شاہد زبیری
ملک کے 5 صوبائی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی ہندو مسلم کے نام پر میدان مارنا چا ہتی ہے اور مذہبی بنیادوں اور ہندوتو کے ہتھیار کے ساتھ انتخابات لڑ رہی ہے۔ انتخابات کا آغاز یو پی سے ہو چکا ہے، اترا کھنڈ کی 40 سیٹوں کے لیے 14 فروری کو ہونے والی پولنگ سے دودن پہلے اور یوپی میں دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے عین وقت پر بی جے پی نے ہندوتو کے ساتھ یکساں سول کوڈ کا تڑکا لگا دیا ہے۔ اتراکھنڈ کے چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ بی جے پی دو بارہ اقتدار میں آئی تو حلف برداری کے فوراً بعد ایک کمیٹی تشکیل دے کر یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ آئین بنانے والوں کے خوابوں کو پورا کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہو گا۔ انہوں نے بات کی تائید میں سپریم کورٹ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ گا ہے بگا ہے یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر زور دیتا رہا ہے اور تاخیر پر ناراضگی بھی ظاہر کرتا رہا ہے ۔ پشکر دھامی کے ساتھ ہی بی جے پی کے ایک اور مر کزی لیڈر ارون سنگھ نے بھی ایک نجی چینل کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کر دیا جائے، اس لیے کہ بی جے پی رام مندر کی تعمیر اور کشمیر سے دفعہ 370 ختم کرنے کا وعدہ توپورا کر چکی ہے، اب یکساں سول کوڈ کا وعدہ پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پشکر سنگھ دھامی اور ارون سنگھ کے یکساں سول کوڈ کے بیان کی تردید بی جے پی نے نہیں کی ہے اور کرے گی بھی نہیں، اس لیے کہ بی جے پی جب جن سنگھ تھی تب سے یکساں سول کوڈ سمیت تینوں ایشوز اس کے ایجنڈہ میں سر فہرست رہے ہیں ۔
یکساں سول کوڈ پر بات کرنے سے پہلے یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ صوبائی انتخابات کے اعلان سے پہلے ہی بی جے پی نے ہندو مسلم کارڈ کا استعمال شروع کر دیا تھا اور ہندوتوکی دھار تیز کر دی تھی، خاص کر یوپی کے انتخابی تناظر میں پولنگ کے پہلے مرحلہ تک آتے آتے جناح، جاٹ، مغل، گنا دنگا، دبنگئی، لنگی اور ٹو پی سے بات تین طلاق قانون تک آگئی تھی۔ جس وقت پہلے مرحلہ کی پولنگ جا ری تھی، وزیراعظم نریندر مودی مغربی یوپی کی اپنی پہلی انتخا بی ریلی میں مسلم خواتین کی ہمدردی کا راگ الاپ رہے تھے اور تین طلاق قانون پاس کیے جا نے کا احسان مسلم خواتین پر جتا رہے تھے۔ اگر تجزیہ نگاروں اور ڈاٹا کلیکشن کے ماہرین اور سفو لوجسٹو ں کی مانیں تو پہلے مرحلہ کی پولنگ میں بی جے پی کا یہ پو لرائزیشن نہ کچھ اثر دکھا پایا اور نہ ہی جاٹ مسلم اتحاد میں دراڑ نظر آئی۔ سماجوادی پارٹی اور لوک دل الائنس پہلے مرحلہ کی 58 سیٹوں پر اپنی جیت کا دعویٰ کر رہا ہے اور بی جے پی کا کھیل ختم کیے جا نے کی بات کہہ رہا ہے جبکہ بی جے پی تال ٹھونک رہی ہے لیکن ما نا جا رہا ہے کہ سماجوادی اور لوک دل الائنس پہلے مرحلہ میںبی جے پی کے لیے بڑی چنوتی بن سکتا ہے اور بی جے پی 53 سیٹوں سے 15-20 سیٹوں پر سمٹ سکتی ہے۔ 2017 میں یہاں بی جے پی کو زبردست فتح ملی تھی اور کل 58 سیٹوں میں سے اس نے 53 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس کا میا بی کی بڑی وجہ 2013 کا مظفر نگر کا فرقہ وارا نہ فساد تھا۔ بی جے پی نے اس مرتبہ بھی نہ صرف 2013 کے فساد کے زخموں کو کریدا بلکہ 2014 کے سہارنپور مسلم سکھ فساد کے زخموں کو بھی ہرا کر نے کی کو شش کی۔ خود وزیر اعظم نے ان فسادات کا ذکر کیا ۔ یہ تو 10 مارچ کو پتہ چل پائے گا کہ پہلے مرحلہ کی پولنگ میں بی جے پی اپنے مقصد میں کتنی کا میاب رہی ہے لیکن انتخابات کا جو Narrative اور Trained پہلے مرحلہ کی پولنگ نے سیٹ کیا ہے، وہ دوسرے مرحلہ کی پولنگ میں بھی جا ری رہتا ہے، یہ دیکھنا باقی ہے۔ پہلے مرحلہ میں جاٹ اورمسلم اتحاد پر سب کی نظریں ٹکی تھیں تو دوسرے مرحلہ کی پولنگ میں مسلم یادوا تحاد اور دلتوں و او بی سی پر نگاہیں لگی ہیں۔ مغربی یو پی کے اضلاع سہارنپور ، بجنور، رامپور،بریلی، بدایوں، سنبھل، امروہہ اور شاہجہانپور ایسے اضلاع ہیں جہاں کی زیادہ تر سیٹوں پر مسلمان 35-40 فیصد سے لے کر 45-50 فیصد تک ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی یو پی کے ان 11 اضلاع کی 55 سیٹوں میں سے 2017 میں بی جے پی نے 38 سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان 11اضلاع کی 55 سیٹوں میں 20 سیٹیں ایسی ہیں جہاں دلت 20 فیصد ہیں۔ سہارنپور اور بجنور کی اگر بات کریں تو بجنور کانشی رام اور مایا وتی کا گڑھ مانا جا تا رہا ہے۔ دوسرے مرحلہ کی پولنگ میں اعظم خاں اور ان کے بیٹے عبداللہ اعظم کے علاوہ بی جے پی کی نیند حرام کر دینے والے بی جے پی کے باغی وزیر سوامی پرساد موریہ اور ڈاکٹر دھرم سنگھ سینی کا وقار بھی دائو پر لگا ہے۔ اس مرحلہ کی کامیابی کا نگریس کے باغی عمران مسعود کا سیاسی قد اور سیاسی مستقبل طے کرے گی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مسلمان جہاں آبادی کے تناسب اور ووٹ کی طاقت کے لحاظ سے مضبوط مانے جاتے ہیں، بی جے پی کا پو لرائزیشن کا نسخہ کا رگر رہتا ہے اور بازی اس کے ہاتھ رہتی ہے۔
دوسرے مرحلہ کی پولنگ میں بھی یہ خطرہ کچھ کم نہیں۔ علاوہ ازیں اس مرحلہ میں بی ایس پی کو نظر انداز کر نا بھی ممکن نہیں، اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ کچھ سیٹوں پر بی جے پی اور سماجوادی پارٹی میں سیدھے مقابلہ کی بجا ئے بی ایس پی کی وجہ سے مقابلہ سہ رخی ہو جا ئے جو سماجوادی پارٹی سے زیادہ بی جے پی کے حق میں جائے گا۔ دوسرا خطرہ اگر ہے تو وہ سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس کے مسلم امیدواروں سے ہے جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ان میں سماجوادی پارٹی کے 18، بی ایس پی کے 23 اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے 15 مسلم امیدوار آمنے سامنے ہیں جو مسلم اکثر یتی سیٹوں پر بی جے پی کی جیت آسان بنا سکتے ہیں۔ ہر چند کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان یکمشت سماجوادی پارٹی کی جھولی میں ووٹ ڈالیں گے اور ووٹ منتشر نہیں ہوں گے لیکن کیا یہ ممکن ہو پائے گا کہ مسلمان اپنے ووٹ کی طاقت کو منتشر نہ ہو نے دیں ؟ بی جے پی کا اگر پولرائزیشن کا نسخہ اور ہندو مسلم کارڈ کامیاب نہیں ہوتا تو بی جے پی کے لیے مغربی یو پی کے اپنے مضبوط قلعہ کو بچا نا مشکل ہو جائے گا۔ 2017 میں بی جے پی نے مغربی یو پی کی 113 سیٹوں میں سے 91 سیٹوں پر جیت درج کی تھی اور باقی یوپی میں او بی سی کارڈ چلا تھا اور چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اپنے پالے میں لا کر 300 سے زائد سیٹیں جیت کر کامیابی کی تاریخ لکھی تھی لیکن اس مرتبہ سماجوادی پارٹی نے بی جے پی کو اسی کی چال سے مات دینے کی کوشش کی ہے اور مشرقی اور سینٹرل یوپی میں چھوٹی پارٹیوں سے ہاتھ ملا کر میدان میں اتری ہے۔ سوامی پرساد موریہ، ڈاکٹر دھرم سنگھ سینی و پسماندہ برادریوں کے ممبران اسمبلی کی بغاوت نے سماجوادی الائنس کی کامیابی کے امکانات تو روشن کیے ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ بی جے پی سے اقتدار چھیننے میں بھی وہ کامیاب رہے گی۔ بی جے پی جس طرح اپنے سیاسی پتّے کھیل رہی ہے اور سام دام دنڈ کا استعمال کر نے کا ہنر جانتی ہے، اس سے سماجوادی پارٹی کے الائنس کے لیے سرکار بنا نا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں اورجوسیاسی منظر نامہ ابھر رہا ہے، اس سے بھی لگتا ہے کہ بی جے پی کی گدی کھسک سکتی ہے۔ اگر بی جے پی اس مرتبہ اقتدار سے بے دخل نہیں ہوئی تو 2024 کے پارلیما نی انتخا بات میں بھی اس کو شکست دینا محال ہوگا۔ بی جے پی کے لیے یوپی کی گدی بچانا اس کے ہندو راشٹر کے ایجنڈہ کی بقا اور مرکز میں اقتدار پر قبضہ کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے اس نے ہندوتو کے ساتھ اب یکساں سول کوڈ کا تڑکا لگا یا ہے جو جن سنگھ کے قیام سے اس کے ایجنڈہ میں سب سے اوپر ہے۔ حالانکہ جن سنگھ اور بی جے پی جس ذہن اور سوچ کی پیداوار ہیں، اس سوچ اور ذہنیت نے ہندو کوڈ بل کی مخالفت میں تمام حدود پار کر دی تھیں، نہرو اور امبیڈکر کے پتلوں کے ساتھ ہندوستانی آئین اور قومی پرچم تر نگے کو بھی نذر آتش کر نے میں شرم محسوس نہیں کی تھی۔ ایسا کر نے والوں کا مطالبہ تھا کہ آزاد ہندوستان میں ہندوستان کا ماڈرن آئین نہیں، منو سمرتی نافذ کیا جاناچاہیے اور ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈا قومی جھنڈا ہو نا چاہیے۔ آئین ساز کمیٹی نے آئین کے رہنما اصولوں میں دفعہ 44 کے تحت یہ گنجا ئش رکھی ہے کہ اگر مرکز و صو بے چا ہیں تو اپنے اپنے صوبہ میں یکساں سول کو ڈ نافذ کر سکتی ہیں جو تمام شہریوں پر بلا لحاظ مذہب و ملت نافذ ہو گا جس میں شادی بیاہ، زمین جائیداد غرض کہ سول کے تمام تر معاملات یکساںکوڈ کے تحت آتے ہیں لیکن 75 سال سے اس کا استعمال صرف سیاسی ہتھکنڈہ کے طور پر اور مسلم اقلیت کو چڑھانے کے لیے کیا جا تا رہا ہے۔ گوا کی مثال دی جا تی ہے کہ گوا میں 1961 سے یکساں سول کوڈ نافذ ہے جو پوری طرح سچ نہیں ہے۔ گوا میں عیسائیوں کے دونوںبڑے فرقوں کیتھولک اور پرو ٹسٹنٹ کے الگ الگ قوانین ہیں۔ ملک کی اکثریت کے اور صو بوں میں اپنے اپنے مذہبی، سماجی رواجی قوا نین ہیں۔اکثریتی فرقہ کے مشترکہ خاندان کی آمدنی میں انکم ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہے ۔ اتراکھنڈ میں تو ہندوئوں کے فرقوں میں متضاد فیملی قوانین ہیں ۔ اقلیتوں سکھ جین اور بودھ کے بھی اپنے اپنے فیملی قانون ہیں جن کے مطابق شادی بیاہ، زمین جائیداد کے مسائل طے کیے جا تے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان اپنے پرسنل لاء میں زیا دہ حساس ہیں۔ ماضی میں سپریم کورٹ بھی مرکزی حکومت سے اصرار کرتا رہا ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 44 کے تحت یو نیفارم سول کوڈ نافذ کرے، ماضی میں ایک غیر مسلم شخص کی شادی کے لیے مذہب تبدیل کر نے اور پہلی بیوی کو بے سہارا چھوڑے جانے پر دیے گئے فیصلہ کے وقت بھی سپریم کورٹ نے حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لیے کہا تھا لیکن ابھی تک کسی سرکار نے اسے نافذ نہیں کیا ہے۔ اب بی جے پی لیڈروں نے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر یہ شگوفہ چھوڑا ہے اور ہندوتو کا تڑکا لگایا ہے۔
[email protected]