے ذریعہ محکمہ اقلیتی بہبود کے انتظامات پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈایکٹ2004 کو سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ڈویژن بنچ نے مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کو ’الٹراوائرس‘ بتاتے ہوئے سرکار کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایک منصوبہ بنائے،جس کے تحت ریاست کے مختلف مدرسوں میں تعلیم پانے والے طلباوطالبات کوعصری تعلیمی نظام میں شامل کیا جاسکے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والے مدرسوں میں مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے۔عدالت نے اسے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کے منافی تسلیم کیا۔ کہا گیا کہ حکومت کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ مذہبی تعلیم کے لیے بورڈ تشکیل کرے یا پھر کسی خاص مذہب کے لیے اسکول تعلیمی بورڈ بنائے۔ہائی کورٹ نے مدرسہ قانون کو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن(یو جی سی) ایکٹ1956کے سیکشن22کی بھی خلاف ورزی کرنے والا بتایا۔’اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرپرسن ڈاکٹر افتخار احمدجاوید نے کہاکہ2004میں سرکار نے جس طرح مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ بنایا تھا۔اسی طرح صوبے میں سنسکرت ایجوکیشن کونسل بھی بنائی گئی۔ دونوں بورڈ کا مقصد متعلقہ عربی،فارسی اور سنسکرت جیسی قدیم زبانوں کو فروغ دینا ہے۔ تقریباً 20برس بعد ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے سے لگتا ہے کہ کہیں چوک ہوئی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ مسلم سماج نے اپنے آئینی حق کے لیے مدرسے قائم کیے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سنسکرت کی پاٹھ شالائیں قائم ہیں۔ مدرسوں میں تو اترپردیش حکومت کے 2018کے حکم کے مطابق جدید تعلیم کے تحت سائنس،ماحولیات، ریاضی جیسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ مدارس میںقرآن کریم ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔مذہبی تعلیم اور مذہبی مضامین دونوں مختلف ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے مطابق الٰہ آباد ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ مدرسہ بورڈ آئین کے جمہوری اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے، درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی سہ رکنی بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو2004کے قانون کی پہلی نظر میں غلط تشریح قرار دیا، کہا کہ اس سے 17لاکھ طلباوطالبات کے حقوق متاثر ہوں گے۔خصوصی تعلیم کا انتخاب ہمیشہ طلبا کے والدین کی پسند رہا ہے۔طلبا کی معیاری تعلیم کے لیے ریاستوں کے مفادات جائز ہیں،لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے پورے قانون کو ختم کرنے کی ضرورت پڑنے پر بھی غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ 2004 کا قانون سیکولرازم، بنیادی ڈھانچے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، مدرسہ بورڈ کوتفویض کردہ ریگولیٹری طاقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آئین کے آرٹیکل (1)28 میںیہ التزام ہے کہ حکومت کے مالی تعاون یافتہ اداروں میں مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے فیصلے سے متاثر طلبا کو باقاعدہ اداروں میں جگہ دینے کی بات کہی۔ اگرہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگی تو ریاست کو1096کروڑ روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے وکلا نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم نے ان مدارس کو متاثر کیا،جو1908سے ریگولیٹری نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ ملک میں گروکل اور سنسکرت اسکول ہیں۔اسلام کی تعلیم دینے سے کوئی ادارہ مذہبی تعلیم دینے والا نہیں بن جاتا۔ سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کے 17لاکھ طلبا اور10ہزار اساتذہ کو دیگر اسکولوں میں منتقل کرنے کے عمل پر بھی روک لگا ئی۔ بنچ نے کہاکہ وہ’اکثریتی طور پر یہ واضح کرتی ہے کہ ایکٹ کے تحت قائم کردہ قانونی بورڈ کا مقصد اور ہدف فطری طور پر ریگولیٹری ہے۔بورڈ کا قیام سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مدرسہ کی تعلیم کے تصور کو ان ریگولیٹری اختیارات سے جوڑ دیا گیا جو بورڈ کو سونپے گئے ہیں۔ایکٹ کی دفعات کو ختم کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے پہلی نظر میں ایکٹ کی دفعات کو غلط سمجھا۔عدالت نے2002 کے اس فیصلے کا حوالہ بھی دیا جوآرٹیکل میں ’مذہبی تعلیم‘ کے اظہار کی وضاحت کرتا ہے۔‘عدالت عظمیٰ کی بنچ نے ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر مرکزی حکومت، اتر پردیش حکومت اور یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کو نوٹس جاری کیے۔ حتمی سماعت کے لیے جولائی کے دوسرے ہفتے کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے مزید کہا کہ سماعت زیرالتوا ہے اور درخواستوں کے حتمی نمٹارے تک ہائی کورٹ کے 22مارچ کے فیصلے اور حکم پر روک برقرار رہے گی۔بنچ نے نوٹس میں مرکز وریاست سے31مئی سے پہلے اپنا جوابی حلف نامہ داخل کرنے اور اپیل کنندگان کو ریاست کے خیالات کا جواب دینے کے لیے 30جون تک کا وقت دیا۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ’سپریم کورٹ‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ذیلی عدالتوں میں اگر کہیں کچھ ناانصافی یا نامناسب بات ہوجاتی ہے اور مدعی یا مدعاالیہ میں سے کوئی فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے تو وہ اپنی لڑائی سپریم کورٹ تک لے جاتا ہے۔کچھ یہی حال اترپردیش مدارس، طلباوطالبات، اساتذہ اور ان سب کے وجود اور مستقبل کا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف مدارس کے وجودکی لڑائی سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے۔عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عبوری روک لگادی ہے۔ کتنے ہی والدین اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم دلانے کی حالت میں نہیں ہوتے، ایسے بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔ مدارس میں غریب اور بے سہارا بچے مفت تعلیم ہی حاصل نہیں کرتے ان کے کھانے پینے،کپڑے لتے اور رہائش کے انتظام سمیت مکمل کفالت مدرسوں کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اسکولوں میں ’مد ڈے میل‘ اسی کی ہی نقل ہے۔ ملک کو خواندہ بنانے میں مدارس کا اہم کردار ہے۔ عبوری روک سے ہزاروں مدارس اور اساتذہ اور لاکھوں طلباوطالبات نے راحت کی سانس لیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ مزید راحت بھرا اور مثالی ہوگا اور مدارس کا تعلیمی نظام اسی طرح قائم و دائم رہے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]