عبیداللّٰہ ناصر
ملک کی سیاست میں ہی نہیں بلکہ سماج میں جو تبدیلی آئی ہے اور جس طرح سے مذہبی گروہ بندی اور عدم رواداری کو تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے سرکار کی سرپرستی میں فروغ دیا جا رہا ہے، جس طرح اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو قدم قدم پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، ان میں باربار نہ صرف عدم تحفظ کا احساس بلکہ احساس بیگانگی پیدا کیا جا رہا ہے اور یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ اس ملک میں دوسرے درجہ کے شہری ہیں اور گرو گولوالکر کے نظریہ کو لاگو کر کے آئین ہند نے انہیں جو تحفظات دیے ہیں ان سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک کا دوراندیش، انسانیت نواز، انصاف پسند اور ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کا حامی طبقہ تشویش میں مبتلا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ کو اگر روکا نہ گیا تو یہ ملک بہت جلد خانہ جنگی کا شکار ہو کر یوگوسلاویہ بھی بن سکتا ہے جو کئی ٹکڑوں میں منقسم ہو کر اپنا وجود ہی کھو چکا ہے۔ سری لنکا میں ابھی جو حالات رونما ہوئے ہیں، ہندوستان بالکل اس کی کگار پر پہنچ چکا ہے۔یہ طبقہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ان حالات سے ملک کو نکالنے کی صلاحیت صرف کانگریس میں ہے کیونکہ اپنی تمام تر خامیوں اور ماضی کی غلطیوں کے باوجود وہی پارٹی ملک کے مزاج کو سمجھتی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سبھی علاقائی پارٹیوں نے کسی نہ کسی موقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے سمجھوتہ کر کے اسے نہ صرف اس مقام پر پہنچایا ہے بلکہ اپنی ساکھ بھی گنوا چکی ہیں۔یہ طبقہ کانگریس کے جمود سے بھی تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ جس وقت ملک میں آئینی جمہوریت، معاشی بربادی، سماجی انتشار سے بچانے کی جدوجہد کرنے کے لیے اسے میدان میں اترنا چاہیے تھا وہ جمود کا شکار ہے، ’’نظریاتی آوارگی‘‘ میں بھی مبتلا ہے اور آپس میں سر پھٹول بھی کر رہی ہے۔اس کے سینئر لیڈران بھانت بھانت کی بولیاں بول کر پارٹی کے کارکنوں اور عوام کو کنفیوز کر رہے ہیں۔
سماج کا یہی طبقہ ان حالات میں راہل گاندھی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے کیونکہ نہ صرف کانگریس بلکہ دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں وہی ایک ایسا جیالا لیڈر ہے جو کھل کر بنا کسی خوف اور لاگ لپیٹ کے آر ایس ایس، اس کے فرقہ وارانہ نظریہ اور ملک کے جمہوری نظام کے خلاف حکومت کی سازشوں سے نبرد آزما ہے۔راہل گاندھی نے معیشت کی بربادی، کورونا کی تباہ کاری، سماجی انتشار پر اب تک جو باتیں کہی ہیں وہ ایک ایک کر کے سچ ثابت ہوتی جا رہی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں زبردست سیاسی بالغ نظری، معیشت کی سمجھ اور سیکولرزم کو لے کر صاف موقف ہے۔ایسے میں کانگریس کے جودھ پور اجلاس میں ان پر پھر کانگریس کی قیادت کی ذمہ داری قبول کرنے کا دباؤ پڑا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ یہ ذمہ داری قبول کریں گے بھی یا اپنے سابقہ موقف پر ہی قائم رہیں گے، لیکن انہوں نے 2؍اکتوبر کو گاندھی جینتی کے دن کشمیر سے کنیا کماری تک ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ شروع کرنے کا اعلان کرکے ملک کے اتحاد اور سالمیت کو بچانے کی جنگ کا اعلان کر دیا ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور جس کے لیے کافی عرصہ سے راہل گاندھی کو ایسی یاترا شروع کرنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا۔راہل گاندھی پارٹی کے صدر بنیں یا نہ بنیں، وہ پارٹی کے قدرتی لیڈر ہیں اور کوئی بھی لیڈر ان کے قد اور فہم و فراست کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن وہ آج کی سیاست خاص کر مودی-امت شاہ برانڈ سیاست نہیں کرسکتے، وہ گاندھی تو بن سکتے ہیں لیکن چانکیہ نہیں بن سکتے، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ پارٹی کسی چانکیہ کے حوالے کرکے ملک کو بچانے کے لیے دوسرے گاندھی بن کر میدان میں کود پڑیں اور یقین مانیں کہ اب بھی ان کے پیچھے چلنے والے ہزار دو ہزار نہیں لاکھوں لوگ ہوں گے کیونکہ مودی کی حکومت اور ان کے برانڈ کی سیاست نے آئین ہند ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی روح پر حملہ کیا ہے جس سے سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ تشویش میں مبتلا ہے۔ یہاں ایک بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ بی جے پی کو اس کی مقبولیت کی بنا پر ہی انتخابی کامیابی نہیں مل رہی ہے بلکہ اس کی کامیابی کے پس پشت اس کی انتخابی حکمت عملی، لا محدود وسائل، میڈیا کی بے حسی اور عوام دشمنی جیسے عناصر بھی کارفرما ہیں جن کی کاٹ مشکل تو ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔
جودھ پور میں منعقدہ سہ روزہ عزم نو کیمپ میں پارٹی صدر سونیا گاندھی نے جس طرح کھل کر ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافی اور مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور جس طرح اسلامو فوبیا اور پولرائزیشن کی سیاست کے لیے نریندر مودی حکومت اوربھارتیہ جنتا پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور مذہبی مقامات تحفظ قانون1991کی جس طرح حمایت کی وہ نہ صرف آر ایس ایس اور بی جے پی بلکہ خود کانگریس کے ان دائیں بازو کے عناصر کو کھلا پیغام ہے جو نرم ہندوتو کو پارٹی کی لائن بناناچاہتے ہیں۔اس معاملہ کو لے کر پارٹی کے اندر بھی گٹ بندی صاف دکھائی دی۔ایک گروپ چاہتا تھا کہ پارٹی اور پارٹی کی سرکاروں کی سطح پر ہندو تہواروں کو منایا جانا چاہیے جبکہ دوسرا گٹ اس کا سخت مخالف تھا کہ پارٹی اور سرکار کی سطح پر کسی بھی مذہب کی کوئی تقریب منائی جائے، ذاتی طور سے ذاتی سطح پر ہر کانگریسی کارکن اپنے اپنے عقیدہ کے حساب سے جو تقریب بھی منانا چاہے منائے۔سونیا گاندھی نے وزیر اعظم پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کم از کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ حکمرانی کا جو نعرہ دیا تھا، اس کا مقصد مسلسل پولرائزیشن اور ایک طبقہ کو خوف اور عدم تحفظ کے ماحول میں جینے پر مجبور کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نعرہ کا مقصد اقلیتوں کو نشانہ بنانا، ان کا استحصال کرنا، انہیں کچلنا، ان میں احساس بیگانگی پیدا کرنا ہے جبکہ وہ ہمارے سماج کا نا قابل تقسیم حصہ اور ہماری جمہوریہ میں برابر کے شہری ہیں۔
گیان واپی مسجد کو لے کر ملک کے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں، انہیں بابری مسجد جیسے حالات سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ وارانسی کے سول جج نے جس طرح مذہبی مقامات تحفظ قانون1991کو نظر انداز کرتے ہوئے تہ خانوں کے سروے کا حکم دیا، وہ ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا فیض آباد کے ضلع جج نے 1948میں بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے کے بعد دیا تھا یعنی مسجد کے اندر بنے رام چبوترے پر ہندوؤں کو پوجا کی اجازت تو دے دی تھی لیکن مسلمانوں کے لیے مسجد کے د و سو فٹ علاقہ میں داخلہ ممنوع کر دیا تھا۔1991میں کانگریس کی ہی نرسمہاراؤ سرکار نے یہ قانون بنا دیا تھا تا کہ آر ایس ایس جو بار بار ہر مسلم دور کی عمارت کے نیچے ایک مندر تلاش کر کے نت نئے تنازعے کھڑا کرتی ہے، وہ رک سکے۔کانگریس نے اپنے مذکورہ کیمپ میں اس قانون کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ یہ قانون برقرار رہنا چاہیے کیونکہ عبادت گاہوں کو لے کر روز نئے تنازع کھڑا کرنے سے کشیدگی بڑ ھے گی جو ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔اس سلسلہ میں پارٹی کا موقف واضح کرتے ہوے سینئر لیڈر چدمبرم نے کہا کہ یہ قانون اس لیے بنایا ہی گیا تھا کہ ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حیثیت میں ہے، اسی حیثیت میں رہے۔ بابری مسجد تنازع کو اس سے الگ رکھا گیا تھا کیونکہ تب یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔کانگریس کے علاوہ اب تک سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، ترنمول کانگریس، ٹی آر ایس سمیت کسی علاقائی پارٹیوں نے اس تنازع اور اس قانون کو لے کر اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔کانگریس کا یہ واضح موقف صرف مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ہے کیونکہ آر ایس ایس تاج محل، قطب مینار اور مسلم دور کی سبھی عمارتوں کے نیچے ایک مندر ہونے کی بات کہہ کر تنازع کھڑے کرتا ہے جس سے ملک میں فطری طور سے کشیدگی بڑھتی ہے جو امن عامہ ہی نہیں ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی خطرناک ہے۔
قومی سیاست میں نریندر مودی کا دور شروع ہونے کے ساتھ ہی ملک کا سیاسی ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ مسلم دشمنی ہی الیکشن میں کامیابی کی ضمانت بن گئی ہے اور سیکولرزم کا لفظ ہی سیاسی گالی بنا دیا گیا، بی جے پی نے اپنے لا محدود وسائل، زبردست نفری قوت اور میڈیا کے ذریعہ اس آگ کو خوب ہوا دی، کانگریس اور مسلمانوں کو ایک ہی خانہ میں رکھ کر ان کے خلاف نفرت کو سکہ رائج الوقت بنا دیا، ان حالات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف کھل کر موقف نہیں اختیار کر پا رہی ہے، کانگریس خود بھی اس معاملہ کو لے کر تذبذب کا شکار رہی۔ اس ماحول میں کانگریس کے دائیں بازو کے عناصر کو بھی کھل کر کھیلنے کا موقع ملا اور وہ پارٹی کو نرم ہندوتو کی طرف کھینچنے میں کامیاب رہے حالانکہ راہل گاندھی کا موقف بالکل واضح تھا اور آج بھی ہے لیکن اب جودھ پور کیمپ کے بعد پارٹی کا موقف کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ وہ سیکولرزم کے نہرو ماڈل پر ہی کاربند رہے گی کیونکہ یہی ایک ماڈل ملک میں کثرت میں وحدت کی ضمانت ہے، دوسرا کوئی بھی ماڈل ملک کوذہنی طور سے ہم آہنگ نہیں رکھ سکتا۔اس لحاظ سے جودھ پور کیمپ کو کامیاب کہا جا سکتا ہے۔
سیکولرزم پر اپنے عہد کے اعادہ کے ساتھ ہی کانگریس نے سوشل انجینئرنگ کی جانب بھی توجہ دی ہے۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ میں پچاس فیصد عہدے دلتوں، پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے ان طبقوں میں کانگریس کو لے کر اچھا پیغام جائے گا، اس کے علاوہ خواتین کے لیے33فیصد ریزرویشن کا جو معاملہ عرصہ دراز سے معرض التوا میں پڑا ہے، اس میں کوٹے کے اندر کوٹہ یعنی ان 33فیصد میں دلت، پسماندہ طبقوں اور اقلیتی خواتین کا کوٹہ دینے پر رضا مند ہو کر کانگریس نے علاقائی پارٹیوں خاص کر راشٹریہ جنتا دل، سماج وادی پارٹی وغیرہ کے موقف کو اختیار کر لیا ہے جس سے کانگریس کی حکومت بننے پر خواتین ریزرویشن کا جو ارادہ آنجہانی راجیو گاندھی نے ظاہر کیا تھا، وہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ سیاست میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ جگہ اور انھیں با اختیار بنانے کی جانب یہ ایک اہم قدم ہوگا۔
کانگریس کے جودھ پور اجلاس نے پارٹی ہی نہیں، موجودہ سیاسی، سماجی حالات سے تشویش میں مبتلا عوام کے دلوں میں امیدیں تو پیدا کی ہیں لیکن وہ ان کو کس حد تک عملی شکل دے سکتی ہے اور مودی-امت شاہ برانڈ سیاست کو انتخابی میدان میں شکست دے سکتی ہے یہ تو مستقبل ہی بتائے گا کیونکہ اصل امتحان تو الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]