کانگریس کے سامنے چیلنجز ابھی کم نہیں

0

راہل گاندھی کی رکنیت کے خاتمے کے تنازع میں جس طرح غیراین ڈی اے ، غیربی جے پی پارٹیوں نے کھل کر کانگریس کی حمایت کی اور پارلیمنٹ کے اندراور باہر اس موقف کا اظہارکیا کہ منتخب اپوزیشن کے ایک سینئر لیڈر کا نااہل قرار دینا ہندوستان کے جمہوری نظام کو کمزورکرنے والا فیصلہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد کئی محاذوں پراپوزیشن میں اتحادجیسادکھائی دیاہے۔اپوزیشن کے دوحصوں میں اس معاملہ اتفاق رائے دیکھا گیا جوخوش آئندہے۔پچھلے دنوں اپوزیشن کے دو گروپ سرگرم دکھائی دیے۔ ایک گروپ وہ ہے جوکہ بی جے پی اورکانگریس کے ساتھ یکساں فاصلہ بنانے کا حامی تھا جبکہ دوسرا گروپ کانگریس کے ساتھ تال میل کرکے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کا حامی تھا۔ اس کے باوجود راہل گاندھی کی رکنیت کے معاملے پر کئی پارٹیوں نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ جوکانگریس کو لے کر تحفظات رکھتی ہیں۔ان میں عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس، کے سی آر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام پارٹیوں نے ایک زبان ہوکر اس فیصلہ پر نکتہ چینی کی تھی۔ اگرچہ کئی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ اتنی غیرمعمولی حمایت کے باوجود راہل گاندھی نے جو سرد مہری کارویہ اختیار کیا ہے وہ اس موقع کا فائدہ اٹھانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب کانگریس پارٹی اس طرح کے بحران سے بڑی کامیابی کے ساتھ نکل جایا کرتی تھی۔ مگر آج کی کانگریس میں وہ دم خم نہیں ہے جوکہ 1977اوراس کے بعد کے انتخابات کے ایمرجنسی کے اٹھائے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس زمانہ میں کانگریس میں اندراگاندھی جیسی بھاری بھرکم شخصیت تھیں اوران کا ساتھ دینے والے ان کے بیٹے سنجے گاندھی تھے۔ سنجے گاندھی نے اپنی ماں کی شعلہ دہن شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یوتھ کانگریس پر اپنی گرفت کافائدہ اٹھایاتھا۔ سنجے گاندھی اس زمانے میں یوتھ کانگریس کے سربراہ تھے اورانہوں نے اپنے اور پارٹی کے وفاداروںکو ٹکٹ تقسیم کرنے میں جس فراخدلی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کیا تھا اس کے نتائج بہت جلد نظر آگئے تھے اوراس زمانے میں جنتا پارٹی اور جن سنگھ جیسی تنظیموں کی مدد کے باوجود کانگریس مخالف اپوزیشن اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ اندرا گاندھی مخالف لہر کو برقرار رکھ پاتی۔ جنتا پارٹی کے لیڈروں اور مراری بھائی کی کابینہ کی آپسی پھوٹ اور بیان بازی نے بھی کانگریس کو مضبوط کیا۔
موجودہ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کو اس ماحول کا فائدہ اٹھانا چاہئے تھا اور آگے بڑھ کر اپوزیشن کی مہم کی قیادت کرنی چاہئے تھی۔ راہل گاندھی جوکہ حال ہی میں تقریباً 4ہزار کلو میٹر کا بھارت جوڑو یاترا کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل پر پہنچا چکے ہیں شاید وہ آج۔۔ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہترپوزیشن میں ہیں کہ وہ مختلف ریاستوں میں اپوزیشن اور اپنی پارٹی کے ورکرز میں این ڈی اے کے خلاف موجودہ ماحول کو بہتر طریقے سے استعمال کرسکتے تھے۔ راہل گاندھی شاید براہ راست سیاسی قیادت کو حاصل کرنے میں یا ایک سرگرم حزب اختلاف کا لیڈر دکھنے میں تامل سے کام لے رہے ہیں۔ راہل گاندھی اوران کی ماں کے بارے میں مسلسل یہ کہا جاتا رہا تھا کہ یہ خاندان کوئی سرگرم رول ادا کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں اور براہ راست اپوزیشن کا چہرہ بننے میں اجتناب کرتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں کانگریس کے مختلف مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی کے لیڈروں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ سیاسی جماعتوں کے مختلف سیل، ٹریڈ یونین، طلبا یونین اور اسی طرح مختلف بازوئوں پر ان کا کنٹرول تھا مگرآج کے حالات بالکل مختلف ہیں۔ کانگریس کے پاس اگرچہ اقتدار نہیں ہے اورآج بڑی تعداد میں کانگریسی مختلف سیاسی پارٹیوں بطورخاص بی جے پی اوراین ڈی اے کی پارٹیوں میں شامل ہوکر اپنی جان بچاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں پہلے ہی یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ بی جے پی کی سرکار ای ڈی اور سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کا استعمال کرکے اپوزیشن کے اہم لیڈروں کے خلاف کیس بناتے رہی ہے اور ان کو بی جے پی کی مخالفت کم یا ختم کرنے کے لئے مجبورکرتے رہے ہیں۔ مرکزی سرکار کے کنٹرول والی ایجنسیوں کے غلط استعمال کے خلاف اس بابت اپوزیشن پارٹیوں کی ایک عرضی سپریم کورٹ میں بھی داخل ہے جس میں اس معاملے میں ملک کی عظیم ترین عدالت سے مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کانگریس کے پاس 137 سال سے زیادہ پراناسیاسی ورثا ہے مگر آج کے حالات میں بی جے پی نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ اپوزیشن بطور خاص کانگریس کو کمزورکرنے والی ہے۔ مختلف ریاستوں میں کانگریس کے لیڈر یا تو بی جے پی میں شامل ہوگئے یا غیرسرگرم ہوگئے ہیں۔ اس کا اثر پارٹی کی تنظیم پربھی پڑا ہے ۔
بہرحال یہ کانگریس کے لئے کافی بڑا چیلنج ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں وسائل کی کمی کابھی عمل دخل ہے۔ پچھلے دنوںکانگریس نے اپنے ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ سے اپیل کی تھی کہ وہ پارٹی میں فیاضی کے ساتھ عطیات دیں۔ بغیر پیسے کے کوئی بھی پارٹی زیادہ دور تک جدوجہد نہیں کرپاتی ہے۔ کانگریس کے سامنے ایک دوسرا چیلنج مختلف ریاستوں میں کانگریس مخالف حکومتوں کا اقتدار بھی ہے۔ مغربی بنگال، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کیرالہ وغیرہ میں بی جے پی اور این ڈی اے کے علاوہ دیگرپارٹیاں جو کانگریس مخالف ہیں برسراقتدار ہیں۔ ظاہر ہے کہ کانگریس کو نہ صرف یہ کہ طاقتور اور وسائل سے آراستہ مقتدر بی جے پی کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے بلکہ مذکورہ بالا ریاستوں میں غیربی جے پی، غیراین ڈی اے پارٹیاں بھی اس کے سامنے بڑا چیلنج ہیں۔ کانگریس پارٹی کو ان چیلنجز کا مقابلہ کسی طرح منتشر تنظیم اور وسائل سے عاری تنظیم کے ساتھ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے حالات میں کانگریس صدر جوکہ جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور زبان اور دیگر اطوار سے وہ شمالی ہندوستان کے عوام کے ساتھ تال میل نہیں بٹھاپاتے۔ شمالی ہندوستان میں کانگریس کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔ ملکاارجن کھڑگے راجیہ سبھا میں ادھیررنجن چودھری لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ہیں۔ ادھیررنجن چودھری کا انداز اورزبان پر ان کی گرفت ایسی نہیں ہے جوکہ شمالی ہندوستان میں اور بطورخاص پارلیمنٹ بی جے پی کے تیزطرار لیڈروں سے مقابلہ کرپائیں۔ شاید انہی کمزوریوں اور تحفظات کے پیش نظر کانگریس نے ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جوکہ براہ راست شمالی ہندوستان کو اپیل نہ کرکے جنوبی ہندوستان پر فوکس کرنے والی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی نے جنوبی ہندوستان سے بھارت جوڑو مہم کا شروع کرکے یہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ ان کا فوکس بھی جنوبی ہندوستان ہے جہاں پر نہ توفرقہ پرستی کا اس قدر گھٹاٹوپ اندھیراہے اور نہ ہی کانگریس کی وہ سخت مخالفت جو گجرات وغیرہ جیسی ریاستوں میں دکھائی دیتی ہے۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ کرناٹک، مدھیہ پردیش اور بہار جھارکھنڈ میں انتخابات کافی دور نہیں ہیں۔ کانگریس نے فی الحال سارا فوکس کرناٹک پر لگا رکھا ہے جہاں پر کانگریس کے ریاستی صدر ڈی کے شیوکمار اور سابق وزیراعلیٰ سدھارمیہ میں اختلافات کی وہ شدت نہیں جوکہ اس سے پہلے بھارت جوڑو یاترا سے پہلے تھی۔ شاید کرناٹک میں کانگریس کو اقتدار واپس لانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کئی سیاسی پنڈتوںکا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس میں اس درجہ خلفشار نہیں ہے جس کیلئے پارٹی ماضی میں جانی جاتی تھی۔ شاید مدھیہ پردیش میں کانگریس کے اندرونی اختلافات کا سبب جیوتی رادتیہ سندھیا کا بی جے پی میں چلے جانا بھی ہے۔ کئی حلقوں کا ماننا ہے کہ جیوتی رادتیہ سندھیا جوکہ اب تک کانگریس کو دکھ دے رہے تھے وہ دکھ اب مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو دے رہے ہیں۔tq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS