زرخیز زمین میں نفرت کی کھیتی

0

محمد حنیف خان

محبت و نفرت دو جذبے ہیں جو انسانی وجود کا لازمہ ہیں، ان دونوں جذبات کے بہت سے اسباب ہیں، پہلا جذبہ خالص فطری ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ہے یہی وجہ ہے کہ ایک انسان بغیر کسی سبب کے چھوٹے بچوں خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو اس سے پیار کرتا ہے، جبکہ دوسرے جذبے کے کچھ اسباب ہوتے ہیں۔یہ انسان کے اندرون کی آلائش کے اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سامنے والے انسان میں کتنی انسانیت ہے۔ہندستان کثیر مذہبی ملک ہے، یہی کثرت اور پھر اس کثرت کے باوجود محبت کے معاملے میں وحدت اس کی شناخت تھی مگر اب یہ شناخت ختم ہوتی جارہی ہے، کیونکہ کثرت کی ہر وحدت اب محبت کی ایک راہ پر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کی الگ راہ بنتی جا رہی ہے لیکن عجیب مسئلہ ہے کہ مذہب کے نام پر جو نفرت و محبت کے جذبے ابھارے گئے ہیں ان کی صرف دو راہیں ایک اقلیت دوسری اکثریت، یہ دو گروہ بنتے جارہے ہیں۔ اب محبت یا نفرت فطری جذبوں کی بنیاد پر نہیں کی جارہی ہے بلکہ مذہب دیکھ کر یہ دونوں جذبے سامنے آتے ہیں۔ایسا ایک دم سے نہیں ہوا ہے بلکہ اس پر ایک طویل عرصے کی محنت صرف کی گئی ہے، جس کے اپنے مقاصد ہیں۔
شمالی ہند صدیوں سے اس ملک کا مرکز رہاہے، اس لیے سب سے پہلے اسی علاقے میں مذہب کی بنیاد پر ان دونوں جذبوں کا اظہار کیا گیاجس کے نقصانات اور فوائد بھی دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھے۔انسانیت کس طرح تار تار اور شرمسار ہوئی اس کا بھی نظارہ کیا گیا، کتنے معصوموں کی جانیں گئیں، کتنے سہاگ لٹے اور کتنے ہاتھ بے کنگن ہوئے یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر چونکہ اس کے ذریعہ پولرائزیشن کرکے ایک بڑا مقصد حاصل کرنا تھا اس لیے یہ سب کیا گیا، جس میں صرف منصوبہ ساز ہی شامل نہیں رہے، عوام بھی برابر کے شریک رہے۔دھیرے دھیرے یہ تجربہ ملک کے طول و عرض میں کیا جانے لگا، پھر گجرات سے لے کر آسام تک، کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک یہ تجربہ کیا جانے لگا،اس وقت اس کا مرکز تریپورہ ہے۔یہاں لسانی اور قبائلی عصبیت ضرور تھی مگر مذہبی منافرت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی لیکن جوں جوں شمالی ہند اور دوسرے علاقوں میں تجربے کامیابی سے ہمکنار ہوتے گئے تو ان کا دائرہ وسیع کیا جاتا رہا اور اس کے فوائد سمیٹے جاتے رہے، اب تریپورہ میں یہی کھیل شروع کردیا گیا ہے،جہاں مذہبی منافرت میں انسانیت کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ اب وہ لوگ جو صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے تھے، وہ اس کو بھول کر مذہب کی بنیاد پر نہ صرف محبت و نفرت کے جذبے کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ اس کے اظہار کیلئے مذہبی شعائر کی بے حرمتی اور انسانیت کی تذلیل بھی کر رہے ہیں، مقصدی برتری کا اظہار اور اس کے ذریعہ پولرائزیشن ہے تاکہ زمام اقتدار پر گرفت مضبوط رہے۔ یہ انسانیت کی تحقیر اور اکثریت میں ہونے کا ناجائز فائدہ ہے۔
تریپورہ کی سرحدیں بنگلہ دیش، میزروم اور آسام سے ملتی ہیں، اس لحاظ سے یہ نہ صرف سرحدی ریاست ہے بلکہ ایک حساس ریاست بھی ہے، یہاں دال چاول، گیہوں اور کپاس کی کھیتی ہوتی ہے، گنا بھی کثیر مقدار میں اگایا جاتاہے، جس کا میٹھا رس اب کڑواہٹ میں بدل چکاہے، اس زرخیر زمین میں میٹھے گنے کی جگہ نفرت کی کھیتی شروع کردی گئی ہے۔
تریپورہ دہلی سے دور ضرور ہے لیکن ٹیکنالوجی نے اب پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے اس لیے اب دوری کوئی معنی نہیں رکھتی ہے، اس کے باوجود تریپورہ میں نفرت کے کھیل پر دہلی خاموش ہے، اس کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔مین اسٹریم کے میڈیا کی خاموشی بھی اس کے جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہونے پر سوالیہ نشان لگارہی ہے مگر اس سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتاہے کیونکہ اب وہ خود غیر جانبداری کے بجائے جانبداری سے کام لینے میں ہی اپنا فائدہ دیکھ رہا ہے۔یہ وہی میڈیا ہے جو ملک کے کسی بھی علاقے سے ناپختہ ثبوت کے باوجود گرفتاری پر بڑے بڑے ڈیبیٹ کرتا ہے، ماہرین کو مدعو کرتا ہے اور گھنٹوں اس پر گفتگو کرتا ہے، مگر ایک درجن سے زائد مساجد پر حملوں پر خاموش ہے جبکہ انتظامیہ خود اس بات کی تصدیق کرچکی ہے کہ وہاں مختلف علاقوں میں حملے جاری ہیں۔ چونکہ مین اسٹریم کا میڈیا خاموش ہے، وہاں کی خبریں سوشل میڈیا سے سامنے آ رہی ہیں جو تصویریں سامنے آئی ہیں بہت خوفزدہ کرنے والی ہیں، ان کو دیکھ کر محسوس ہوتاہے کہ وہاں جان و مال کا تحفظ اس وقت بہت بڑا مسئلہ ہے مگر وزارت داخلہ بھی بالکل خاموش ہے، اس نے ریاستی حکومت کو کسی طرح کی ایڈوائزری نہیں جاری کی ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر ریاستی پولیس ان فسادات پر قابو نہیں پارہی ہے تو فوراً مرکزی فورسز کی تعیناتی کردی جانی چاہیے تھی۔
تریپورہ میں جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی کے افراد ریاستی وزیراعلیٰ کے ساتھ ہی منتظمہ سے ملاقات کرکے ان فسادات پر قابو پانے کی کوششیں کرر ہے ہیں۔محبت پر نفرت کا یہ حملہ اس وقت ہوا جب بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ کے خلاف اکثریتی طبقہ نے ایک ریلی نکالی۔ ایک رپورٹ کے مطابق تریپورہ کے ضلع گومتی کے ادیب پور میں وشوہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ نے جب یہ ریلی نکالی اور یہ لوگ اقلیتی علاقوں میں جانے لگے تو پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے، اس کے بعد بھیڑ نے تشدد کی شکل اختیار کرلی اور مسجدوں پر حملہ شروع کردیا۔ ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے مگر تشدد ختم نہیں ہوا۔ ایس آئی او تریپورہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع گومتی میں ادے پور کی ڈوگرہ بازار کی مسجد پر حملہ کیا گیا، تشدد کے بعد یہاں دفعہ144نافذ کردی گئی، اس کے باوجود مسلمانوں کی دکانوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔ ضلع اونا کوٹی کے راتاباری اور پال بازار کی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں توڑ پھوڑ کی گئی، مسلم گھروں پر سنگ باری کی گئی جہاں اقلیتی طبقہ سے اکثریتی طبقہ کی جھڑپ ہوئی۔ یہاں کیلاش ہار ٹاؤن میں مسجد پر وی ایچ پی کارکنوں نے ایک مسجد پر زعفرانی جھنڈا لہرایا، اسی طرح سے ایک مسلم عبدالمنان کی دکان پر بھی ان کارکنوں نے زعفرانی جھنڈا لگادیا۔
اسی طرح ویسٹ تریپورہ میں کرشن نگر کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا جبکہ دوسری جگہ چندرپور میں ایک مسجد کو آتش گیر مادے سے نذر آتش کردیا گیا، رام نگر میں مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، یہاں لگا سی سی ٹی وی کیمرہ بھی توڑ دیا گیا۔سپاہی جالا میں نرورہ بیسل گڑھ میں مسجد نذر آتش کردی گئی ہے۔نارتھ تریپورہ میں دھرم نگر میں مسجد پر حملہ کیا گیا، یہاں مسجد میں اذان روک دی گئی، ایڈووکیٹ عبد الباسط کا گھر نذر آتش کردیا گیا، اسی طرح پانی ساگر میں مسجد جلادی گئی، چام ٹیلہ میں بھی مسجد پر حملہ کیا گیا اور روا پانی ساگر میں متعدد مسلم گھر جلا دیے گئے۔ یہ رپورٹ 27؍اکتوبر کی ہے، جبکہ یہاں تشدد کا آغاز 21؍اکتوبر کو ہوا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ یہاں اعلیٰ پولیس افسران ایک طرف کسی بڑے تشدد سے انکار کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے 150 مساجد کو تحفظ فراہم کیاہے۔
اس پورے معاملے میں جہاں میڈیا اور مرکزی حکومت کی خاموشی حیران کن ہے، وہیں حزب اختلاف کی خاموشی بھی تعجب خیز ہے، اسی طرح سے مسلم جماعتوں کی خاموشی بھی حیرت ناک ہے۔ ابھی تک جمعیۃ علماء ہند یا اس سطح کی دوسری جمعیتوں کی مرکزی یونٹوں نے بھی اتنے بڑے فساد پر کسی طرح کا کوئی عملی اقدام نہیں کیاہے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ بغیر کسی تفریق مذہب و ملت ہر انسانیت نواز جماعت میدان میں آجاتی مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہاہے۔
ملک کے بشمول اقلیتی طبقہ، ہر فرد کے تحفظ کی پوری ذمہ داری حکومت اور منتظمہ پر ہے، اس کو بہر صورت شہریوں کے جان و مال اور عصمت و عزت کا تحفظ کرنا چاہیے، وہ اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو اس کو ناکام حکومت اور ناکام انتظامیہ تصور کیا جائے گا، اسی طرح عوام میں یہ شعور پیدا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کے ساتھ محبت اور یگانگت کے ساتھ پیش آئیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہوئے حملے کی کسی ایک فرد نے حمایت نہیں کی ہے، اس کے باوجود اگر ریلی نکال کر اقلیتی طبقہ کے دکان و مکان اور ان کے مذہبی شعائر کی بے حرمتی اور ان کو نذر آتش کیا جاتاہے تو یہ نہ صرف حکومت کی ناکامی تصور کی جائے گی بلکہ یہ بھی سمجھا جائے گا کہ وہ اس کی پشت پناہی کرنے والوں کو واک اوور دینا چاہتی ہے۔اس علاقے میں اگر ماضی میں مذہبی منافرت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی تو اب ایسے حالات کیسے بن گئے، اس کی ذمہ دار بھی حکومت و انتظامیہ ہی ہے۔یہاں ہونے والے فسادات کی جوابدہی ہونی چاہیے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتاہے تو اس زرخیز زمین میں نفرت کے کانٹے اگیں گے اور کانٹوں کی سرشت دامن کو تار تار اور انسانی بدن کو لہولہان کرنا ہے وہ آبیاری کرنے والوں کو بھی نہیں بخشتے ہیں، یہ حکومت و عوام دونوں کے ذہن و دماغ میں ہونا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS