شاہنواز احمد صدیقی
تقریباًڈیڑھ سال قبل جب روس نے یوکرین پر جارحانہ حملہ کیا تھا تو پوری مغربی دنیا میں غم واندوہ کا طوفان مچ گیاتھا اور مچنا بھی چاہیے تھا کیونکہ تیس سال قبل جو ملک آزاد ہوگیاتھا۔اور اس نے خودمختاری حاصل کرلی تھی، اس پر روس غاصبانہ حملہ کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل حاصل کرنا چاہتا تھا، ان ناپاک عزائم کے حصول کے لیے روس نے سب سے پہلے 2014 میں یوکرین کریمیا پرحملہ کرکے اس کو ہڑپ لیا اور اب پورے یوکرین کو اپنی مملکت میں ملانا چاہتا ہے۔ یوکرین میں بھری پوری آبادی کو اجاڑدیا گیا اور شہری اور رہائشی علاقوں پر بم باری کی اس پر پوری دنیا نے نکتہ چینی کی۔ مگر مغرب اور یوروپ کا نکتہ چینی کرنے کا انداز الگ اورمنفردتھا۔ کئی مغربی مبصرین نے روسی جارحیت میں مارے جانے والے افراد کی جلد اور آنکھوں کا رنگ دیکھ کر اپنے کرب والم کا اظہار کیا اور کہاگیا کہ ’گوری چمڑی‘ سنہری رنگ کے بال اور نیلی آنکھوں والے افراد کا مرنا بہت تکلیف پہنچاناہے۔‘اس ردعمل سے مغرب کی نسل پرستی آشکارا ہوتی ہے۔اس سے مغرب کے دوہرے معیار طشت ازبام ہوئے ہیں۔غزہ پرحالیہ اسرائیلی حملوں کے ردعمل نے اہل مغرب کی نسل پرستی کو بے پردہ کردیاہے۔
سوشل میڈیا پر امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے دوبیان کافی زیربحث ہیں۔ ایک وہ بیان ہے جو انہوںنے یوکرین میں روس کی جارحیت کے ردعمل میں دیاتھا اور دوسراوہ بیان ہے جو غزہ میں بے گناہ بچوں، عورتوں،اسکولوں، اسپتالوں، مساجد اور گرجاگھروں پر حملے کے بعد آیا ہے۔ انھوںنے بڑی دیدہ دلیری سے کہا ہے کہ ’ایماندارانہ بات ہے کہ غزہ میں شہری لوگوں کی جان کا نقصان ہو رہا ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہلاکتیں اور زیادہ بڑھیںگی کیونکہ جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ظالمانہ اور گندہ ہے۔‘ جبکہ یوکرین پر روس کی جارحیت پر کربی کا بیان رونے اوررلادینے والاتھا،وہ بیان دینے کے دوران خودبھی رو پڑے۔انھوں نے اس وقت کہاتھا کہ ’یوکرین میں جوہورہاہے، وہ دیکھا نہیں جاتا کہ یوکرین میں کیاہورہاہے۔ (روس کی) افواج جو کررہی ہے، میراخیال ہے کہ کوئی بااخلاق شخص اس کو درست قرار نہیں دے گا۔ ان چیزوں کو دیکھنا۔۔۔۔‘ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’ان تصاویر اورویڈیو کودیکھنامشکل ہے، کوئی بھی سنجیدہ اور باشعور شخص اس کو حق بجانب قرار نہیں دے سکتا ہے۔ ان امیجز کودیکھانہیں جاتاہے۔۔۔۔ساری!‘(وہ بہت زیادہ جذباتی ہوگئے تھے)۔
اسرائیل پرحماس کے دہشت گردانہ حملہ میں ہر طبقہ ہر عمر کے لوگ مارے گئے، اغواکیے گئے یہ ایک قابل مذمت عمل ہے۔ اسلام عورتوں،بچوں اور غیرمسلح عام شہریوںکو بدترین جنگ کے دوران بھی تکلیف اور ایذا پہنچانے کا قائل نہیں ہے۔ جنگ اورامن دونوں صورتوں میں اسلام کا ایک اعلیٰ معیار انسانیت ہے، بالکل منفرد چارٹرہے، جس مذہب میں ہرے بھرے درختوں اورکھڑی فصل کو نقصان پہنچانا ممنوع ہو، اس مذہب کے پیروکار جب ’مہذب‘، جمہوریت پسند، انسانی حقوق کا درس دینے والے ممالک کی ریاستی دہشت گردی کا شکارہورہے ہیں،تو اس پر دنیا کی سب سے قدیم اورمضبوط جمہوریت کے مدبر، مقتدر افراد یہ کہہ کر پلہ جھاڑ رہے ہیں کہ یہ توجنگ میں ہوتا ہی ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ چشم کشا بیان ہے اور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔ہم یہ رویہ بہت طویل مدت سے دیکھ رہے ہیں، عراق میں معصوم لوگوں کوبڑی بڑی آبادیوں،ڈکٹیٹروں سے نجادت دلانے کے لیے کس بربریت کے ساتھ لقمہ اجل بنایا گیا اورکس کی قیادت میں ٹکساس کے ’کوبوائے‘ (Cowboy)نے خاندانی چشمک کا بدلہ لاکھوں بے گناہ انسانوں (مسلمانوں)کو کارپیٹ بمباری میںہلاک کردیا دیا،اس کی تفصیلات تاریخ میں درج ہیں۔ ڈیڑھ سال قبل اس سے بھی بدترین قتل عام کرکے امریکہ اور اس کے حواری افغانستان سے نکلنے پر مجبورکیے گئے ہیں۔عراق 1991کے آپریشن ڈیسرٹ اسٹارم کی تقریباًسات ماہ کی بمباری کے بعد سے آج تک سنبھلانہیں ہے۔اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ عراق میں اس وقت کا حکمراں بھی جنگی جنون کا شکار تھا اور قرب وجوار کے چھوٹے اور امن پسند ممالک کے لیے خطرہ بن گیاتھا۔ کویت جیسے ملک پر اس کی یلغار دماغی فتور کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اصل میں مذکورہ عراقی حکمراں کی زندگی اور موت ان ممالک اور حکمرانوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے جو دوسری طاقتوں کے ایما پر اپنے ہم پیالہ و ہم مشرب،ہم مذہب اور پرامن ہمسایہ حلقوں اور طبقات کے خلاف مہرہ بن جاتے ہیں۔
بہرکیف، آج کے حالات اورتازہ ترین حادثات اور المیے نئی نسل کے حکمرانوں اور رعایا دونوں کے لیے سبق آموز ہیں۔ کیا قارئین بتاسکتے ہیں کہ اب تک ملت اسلامیہ نے ان واقعات وحادثاث اور سازشوں سے کیا سبق سیکھا۔ غزہ کی سڑکوں پر بے گناہوں کا خون دعوت احتساب دیتا ہے۔ دور دراز محفوظ مقامات پر رہنے والے آقاؤں کے اشارے پر پیراگلائیڈنگ کرکے سرخیاں بٹوری جاسکتی ہیں مگر دیرپا اور طول مدتی مقاصد کوحاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے مزید تحمل، دوراندیشی اور جامع حکمت عملی درکار ہے۔
سعودی عرب کے سینئر لیڈر ترکی بن فیصل السعودجن کو سفارتی امور، عالمی سیاست اور مسلم دنیا کی گہری سمجھ اور تجربہ ہے، نے ایک عوامی مذاکرے میں بالکل واضح کردیا ہے کہ ان واقعات نے کتنا نقصان پہنچایا ہے۔پچھلے دنوں کی ترکی بن فیصل کی پوری تقریر ان واقعات کے پس پشت واقعات اورمحرکات کا احاطہ کرتی ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ گزشتہ تیس سال (1993-2023)جب سے اوسلو معاہدہ ہوا ہے اور گزشتہ 57سال (1967جب سے عربوں اور اسرائیل اوراہل مغرب کے درمیان چھ دن کی جنگ ہوئی ہے) اور 76سال (جب سے برطانوی منڈیٹ کے بعد اسرائیل کا خنجر 1947میں مغربی ایشیا میں گھونپا گیا ہے) نہ تو اسرائیل کی قیادت اورمغرب کی اجتماعی قیادت یا انفرادی رویہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے، نہ ہی آنے کا امکان ہے۔ یہ مغرب، قدرتی اور معدنی دولت سے مالامال ملکوں کو خودمختاری اور اپنا موقف اور حکمت عملی اختیار کرنے کی آزادی ان ملکوں کے حکمرانوں اورعوام کو نہیں دے سکتے ہیں۔ عالمی اداروں کی بنیاد بھی اسی ٹیڑھی اینٹ پرکھڑی ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل پر ان ہی ’مہذب‘ ملکوں کا غاصبانہ قبضہ ہے اور کوئی بھی منصفانہ قرارداد کا پاس ہونا، ناممکن ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کی سیکورٹی کونسل کی کارروائیاں اس بات کی کھلی دلیل ہیں۔بالفرض محال اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو مناسب، معتدل ردعمل ظاہربھی کردے تو کس کی اتنی طاقت ہے کہ وہ نسل پرست اسرائیل یا اس کے سرپرستوں کے رویہ میں تبدیلی لادے گی۔
گزشتہ پانچ سال میں اسرائیل میں عام انتخابات میں بھانت بھانت کے وزیراعظم بنائے گئے۔ اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے والے دائیں بازو کی شدت پسند، کم شدت پسند، میانہ روی اختیار کرنے والے اعتدال پسند اور یہاں تک کہ بائیں بازوؤں کے مکتب خیال کے لیڈر بھی فائزرہے جن کو اسرائیل کے عربوں کی بھی حمایت حاصل رہی ہے مگر غزہ میں ہر وزیراعظم نے وہی کیا جو نیتن یاہو کررہا ہے۔ اسرائیل میں جوڈیشل اصلاحات کے نام پر موجودہ شدت پسندمکاتب فکر کے سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے حکومت کے ہربازو ہرکل پرزے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے خصوصاً فوجی اورعدالتی عہدوں پر اپنی مرضی کے سربراہان اور دیگر عہدیداران کو فائز کرنے کا التزام کیا ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن نے نتن یاہو کو صلاح دے ڈالی کہ وہ اسرائیل کے جمہوری نظام کو کمزورنہ کریں اور ان اصلاحات سے باز آئیں۔ اس پر نیتن یاہو نے سپاٹ انداز میں دنیا کے طاقت ور ترین شخص کو باور کرا دیا کہ وہ اسرائیل کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
اسرائیل کے اندر نتن یاہو حکومت کے اصلاحات کے خلاف زبردست ناراضگی تھی اورسماج کا ہرطبقہ بشمول فوج، خفیہ ایجنسیوں کے ماہرین، سفارت کار، فوجی،پائلٹ سب ناراض تھے اور ہرویک اینڈ پرتل ابیب میں زبردست مظاہرے ہورہے تھے مگر7اکتوبر کے واقعات نے اسرائیل کی موجودہ حکومت کے خلاف تمام آوازوں کودبادیاہے اور سب ایک صہیونی پرچم تلے جمع ہوگئے ہیں۔n
لہو کا رنگ ایک ہے: شاہنواز احمد صدیقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS