✍️: نور محمد کیدار
6/دسمبر کا صدمہ ہمیں یاد ہے
آج 6/دسمبر 2023ء مطابق ٢١/جمادی الاول ١٤٤٥ه بدھ ہے، آج تقریباً 32 سال پورے مکمل ہوچکے ہیں، 6/دسمبر 1992ء مطابق ١٠/ جمادی الآخر ١٤١٣ه اتوار کو ہندو انتہا پسندوں اور دہشت گردی کا آؤبھگت کرنے والے ایک جم غفیر نے ہندوستان کے آئین اور سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر کر اور ہندوستانی عدلیہ ( ہائی کورٹ وسپریم کورٹ) کے احکامات اور فیصلوں کو جوتوں تلے روند کر ایودھیا کی پندرہویں صدی عیسوی میں تعمیر شدہ، مشہور تاریخی مسجد (بابری مسجد) کو زمین بوس کر دیا، اور پھر اس کے بعد بابری مسجد کا احتجاج کرنے والے 3000 ہزار مسلمان مرد وخواتین بوڑھے بچے نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا، یہ سب مرکزی فورسیز کی موجودگی میں نیز صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی شازش ملی بھگت سے ہوا۔۔۔
بابری مسجد اور غنڈوں کے پروپیگنڈوں پر ایک نظر
بابری مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے عہد میں اودھ کے گورنر میر باقی اصفہانی نے 1528ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں تعمیر کروائی تھی، اور مسجد کی تعمیر کے بعد سے وہاں اذان ونماز کے ساتھ آباد 1949ء میں 22,23 دسمبر کی سرد رات میں کچھ شر پسندوں نے مسجد میں گھس کر درمیانی گنبد کے عین محراب میں رام اور دیگر مورتیاں ایودھیا میں 421 سالہ قدیم بابری مسجد میں بٹھائی گئی اور 6/دسمبر 1992ء بروز اتوار کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا، اس واقعہ کو گزرے 32 سال ہوچکے ہیں، لیکن مسلم طبقہ اور سیکولر ذہنیت رکھنے والے لوگوں کہ دلوں میں اس کا زخم اب بھی تازہ ہے، پھلے ہی سپریم کورٹ نے منہدم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے، اور رام مندر بن کر تیار بھی ہو جائے گا، لیکن تاریخ کے صفحوں میں 6/دسمبر 1992ء ایک سیاہ داغ کی مانند درج ہوچکا ہے، جو ہمیشہ مسلمانوں کے آنکھوں میں کھٹکتا رہے گا، 6/ دسمبر کو ہر سال مسلم طبقہ اور سیکولر طبقہ،یوم سیاہ، کے طور پر مناتا ہے…
رام مندر قانون کے خلاف اور ہندو دھرم کے خلاف ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کا صداقت پر مبنی تبصرہ
مشہور سیاست دان اور ہندوتوا کے سرگرم کارکن ڈاکٹر سبرامنیم سوامی جو چند شیکھر حکومت میں مرکزی وزیر قانون رہ چکے ہیں، بابری مسجد کے ظالمانہ انہدام پر اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ 13/مارچ 1993ء کو حیدرآباد میں تقریر کرتے ہوئے اس سیاہ ترین حرکت کے خلاف اپنے غم وغصہ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور سخت الفاظ میں، آر ایس ایس اور رام جنم بھومی تحریک، پر تنقید کی، اور کہاں کہ آر ایس ایس موافق ہندو نہیں، بلکہ خالص مسلم دشمنی ہے، اور کچھ راکشس قسم کے ہیں جن کا دھرم سے کوئی تعلق نہیں، یہ اسی کی کارکردگی ہے، | سوامی جی کی تقریر ٹیپ ریکارڈر کی گئی اور حیدرآباد کے ہفتہ وار اینٹی کریشن میں شائع ہوئی بحوالہ- رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعہ|۔۔۔
حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیاں زمانہ گزرنے کے ساتھ درخشاں سورج کی طرح ظاہر ہوتی جارہی ہیں٫ موجودہ حالات کے تعلق سے نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی نقل کی جاتی ہے٫ یہ حدیث نبوی مسلمانوں کے حالات کی سچی تصویر ہے٫ اس میں مسلمانوں کے امراض کی تشخیص بھی زبان نبوت نے کر دی ہے٫ اگر مسلمان چاہیں اپنے امراض کا ازالہ کرکے حالات درست کر سکتے ہیں٫ دل ودماغ کی پوری توجہ کے ساتھ محبوبِ الٰہی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلنے والی چودہ سو سال پہلے کی یہ پیشن گوئی پڑھئے٫ حضرت ثوبان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا٫ وہ زمانہ قریب تر ہے جب قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے اپنے پیالے پر ٹوٹتے ہیں٫ ایک شخص نے عرض کیا٫ کیا اس زمانے میں ہماری تعداد بہت قلیل ہوگی؟ تو رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا٫ اس زمانے میں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی٫ لیکن تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی طرح (بے وزن) ہوگے٫ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا٫ اور تمہارے دلوں میں ٫٫ وہن ،، ڈال دے گا٫ ایک شخص نے سوال کیا٫ اے اللّٰہ کے رسول٫ وہن کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا٫ دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی( ابوداؤد:٤٢٩٧ ) مسلمانوں انصاف سے بتاؤں کہ کیا یہ دور حاضر کے مسلمانوں کی سچی تصویر نہیں ہے؟ الفاظ کے ذریعہ مسلمانوں کے موجودہ حالات کی اس سے بہتر تصویر کشی ممکن نہیں ہے٫ مسلمان کروڑوں٫ اربوں کی تعداد میں ہیں٫ لیکن سیلاب کی جھاگ کی طرح دنیا میں ان کا کوئی وزن نہیں ہے٫ جو قوم چاہتی ہے ان پر یلغار کرتی ہے، ان کی جان ومال عزت وآبرو اور دینی شعائر پر حملہ کرتی ہے٫ اور مسلمان کثرت تعداد کے باوجود حالات کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں٫ اور ہر طرح کی ذلت برداشت کر رہے ہیں٫ اس حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مرض کی جو تشخیص فرمائی ہے وہ بھی سو فیصد موجودہ حالات پر منطبق ہے٫ دنیا کی محبت مسلمانوں پر اس قدر غالب آچکی ہے کہ وہ اپنا دین وایمان عزت وآبرو سب کچھ دنیا کے لئے داؤں پر چڑھائے ہوئے ہیں…