انتخابی وجمہوری اصلاحات پر کام کرنے والی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس( اے ڈی آر)کی جب بھی کوئی رپورٹ آتی ہے، خواہ وہ اسمبلی وپارلیمانی انتخابات کے امیدواروں کے تعلق سے ہو یا پارلیمنٹ وریاستی اسمبلیوں کے ممبران اورریاستی و مرکزی حکومتوں کی وزارتی کونسل یاوزراکے تعلق سے، وہ حیرت انگیزاورچونکادینے والی ہوتی ہے۔ اے ڈی آرکی تازہ رپورٹ مرکز کی مودی سرکارکی نئی وزارتی کونسل کے تعلق سے آئی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ 78رکنی وزارتی کونسل کے 90فیصد وزرا کروڑ پتی ہیں تو 42فیصدملک کی سیاسی اصطلاح میں داغدار اور 15 فیصدصرف 8ویں سے 10ویں پاس ہیں ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ 82فیصد وزراگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھے ہوئے ہیں۔یہ مرکزی حکومت کی تصویر ہے۔ تقریباً ہر ریاستی حکومت میں بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ الیکشن، اسمبلی، پارلیمنٹ، حکومت یا وزارتی کونسل غریبوں اور شریف وسنجیدہ لوگوں کی رسائی سے بہت دور ہوتی جارہی ہیں۔ جب وہ الیکشن ہی نہیں لڑپاتے ہیں تو آگے کے مراحل طے کرنے کے بارے میں سوچنا ہی فضول ہے۔الیکشن میں کچھ ایسا ماحول بنایا جاتا ہے، رائے دہندگان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون امیدوار ان کے لئے اچھا ہے۔ ان کی نظر امیدواروں سے زیادہ پارٹیوں پر ہوتی ہے۔ چاہے پارٹی کے امیدوار کیسے ہی ہوں ، وہ ان ہی کو ووٹ دیتے ہیں۔ ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے ایک متبادل نوٹا(NOTA)تو ہوتا ہے لیکن جب لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، الیکشن، ووٹنگ اور نتائج پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا تو وہ اپنا ووٹ ضائع کرنے کے بجائے اپنی پسندیدہ پارٹی کے امیدوارکو دے دیتے ہیں ۔ اس طرح پارٹی کے ساتھ امیدوار بھی جیت جاتے جو بعد میں وزیر بنتے ہیں تو ان پر بحث ہوتی ہے ۔
اے ڈی آر کی طرف سے جو رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔ وہ اس کی نہیں ہوتی بلکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر علاحدہ علاحدہ موجود ہوتی ہے جس کا ذریعہ کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت اپنے بارے میں امیدواروں کی طرف سے داخل حلف نامے ہوتے ہیں ۔جن کو الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیتا ہے۔ اے ڈی آر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ان ہی حلف ناموں کو یکجا کرکے ان کا تجزیہ کرتی ہے اورالگ الگ پہلو سے رپورٹ شائع کرتی ہے ۔تو جب بھی اس کی رپورٹ آتی ہے، سماج کا سنجیدہ طبقہ کچھ لمحہ کے لئے سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ کچھ کرنہیں پاتا، کیونکہ اس صورت حال کی جتنی ذمہ دار سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں ، اس سے کم ذمہ دار عوام یا رائے دہندگا ن نہیں ہوتے ۔یہ پہلا یا معاملہ نہیں ہے کہ ملک کے غریب عوام کے منتخب نمائندے نہ صرف کروڑ پتی ہوتے ہیں بلکہ داغداراورکم پڑھے لکھے بھی۔ سب سے بڑی بات ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں کسانوں اور مزدوروں پر مشتمل ہے جبکہ ان کے منتخب نمائندے جن میں سے کچھ حکومت میں وزیربنتے ہیں یاکابینی وزیر کی سطح کے کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں ، شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ان کے درمیان روابط کا بھی فقدان ہوتا ہے۔جس سے ان کے مسائل اور پریشانی حل ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ نہ الیکشن کمیشن انتخابی اصلاحات کے تعلق سے اپنے مقصد میں کامیاب ہے اورنہ اے ڈی آر حقائق کی رپورٹیںکارگر ثابت ہورہی ہیں، کیونکہ ان کا اثر نہ حکومت پر پڑتا ہے اورنہ عوام یا رائے دہندگان پر ۔ لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے اے ڈی آر کی رپورٹیں باربارآتی ہیں لیکن جب بے حسی ختم نہیں ہورہی ہے تو آگے اصلاح اور بہتری کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ؟ جیسی عوام کی نمائندگی ہوگی ، ظاہر سی بات ہے کہ کام بھی ویساہی ہوگا ۔
[email protected]
عوام اور ان کے نمائندوں کا حال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS