صرف درختوں سے خالی نہیں ہوگا کاربن بم کا گودام

0

پنکج چترویدی

ہندوستان پہلے ہی اقوام متحدہ کو یقین دہانی کرا چکا ہے کہ 2030 تک ہمارا ملک کاربن کے اخراج کی موجودہ مقدار کو 33 سے 35 فیصد تک کم کر دے گا، لیکن اصل مسئلہ تو ان ممالک کا ہے، جو مشینی ترقی اور جدید کاری کے چکر میں پوری دنیا کو کاربن کے اخراج کا دم گھونٹنے والا ڈبہ بنائے دے رہے ہیں اور اپنی معاشی ترقی کی رفتار کم ہونے کے خوف سے ماحولیات کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چند برس قبل پیرس میں آب و ہوا کی تبدیلی پر ہوئی کانفرنس میں ترقی یافتہ ممالک نعرے تو بڑے بڑے لگارہے تھے لیکن خود کاربن کی مقدار کم کرنے کے بجائے تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہندوستان اور اس کے جیسے ممالک پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ چونکہ ہندوستان میں اب بھی بڑی تعداد میں کنبے ہیں جو کھانا پکانے کے لیے لکڑی یا کوئلے کے چولہے استعمال کر رہے ہیں، اس لیے بین الاقوامی ایجنسیاں روایتی ایندھن کے نام پر ہندوستان پر دباؤ ڈالتی رہتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کاربن کے اخراج کی دیگر وجوہات زیادہ مہلک ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فضا میں تمام گیسوں کی مقدار مقرر ہے اور 750 ارب ٹن کاربن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورت میں فضا میں موجود ہے۔ کاربن کی مقدار میں اضافے کا برا نتیجہ ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی اور زمین کے گرم ہونے جیسی تباہ کن فطری تبدیلیوںکو ہم جھیل رہے ہیں۔ کاربن کی مقدار میں اضافے سے دنیا پر طوفان، کیڑے مکوڑوں کے پھیلنے، سنامی اور آتش فشاں جیسے خطرے منڈلا رہے ہیں۔ دنیا پر تیزابی بارش کے اندیشے بڑھنے کی وجہ بھی کاربن کی بے لگام مقدار ہے۔
زمین میں کاربن کے بڑے ذخائر جنگلات میں ہریالی کے درمیان ہیں۔ درخت، فوٹو سنتھیسس کے ذریعے ہر سال کوئی سو ارب ٹن یعنی پانچ فیصد کاربن کو فضا میں ری سائیکل کرتے ہیں۔ آج دنیا میں امریکہ سب سے زیادہ 1,03,30,000 کلوٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے جو کہ وہاں کی آبادی کے حساب سے فی شخص 7.4 ٹن ہے۔ اس سے زیادہ روس فی شخص 12.6 ٹن اور پھر کنیڈا فی شخص 15.7ٹن ہیں۔ جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا وغیرہ صنعتی ممالک میں بھی کاربن کا اخراج 10 ٹن فی شخص سے زیادہ ہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہندوستان صرف 20 لاکھ ستر ہزار کلوٹن یا فی شخص محض 1.7 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی خارج کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ2030 تک تین گنا یعنی زیادہ سے زیادہ پانچ تک جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قدرتی آفات ممالک کی جغرافیائی سرحدیں دیکھ کر حملہ کرتی نہیں ہیں۔ چونکہ ہندوستان ندیوں کا ملک ہے، وہ بھی زیادہ تر ایسی ندیاں جو پہاڑوں پر برف پگھلنے سے بنتی ہیں، لہٰذا ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہی چاہیے۔
کاربن کے اخراج کی مقدار کو کم کرنے کیلئے ہمیں ایک تو صاف ایندھن کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارے ملک میں ایل پی جی کی تو کمی ہے نہیں، ہاں سلنڈر بنانے کے لیے ضروری اسٹیل، سلنڈر کی تقسیم کے لیے زونل علاقوں تک نیٹ ورک تیار کرنا اور غریب لوگوں کو انتہائی کم قیمت پر گیس فراہم کروانا ہی بڑی چنوتی ہے۔ کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ملاوٹ والے پیٹرو کیمیکلز کی فروخت، گھٹیا سڑکیں اور آٹو پارٹس کی فروخت اور چھوٹے قصبوں تک ٹریفک جام ہونے کا مسئلہ ہے۔ ملک میں بڑھتے کچرے کا ڈھیر اور اس کو ٹھکانے لگانے کا مناسب نظام نہ ہونا بھی کاربن کے اخراج پر قابو پانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ واضح ہو کہ کوڑا جب سڑتا ہے تو اس سے بڑی مقدار میں میتھین، کاربن مونو و ڈائی آکسائیڈ گیسیں خارج ہوکر فضا میں کاربن کی کثافت کو بڑھاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے ڈیموں، آبپاشی کی نہروں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی دلدل بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتی ہیں۔
گرم ہوتی زمین اور کاربن کی مقدار کو سمجھنے کے لیے ماحولیات اور گرین ہاؤس گیسوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔ انہیں سی ایف سی یا کلورو فلورو کاربن بھی کہتے ہیں۔ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، میتھین ہے، نائٹرس آکسائیڈ ہے اور بخارات ہیں۔ ان میں بھی سب سے زیادہ اخراج کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہوتا ہے۔ اس گیس کا اخراج سب سے زیادہ ایندھن کے جلنے سے ہوتا ہے، خاص طور پر کوئلہ، ڈیزل-پٹرول جیسے ایندھن۔ یہ گیسیں فضا میں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کی وجہ سے اوزون کی پرت میں سوراخ کا دائرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ زمین کے ارد گرد کا ماحول خاص طور پر نائٹروجن(78فیصد)، آکسیجن (21فیصد) اور بقیہ ایک فیصد میں خوردبین گیسوں سے(ایسا اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ بہت کم مقدار میں موجود ہوتی ہیں) سے مل کر بنا ہے، جن میں گرین ہاؤس گیسز، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اوزون، آبی بخارات اور نائٹرس آکسائیڈ بھی شامل ہیں۔ یہ گرین ہاؤس گیسیں ایک غلاف کا کام کرتی ہیں اور اسے سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہیں۔ زمین کے درجۂ حرارت کے نظام کے قدرتی کنٹرولرس کے طور پر بھی انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اوزون کی پرت ہی سورج اور زمین کے درمیان ایک کوچ کی طرح ہے۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ جب گرین ہاؤس فضا میں موجود ہوتی ہیں تو وہ سورج کی حرارت کو جذب کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری فضا کا درجۂ حرارت بڑھتا ہی ہے۔
اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے آکسیجن میں تبدیل کرتے رہتے ہیں، لہٰذا جنگلات میں اضافے سے کاربن کا اثر کم ہوگا۔ یہ ایک جزوی حقیقت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ درختوں کی نشوونما میں معاون ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب درختوں کو نائٹروجن سمیت تمام غذائی اجزا مناسب مقدار میں ملتے رہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کھیتوں میں لاتعداد کیمیکلز کے استعمال سے بارش کا بہتا پانی کئی غیر ضروری عناصر کو لے کر جنگلوں میں درختوں تک پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے وہاں کی زمین میں موجود قدرتی عناصر کا حساب گڑبڑا جاتا ہے۔ تب ہی شہری درخت یا آبادی کے قریب کے جنگلات کاربن کو کنٹرول کرنے میں بے اثر رہتے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ جنگلات یا درخت فضا میں کاربن کی مقدار کو متوازن کرنے کا کام کرتے ہیں، وہ نہ تو کاربن کو جمع کرتے ہیں اور نہ ہی ضائع کرتے ہیں۔ دو دہائی قبل کینیڈا میں یہ ثابت ہوچکا تھا کہ وہاں کے جنگلات الٹے کاربن کا اخراج کر رہے تھے۔
کاربن کی بڑھتی ہوئی مقدار دنیا میں بھوک، سیلاب، خشک سالی جیسی آفات کو دعوت دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے نمٹنا پوری دنیا کا فرض ہے لیکن ہندوستان میں موجود قدرتی وسائل اور روایتی علم اس کا سب سے مؤثرحل ہے۔ چھوٹے تالاب اور کنویں، روایتی مخلوط جنگلات، کھیتی باڑی اور نقل و حمل کے پرانے ذرائع، کاٹیج انڈسٹریز کو بااختیار بنانا کچھ ایسی کوششیں ہیں جو بغیر کسی مشین یا بڑی ٹیکنالوجی یا پھر معیشت کو متاثر کیے ہی کاربن کو کنٹرول کرسکتی ہیں اور اس کے لیے ہمیں مغرب سے ادھار میں لیے گئے علم کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS