کھڑگے کے سامنے چیلنج

0

طلبا سیاست سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ملکارجن کھڑگے آج کانگریس کے قومی صدر منتخب کرلیے گئے ہیں۔ 1998 میں سیتارام کیسری کے بعد 24برسوںمیںیہ پہلی بار ہوا ہے کہ گاندھی خاندان سے باہر کا کوئی شخص کانگریس کا صدر بنا ہو۔ ملک بھر میں کانگریس کے تقریباً 10 ہزار مندوبین نے اس انتخاب کیلئے ووٹ ڈالے تھے جن میں کھڑگے کو 7897ووٹ ملے اوران کے حریف سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کے حصہ میں1072ووٹ پڑے تھے۔ اس طرح کھڑگے کانگریسی مندوبین کی اولین پسند بنے اور اب وہ آئندہ26اکتوبر کو کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔ انتخاب کا نتیجہ آنے کے بعد سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی سمیت کانگریس کے کئی سینئر لیڈران جن میں ان کے حریف ششی تھرور بھی شامل ہیں، ان کے گھر پہنچے اورا نہیں مبارک باد دی۔ ہار کا زخم کھارہے ششی تھرور نے کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھڑگے کو تہنیت کا مکتوب بھی لکھا، جس میں انہیں تجربہ کار سیاست داں قرار دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ سب مل کر کانگریس کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔لیکن کیا کھڑگے واقعی دم توڑتی کانگریس میں نئی روح پھونکنے کا معجزہ دکھاسکتے ہیں، اس پر سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی قیاس آرائیاںکی جارہی ہیں۔ یہ کہاجارہاہے کہ کانگریس میں اب صرف صدر کا چہرہ ہی بدلے گا، تمام صورتحال پہلے جیسی ہی رہنی ہے، کانگریس پر اب بھی بالواسطہ گاندھی خاندان کا ہی قبضہ رہنا ہے کیوں کہ کھڑگے کو گاندھی خاندان کی مکمل حمایت حاصل تھی اور اس خاندان کے آشیرواد سے ہی کھڑگے صدر بن پائے ہیں۔
ہرچند کہ گاندھی خاندان نے اس انتخاب میں مکمل طور پر غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیاتھا لیکن اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ کانگریس میں گاندھی خاندان کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں لیاجاسکتا ہے اور کھڑگے گاندھی خاندان کی ہی پسند تھے۔ کانگریس میں صدارتی انتخاب کے آغاز سے اب تک کی کہانی پر یہی منظرچھایا ہوا ہے۔اس عہدہ کیلئے اشوک گہلوت، گاندھی خاندان کی پہلی پسند تھے لیکن راجستھان میں ہونے والی سیاسی رست و خیز کی وجہ سے وہ امیدوار نہیں بن پائے، کئی دنوں تک جمود طاری رہا پھر ملکارجن کھڑگے جلد بازی میں امیدوار بنائے گئے، اس طرح کھڑگے کی حیثیت ’ نامزدسرکاری‘ امیدوار کی تھی، ایسے میں ششی تھرور کی جیت کا امکان پہلے ہی کم ہوگیاتھا۔ ششی تھرور کو ملنے والے ووٹ بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں۔
بہرحال ملکارجن کھڑگے کثرت رائے سے کانگریس کے باقاعدہ صدر منتخب کرلیے گئے ہیں۔80 سالہ ملکارجن کھڑگے گرگ باراں دیدہ سیاست داںہیں۔ مسلسل 8بار کرناٹک اسمبلی کا انتخاب جیتنے کا ریکارڈ ان کے نام ہے۔ تین ایسے مواقع بھی آئے تھے جب وہ کرناٹک میں وزیراعلیٰ کے عہدہ کی دوڑ میں بھی شامل رہے لیکن وزیراعلیٰ نہیں بن پائے۔ لیکن کرناٹک کی کئی کانگریس حکومتوںمیں وزیر ضرور رہے۔2009 میں کانگریس کی منموہن سنگھ حکومت میں کابینہ کے بھی رکن رہے۔محنت، ریلوے، سماجی انصاف جیسی اہم وزارتوں کی ذمہ داری بھی نبھاچکے ہیں۔ لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں۔ لیکن کھڑگے کے یہ وزارتی تجربات کانگریس کو تنظیمی اعتبارسے مضبوط بنانے میں کتناکارگر ثابت ہوں گے، اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے۔
آج کانگریس کے سامنے چیلنجز کا ایک پہاڑ ہے۔ 2014کے بعد سے کانگریس مسلسل انتخابات ہارتی رہی ہے۔ درجنوں الیکشن گزرے ہیںجن میںپارٹی کی کارکردگی صفر رہی ہے۔کم و بیش نصف درجن ریاستیں کانگریس کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔پہلا چیلنج تو اگلے ماہ ہی ہونے والے گجرات وہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات ہیں، اس کے بعد 2023 میں ایک ساتھ دس ریاستوںکے اسمبلی انتخابات اور 2024 میں عام انتخابات کا سب سے بڑا مرحلہ درپیش ہے۔ان سب کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کا ایک کڑا امتحان بھی ہے۔
سیاسی عمل میںجمہوریت پر یقین رکھنے والوں کیلئے ملک کی موجودہ سیاست میں کانگریس کی کمزور حالت تشویش کا باعث ہے۔ ہر جمہور پسند کی یہ خواہش ہے کہ کانگریس اتنی مضبوط اور مستحکم ضرور ہو کہ وہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرسکے تاکہ ملک میںجمہوریت باقی رہ سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکارجن کھڑگے ان چیلنجز سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات ان کیلئے لٹمس ٹسٹ کی طرح ہوں گے اور ان دو ریاستوںمیں پارٹی کی کارکردگی سے ہی کانگریس کامستقبل بھی طے ہوجائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS