مـولانـا نـدیـم الـواجـدی
رمضان کا تیسرااور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا اور دوسرا عشرہ مغفرت کا تھا ۔اس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں ایک طویل حدیث بیان کی گئی ہے۔ جس کے راوی حضرت سعید ابن المسیبؓ دوسرے صحابی حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہم سے اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا’’ تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، اللہ نے اس مہینے کے روزوں کو فرض اور رات کی نماز ( تراویح) کو مستحب قرار دیا ہے، اس مہینے میں اگر کوئی شخص خیر کا کوئی عمل کرتا ہے اس کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرض اعمال کے ثواب کے برابر دیا جاتا ہے اور جو شخص کوئی فرض ادا کرتاہے اسے ستر گنا ثواب عطاکیا جاتا ہے، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ غم خواری کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے، جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کراتا ہے اس کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں اور اسے جہنم سے نجات دی جاتی ہے، اور اسے روزہ دار کا اجر واثواب کم کئے بغیر پورا پورا جر دیا جاتا ہے۔ ( صحابیؓ کہتے ہیں) ہم نے عرض کیا! یا رسول اللہ ہم سب لوگ روزہ افطار کرانے کی وسعت نہیں رکھتے ( اس کے جواب میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عطا فرماتے ہیں جو کسی کو دودھ کے ایک گھونٹ، ایک کھجور یا پانی سے افطار کراتا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی کو شکم سیر کردے اللہ اس کو (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس قدر سیراب کرے گا کہ اس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس محسوس نہیں ہوگی، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا ( عشرہ) رحمت کا ہے، اور درمیانی ( عشرہ) مغفرت کا ، اور آخری (عشرہ) دوزخ سے نجات کا ہے، جو شخص اس ماہ مبارک میں اپنے زیر دستوں کے کام میں تخفیف کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے دوزخ سے نجات دے گا ، اس مہینے میں چاراعمال بہ کثرت کرتے رہنا،ان میں سے دوعمل ایسے ہیں جن سے تم اللہ عزوجل کو راضی کروگے، اور دو عمل ایسے ہیں جو ہر حال میں تمہارے لیے ضروری ہیں، وہ دو عمل جن سے تم اپنے رب کی خوشنودی حاصل کروگے یہ ہیں، (صحیح بن خزیمہ:۳؍ ۱۹۱، رقم: ۱۸۸۷، شعب الایمان للبیہقی: ۳؍ ۳۰۵، رقم: ۳۶۰۸) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںہے، اور اس سے مغفرت مانگنا، اور وہ عمل جن کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیںہے، یہ ہیں (۱) اللہ سے جنت کا سوال کرنا، (۲) اور دوزخ سے پناہ مانگنا۔
تینوں عشرے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط ہیں کہ ایک کا عمل دوسرے کے انعام کا سبب اور دوسرے کا عمل تیسرے کے انعام کا سبب بن رہاہے، ابتدائی عشرہ میں رحمت الٰہی سے نیکیوں کی توفیق عطا کی جاتی ہے، نیک اعمال مغفرت کا سبب بنتے ہیں اور مغفرت کا لازمی اور قدرتی نتیجہ دوزخ کی آگ سے نجات ہے۔
یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں رمضان المبارک کی ساعتوں کا نہایت حکیمانہ انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس حدیث کا آخری حصہ جو رمضان کے تین عشروں سے متعلق ہے انتہائی جامعیت کا حامل ہے۔ اس میں بہت ہی مختصر لفظوں میں مضامین کے سمندر سمودئے گئے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ مہینہ ایک ہے، اس کے دن رات اورصبح وشام ایک جیسے ہیں، بہ ظاہر ان میں کوئی امتیازی خصوصیت ایسی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے اعمال کی تاثیر مختلف ہو مگر اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہر بان ہے۔ اس نے بعض دنوں میں اور بعض دنوں کے بعض اوقات میں ایسی تاثیر رکھدی ہے کہ بندے ان دنوں اور ان اوقات میں اللہ کی طرف متوجہ ہوکران اوقات اوران ایام کے اثرات سے اپنے دل کی دنیا آباد کرسکتے ہیں۔ رمضان کے تیس دنوں کو تین حصوں میں منقسم کرنے اور تینوں میں الگ الگ خصوصیتیں سمودینے میں اللہ کی بے مثال حکمت پوری طرح جھلکتی ہے۔
رمضان کے پہلے دس دنوں کو رحمت کا عشرہ فرمایاگیا۔ علماء نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس عشرے میں بندوں کے دلوں میں نیکی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، انھیں نیک کاموں کی توفیق عطا کی جاتی ہے اور ان کے اندر رمضان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ہمت پیدا کردی جاتی ہے۔ نیک اعمال کی توفیق، جذبہ اور ہمت یہ سب اللہ کی رحمت سے ہی حاصل ہوتے ہیں، ورنہ انسان کی مجال کہاں کہ وہ پورا پورا دن بغیر کھائے پئے گزاردے، رات کو نماز میں کھڑا ہوجائے، عین اس وقت جب نیند اپنے پورے شباب پر ہو حکم الٰہی کی تعمیل میں اٹھ کر بیٹھ جائے اور سحر کے اعمال میں مشغول ہو۔ دوسرا عشرہ پہلے عشرہ کے اعمال کاتتمہ اور تکملہ ہے۔ جن بندگان خدا کو پہلے عشرہ میں توفیق الٰہی میسر ہوئی اور انھوں نے اللہ کی رحمت کاملہ کی بناپر طاعت وعبادت میں یہ دس دن گزارے وہ اس عشرے میں مغفرت کے عطیہ سے مالامال ہوتے ہیں، کیوں کہ عبادت کی تاثیر مغفرت ہی ہے۔ قرآن کریم میںہے ’’ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں‘‘(ہود: 144) ۔برائیوں کے خاتمے کا مطلب مغفرت ہی ہے۔ ظاہر ہے جب بندے کے نامۂ اعمال سے گناہ ختم ہوجائیںگے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ اب اسے مغفرت کا پروانہ عطا کردیا گیاہے۔ تیسرا عشرہ پہلے دو عشروں کی تکمیل ہے۔ بیس دن کے اعمال کو منطقی انجام تک پہنچانے کا مرحلہ آگیا ہے۔ یہ تینوں عشرے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط ہیں کہ ایک کا عمل دوسرے کے انعام کا سبب اور دوسرے کا عمل تیسرے کے انعام کا سبب بن رہاہے، ابتدائی عشرہ میں رحمت الٰہی سے نیکیوں کی توفیق عطا کی جاتی ہے، نیک اعمال مغفرت کا سبب بنتے ہیں اور مغفرت کا لازمی اور قدرتی نتیجہ دوزخ کی آگ سے نجات ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو رمضان کے پورے مہینے ہی عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ عبادت فرمایا کرتے تھے مگر آخری عشرے میں تو آپ کا اہتمامِ عبادت اور بھی بڑھ جایا کرتا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں آپ کے اہتمامِ عبادت کی تعبیر کے لیے ام المؤ منین حضرت عائشہؓ نے جو جملہ ارشاد فرمایا ہے وہ ہے ’’شد المئزر‘‘ یعنی آپ کمر کس لیا کرتے تھے۔ یہ جملہ اس وقت بولا جاتا ہے جب آدمی کسی پُر مشقت کام کی تکمیل کے لیے اپنی پوری ہمت جٹائے اور اس کام میں لگ جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں’’جب آپ آخری عشرے میں داخل ہوتے توپوری پوری رات جاگتے ، اپنے گھر والوں کو بھی جگا تے اورعبادت میںخوب کوشش فرماتے اور کمر ہمت کس لیا کرتے تھے‘‘ (مسلم: 6؍95، رقم:2008)۔
حضرت عائشہؓ ہی سے ایک اور روایت میںہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں باقی عشروں کے مقابلے میں زیادہ محنت فرماتے‘‘(صحیح مسلم:6؍ 96، رقم:2009)۔ ظاہر ہے یہ کوشش اور محنت عبادت ہی کی ہو تی تھی۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات بیدار رہ کر عبادت الٰہی میں مستغرق رہتے تھے۔ امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ آپ پوری رات نماز پڑھتے رہتے تھے۔ ابو داؤد کی شرح عون المعبود میں لکھا ہے کہ آپ پوری رات نماز ، ذکر اور تلاوت میں گزارا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ یہ بھی فرماتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کبھی ایک ہی رات میں پورا قرآن ختم کیا ہو، یا کسی رات صبح تک نماز یں پڑھی ہوں، یا کسی مہینے میں مکمل تیس دنوں کے ر وزے رکھے ہوں‘‘(صحیح مسلم: ۴؍ ۱۰۴، رقم: 1233، سنن النسائی: 6؍ 67، رقم:1583)۔ اس آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار رہ کر عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ گھر والوں کو بھی جگاتے اور ان کو بھی مختلف طرح کی عبادتوں میں مشغو ل دیکھنا چاہتے۔ گھر والوں کو عبادات کی طرف لانا اور انھیں رمضان کی راتوں میں بیدار رکھنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لائق تقلید اسوہ ہے۔
اس عشرے کی دو خصوصیتیں اسے باقی دوسرے دوعشروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں اعتکاف کا مسنون عمل انجام دیا جاتاہے۔اللہ کے بہت سے نیک اورتوفیق یافتہ بندے دنیا کے کاموں سے یکسو ہوکر مکمل دس دنوں کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہ عمل ترک دنیا کی عملی مشق ہے جس کا موقع رمضان میں عطا کیا جاتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات وہ مبارک رات ہے جسے قرآن کریم میں لیلۃ القدر فرمایاگیا۔ اس مبارک ومسعود رات میں قرآن کریم جیسی عظیم وبابرکت کتاب لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمائی گئی۔ اس رات میں ملائکہ کثرت کے ساتھ دنیا میں تشریف لاتے ہیں اور ملائکہ کے سرخیل حضرت جبرئیل امین بھی تشریف لاتے ہیں جنھیں قرآن کریم میں الروح فرمایاگیا ہے۔ اس رات کو ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل فرمایاگیا۔ اس رات کوبابرکت رات بھی کہا گیا، اس رات کو سلام بھی کہا گیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں خیر ہی خیر ہے، سلامتی ہی سلامتی ہے، رمضان کے دو عشرے گزرچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہم میں سے کچھ لوگوں نے ان عشروں کو غفلت میں گزاردیا ہو۔ اب یہ تیسرا عشرہ ہے۔ گویا ابھی موقع ہے ہم دو عشروں کی غفلت کا تدارک اس عشرے کی ریاضت وعبادت سے کرسکتے ہیں اور نیکیوں سے اپنا دامنِ مراد بھر کر آخرت میں سرخ رو ہوسکتے ہیں۔ n