ہندوستان آزادی کے بعد سے ہی عالمی سطح پر بننے والے سیاسی بلاکوں کا حصہ بننے سے اجتناب کرتا رہا ہے۔ اس نے کبھی بھی بڑی طاقتوں کی دست نگر رہ کر اپنی خارجہ پالیسی وضع نہیں کی ہے، بلکہ عالمی سطح پر خودمختاراورآزادانہ و غیرجانبدارانہ حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ہندوستان کا شمار دنیا کی ان تین بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ناوابستہ تحریک کی بنیاد ڈالی اوردنیا کے مختلف بلاکوں میں پھنسنے کی بجائے علیحدہ اور خودمختار بلاک بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ غریب اور اس زمانے میں ’تیسری دنیا‘ کہے جانے والے ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سیاسی نظام اور معیشت کو مستحکم بنانے کی کوشش کی ہے۔ آج تک ہندوستان اسی حکمت عملی پر کاربند رہا ہے۔ اس نے کسی بھی کمیونسٹ بلاک یا مغرب کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کئے، مگر کسی بھی بلاک یا طاقت کا دم چھلّا بھی نہیں بنا۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو مصر کے جمال عبدالناصر اور یوگوسلاویہ کے صدرجوزف پروز ٹیٹو کے ساتھ مل کر ناوابستہ تحریک کی بنیاد ڈالی۔ آج بھی ہندوستان نے ہم خیال اور یکساں مفادات والے ممالک کے ساتھ مل کر ایک بلاک بنایا جس کو ’برکس‘ کہتے ہیں۔ اس بلاک کو نئے سیاسی نظام کے تناظر میں کافی اہمیت دی جارہی ہے۔ اس کا اجلاس جنوبی افریقہ کی راجدھانی جوہانسبرگ میں شروع ہوچکا ہے۔ اگرچہ اس اجلاس پر یوکرین جنگ کا سایہ لمبا ہوتا جارہا ہے ، مگراس کے باوجود مغربی ممالک اس تین روزہ اجلاس کے نتائج اور کارروائی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شروع میں یہ بات نکل کر آئی تھی کہ روس کے صدر ویلادیمیرپوتن اس اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں اور وہ اپنے ملک کی نمائندگی بہ نفس نفیس کریںگے، مگر بعد میں زمینی سطح پر ہونے والی تبدیلیوںکو مدنظررکھتے ہوئے اس کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی اوراب کہا جارہا ہے کہ ولادیمیرپوتن ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کریںگے۔ خیال رہے کہ صدر روس کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے اور اس کومدنظررکھتے ہوئے برکس ممالک کے سربراہ کانفرنس میں ان کی شرکت کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں، ان کے بجائے روس کے وزیرخارجہ سرگی لارو اپنے ملک کی نمائندگی کریںگے۔
یہ اجلاس ایسے دورمیں ہورہا ہے، جب ناٹوممالک یوکرین میں روس کے خلاف برسرپیکار ہیں اور مغربی ممالک نے روس پر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں، اس کا مقصد روس کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنا اور اقتصادی طورپر کمزورکرنا ہے۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ روس کی اردگرد حصار اس قدر کم کردیا جائے کہ وہ یوکرین میں اپنی جارحیت کو روک دے اور اس جنگ کو جاری رکھنے میں اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ مغرب کی ان تمام ترکوشش کے باوجود کچھ طاقتیں اورمعیشتیں ایسی ہیں جوکہ کسی ایک باسکیٹ میں تمام انڈے رکھنے کی حکمت عملی کے خلاف ہیں اوروہ چاہتی ہیں کہ جوبھی صورت حال ہے اس کا عملی طریقے سے مقابلہ کیا جائے، مگر بین الاقوامی اداروں یا قراردادوں اور ایڈوائزری کو مدنظررکھتے ہوئے ایک میانہ روی والی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جوہانسبرگ میں ہونے والے اس اجلاس میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی ،چین کے صدر شی پنگ اور برازیل کے صدر لوئیز ناکولولاداسلوا شرکت کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک کی اندھی تقلید نہ کرنے والے ممالک کا کہنا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی مونوپولی والے نظام کوچیلنج کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ متبادل اور متوازی حکمت عملی اختیار کی جائے اورجس قدرہوسکے برکس ممالک ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کریں جو مغربی کے دکھائے ہوئے راستے اور وضع کی گئی پالیسیوں سے بالکل الگ ہو۔ یوکرین کے بعد کئی ممالک نے مغرب کی جال اور شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی ہے اور برکس ایک ایسا فورم بنتا جارہا ہے، جہاں پر آزادانہ اقتصادی نظام اختیارکرنے کی پالیسی کو ایک چانس دینے کے لئے تقریباً 50ممالک کے لیڈرشرکت کر رہے ہیں۔ جوہانسبرگ میں برکس چوٹی کانفرنس کا انعقا د ہونا کئی معنوںمیں اہمیت کا حامل ہے۔ افریقہ کا شمار ایسے براعظموںمیں ہوتا ہے، جو تمام قدرتی، معدنی وسائل سے مالامال ہے، مگر اس کے عوام ہر قسم کی پریشانیوں ، غربت،بیماریوں، فاقہ کشی اور قحط سالی کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک خاص طورپر وہ ممالک جوایک زمانے میں پورے افریقہ براعظم کے اکثرممالک اپنا سامراجی جال بچھائے ہوئے ہیں۔ اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرناچاہتے ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے ان ممالک کے آپس کے اختلافات، قبائلی رقابتوں، لسانی اختلافات کا فائدہ اٹھاکر یہاں کے حکمرانوں اور مختلف ممالک پر مشتمل گروپوں پر اور تنظیموںپر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ حال ہی میںساحل خطے کے 15ممالک نے جس طریقے سے مالے، برکینیافاسو اوراب نائیجر نے فرانس کی بالادستی اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ مذکورہ بالا 15ممالک میں سے 12ممالک چاہتے ہیں کہ نائیجر میں ہونے والی حالیہ بغاوت کو بزور طاقت یعنی فوجی مداخلت کرکے ختم کردیا جائے اور سابقہ حکمراں کو واپس اقتدار میں لایا جائے۔ ظاہر ہے یہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور غیرمناسب حرکت ہے۔ ان تینوں ممالک نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی فوجی جارحیت کا منہ توڑجواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی کشمکش کے دوران جنوبی افریقہ کے ارباب اقتدار نے واضح کردیا ہے کہ ان کا ملک کسی بھی طاقت کے آگے سرنگوں نہیں ہونے والا ہے اور وہ اپنی خارجہ پالیسی، اپنے ملک کے مفادات اور عوامی فلاح وبہبود کے مطابق کام کرتا رہے گا۔ خاص طورپر یوکرین میں ہونے والی جنگ نے ان ممالک میں فریق بننے سے انکارکردیا ہے۔
اس کانفرنس میں ایران، وینزویلا کا رول بھی بڑا اہم ہوسکتا ہے اوریہ وہ ممالک ہیں، جو مغربی ممالک کی پابندیوں سے متاثر ہیں۔ ایران، ہندوستان، چین اور روس جیسے ممالک جوکہ مغربی ممالک کے آزادانہ معیشت کے حامی ہیں اور آپس کے تجارتی تعلقات میں لین دین اپنی ہی کرنسیوں میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مغرب کو ایک بڑا چیلنج دے رہے ہیں۔ عالمی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ برازیل، روس، ہندوستان اور چین دنیا کی بڑی معیشتیں ہیں اور آئندہ 10سالوں میں ان ممالک میں بڑے پیمانے پر ایف ڈی آئی آنے سے یہ ممالک عالمی معیشت میں بڑا رول ادا کرنے والے ہیں۔ اس میں سب سے اہم رول چین کا ہے، جو دنیا کے کئی خطوں میں اپنی سرمایہ کاری اور پروجیکٹوں پر سرمایہ لگانے کی وجہ سے طاقتور معیشت بنتا جارہا ہے۔ دنیا کے کئی خطوں میں چین کی معاشی شراکت بڑھتی جارہی ہے۔ مغربی ایشیا میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کرانے میں چین کا اہم رول ہے اور پورے خطے میں چین کو اس مصالحت سے گڈ ول ملی ہے ۔وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتاہے۔ چین اور ایران کے درمیان پہلے ہی بہت مستحکم اقتصادی اور سیاسی روابط ہیں اور اب سعودی عرب نے بھی اس کو اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ کئی بڑے پروجیکٹوںمیں چین، سعودی عرب اور جی سی سی ممالک بھی مدد کررہے ہیں۔ مغربی ایشیا کے ممالک اب برکس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان ممالک میں سعودی عرب اور یواے ای قابل ذکر ہیں۔ افریقہ کے بھی کئی ممالک نے برکس کی طرف توجہ دی ہے اورکئی ممالک نے اس بلاک کے ساتھ بہترتال میل اور ممبرشپ کے لئے عرضیاں دی ہیں۔
دنیا میں ایک متبادل اقتصادی نظام کی خواہش رکھنے والے 40ممالک برکس کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک ایسا اقتصادی بلاک بن جائے گا، جوکہ مغربی ممالک کو ٹکر دے سکے گا۔ ایران اور سعودی عرب برکس ممالک میں شمولیت کے خواہشمند ہیں۔ برکس کی مقبولیت اور افادیت کو مدنظررکھتے ہوئے برکس ممالک کے تاثیسی ممبران برازیل، روس، ہندوستان، چین اور سائوتھ افریقہ چاہتے ہیں کہ برکس ممالک کا دائرہ وسیع کیا جائے اور جنوب کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں اجلاس میں ایران، سعودی عرب، یواے ای،کیوبا، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، کومروس، گیبن اور تاجکستان جیسے ممالک اپنے نمائندے بھیج رہے ہیں اور ان ممالک کو فرینڈس آف برکس کہا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصر جیسے بااثر مسلم اور عرب ملک جنوبی امریکہ کے ارجنٹائنا، ایشیا کے بنگلہ دیش، گنیابسائو برکس سربراہ کانفرنس میں ورچوئلی شرکت کریںگے۔ پچھلے دنوں دنیا بھر کے ممالک کے اندربڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے چین نے برکس ممالک کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بات کہی ہے، مگر کئی ملکوں کے اس تجویز پر کچھ تحفظات ہیں۔ خاص طورپر ہندوستان اس معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ کچھ حلقوںمیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہندوستان نہیں چاہتا کہ سعودی عرب یا یواے ای برکس کے ممبربنیں، کیونکہ یہ ممبرآگے چل کر پاکستان کو بھی اس گروپ میں شامل کرنے کی بات کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگریہ بات درست ہے تو اس تنظیم کے دائرئہ کار میں توسیع کے معاملے پر کافی سنجیدگی سے غور وخوض کی ضرورت پیش آئے گی۔ ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ برکس وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ان تمام اصولوں، معیاروںاور طریق کار پر گفتگو ہوئی، جن پر تنظیم کی توسیع کی جاسکے گی اوراس معاملے میں غور وفکر ابھی بھی جاری ہے۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ ممبران کی توسیع کے معاملے میں ایک واضح پالیسی وضع ہو نہ کہ کسی بھی ملک کی اپنی انفرادیت یا اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جائے۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بیان کا بین اشارہ سعودی عرب کی طرف ہے۔
برکس میں شمولیت کرنے والے ممالک پس پشت اگرچہ مغربی ممالک کے غلبہ اور موجودہ عالمی شکنجہ سے باہر نکلنے کی خواہش ہے توکچھ ممالک اپنی انفرادی طاقت اور قوت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان ممالک میں ایران اور سعودی عرب شامل ہیں، جن کی مثال دی جاسکتی ہے۔ ایران مغربی ممالک کی پابندی سے نجات حاصل کرنے کے لئے برکس کا سہارا لینے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف سعودی عرب اپنی معیشت کی توسیع دینے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ سعودی عرب مغربی ممالک پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے دیگر متبادلوں پر توجہ دے رہا ہے اور برکس ممالک اس کے لئے بڑا میدان عمل ہوسکتے ہیں۔
ایک دور تھا جب برکس کوکوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ 2009 کے اقتصادی زوال کے بعد بنائے گئے اس بلاک کو 2021 کے بعد اہمیت ملنی شروع ہوئی ہے۔ کئی ماہرین کا کہناہے کہ آئندہ دہائی برکس ممالک کی ہوگی۔ شمالی امریکہ اور افریقہ کے ممالک میں بڑھتی توجہ اس کا اشارہ ہے، مغربی ایشیا اور افریقی ممالک نے برکس کے ساتھ آنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان ممالک میں کئی مالدار ممالک ہیں۔ ان میں 18ممالک ممبران بننے کے لئے عرضیاں دے چکے ہیں۔
برکس کے موجودہ ممالک کو امید ہے کہ یہ دولت مند ممالک ممبر بن جاتے ہیں تو ان کی معیشت کو بھی استحکام ملے گا۔ یہ خواہش رکھنے والے ممالک میں سرفہرست چین ہے۔ چین میں بڑھتی بے روزگاری اور معیشت میں سست روی کا مقابلہ اس کی توسیع سے کیا جاسکتا ہے۔ برکس کے اہم ملک برازیل کی معیشت میں سستی آئی ہے۔
کرپشن اور بدنظمی نے برازیل کو بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔ جبکہ روس کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے اور یوکرین میں جنگ سے اس کی اقتصادی صحت کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ ہندوستان کووڈ-19 کے بحران کے باوجود کسی اقتصادی بحران کاشکار نہیں ہے۔ ان ممالک کولگتا ہے کہ سعودی عرب اور یواے ای کوبرکس میں شامل ہونے سے ان کے مسائل کوحل کرنے میں سہولت ہوگی۔
عالمی سطح پر برکس ممالک کو مغربی ترقی یافتہ ممالک کا مخالف تصور کیا جانے لگا ہے جو جیوپولیٹکس میں مغربی بالادستی کو چیلنج دے سکتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مغربی ممالک کا مخالف بن کر اس بلاک کے قیام کے بنیادی مقصد ، تجارت، صنعت و حرفت، سرمایہ کاری،خوشحالی اور ترقی کے اعلیٰ مقاصد کوحاصل کیا جاسکتا ہے۔اس بابت کئی ماہرین ہندوستان، اسرائیل، امریکہ اور یواے ای کے گروپ کی مثال پیش کرتے ہیں، جو سیاسی اختلافات کے باوجود اقتصادی اور سرمایہ کاری کے میدان میں ہر ممکن تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج برکس عالمی معیشت کا 26 فیصد ہیں۔ ہندوستان، چین اور برازیل بڑی معیشتیں ہیں۔ یہ ممالک اجتماعی کوشش کرکے بڑی معیشت بن سکتے ہیں، مگریہ تب ہی ہوسکتا ہے جب برکس ممالک کی تعداد کو بڑھایا جائے اور ترقی اور توسیع کے دائرے کو وسیع کیا جائے۔
برکس اجلاس: متبادل عالمی نظام کے قیام کی جستجو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS