نئے مذہبی تنازع کا جنم

0

گزشتہ کچھ دنوں سے قومی دارالحکومت دہلی کی سنہری باغ مسجد کا معاملہ سرخیوں میں چھایا ہوا ہے، یہ مسجد نئی دہلی کے لٹین زون میں وی آئی پی علاقہ واقع ادھیوگ بھون کے قریب سنہری باغ سرکل پر واقع ہے اور سنہری مسجد کے نام سے مشہور ہے جو تقریباً ساڑھے تین سو سال قدیم بتائی جاتی ہے۔اس میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اور ایک گنجان علاقہ میںآباد ہے،لیکن اب اس پر بھی کچھ فرقہ پرست جماعتوں کی نظر بد ہے۔یعنی محکمہ نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے سنہری مسجد کو منہدم کیے جانے کی ٹھان لی ہے اور اس کے بارے میں مسلمانوں سے اعتراضات بھی طلب کیے ہیں۔این ڈی ایم سی کی دلیل ہے کہ سنہری مسجد کے آس پاس ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے اور یہ درخواست اسے دہلی ٹریفک پولیس کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔
اس خبرنے مسلمانوں کی بے چینی بڑھا دی ہے۔لہٰذا اب جہاں ایک طرف مسلمانوں کی طرف سے محکمہ کی نیت پرسوال کھڑے کیے جارہے ہیں تو وہیں کچھ تنظیموں نے اس قضیہ کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔بعض مسلم رہنمائوں اور قانون کے ماہرین نے حکومت کی نیت اور منشا پر سوال کھڑے کرتے ہوئے اسے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ این ڈی ایم سی کے ذریعہ رائے عامہ کے حصول کی بات پر سخت تبصرہ و تنقید بھی کی گئی ہے۔چونکہ یکم جنوری میں کچھ دن باقی ہیں، یہ تنازع لوگوں کو کافی فکرمند اور پریشان کیے ہوئے ہے۔مسلمانان ہند اس کے چھین لیے جانے کے خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔
بہر کیف، اس سلسلے میں محکمہ ہیریٹیج اور این ڈی ایم سی رائے عامہ کے بعد یکم جنوری کے بعد کیا فیصلہ لیتے ہیں، اس سے قطع نظر سب سے پہلی بنیادی بات تو یہ ہے کہ کیا دہلی میں تنہا سنہری مسجد ہی ایسی ہے جس سے ٹریفک نظام متاثر ہورہا ہے ؟جبکہ دیکھا گیا ہے کہ دہلی میںبہت سی جگہوں پر بیچ سڑک پر اکثریتی طبقہ کی عبادت گاہیں موجود ہیں جہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے اور ان کو ہٹانے کے بارے میںکوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے،البتہ وہاں آستھا کی دلیل پیش کر کے کام چلا لیا جاتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ این ڈی ایم سی مسجد کا قضیہ کھڑا کر کے آخر ظاہر کیا کرنا چاہتا ہے! اس کا ای میل کے ذریعہ رائے عامہ کاحاصل کرنا مسلمانوں کے ساتھ محض کسی مذاق سے کم نہیں لگتا۔اس کی یہ منطق کہ مسلمان ای میل کے ذریعہ اپنی آرا ظاہر کریں، بڑی بھونڈی بات لگتی ہے۔ کیا مسلمان ای میل کرکے محکمہ کو اس بات کی اجازت دے دیں گے کہ ان کی مسجد کو شہیدکر دیاجائے ! دوسری اہم بات یہ کہ آخر این ڈی ایم سی یہ اندازہ کیسے کرے گا کہ جو آراء اسے موصول ہوئی ہیں، وہ خالص مسلمانوں کی رائے ہے،کیا دوسرا کوئی مسلمان بن کر لاکھوں کی تعداد میں مسجد کو ہٹانے کی وکالت بھرے ای میل نہیںکرسکتا ؟لہٰذااین ڈی ایم سی کی یہ بے حد احمقانہ دلیل ہے جس پر اسے خود نظر ثانی کرنی چاہیے۔
پھر بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کوئی مسلمان کیسے اس مسجد کو ہٹانے یا منہدم کرنے کی حامی بھرلے گااور جب وہ ایسا نہیں کرے گا توایسی صورت میں پھر کیا فیصلہ لیا جائے گا؟کیا این ڈی ایم سی ایسے میں مسلمانوں کی منفی آرا ء کے جوابات کے تناظر میں اپنا فیصلہ موخر کردے گا ؟ہمیں نہیں لگتا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو بھی ملحوظ رکھے گا !کیونکہ اگر اسے مسلمانوں کی رائے کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر اسے مسجد کو منہدم کرنے کی بات بھی نہیں کرنی چاہیے یا ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے تھا۔
لہٰذا ہماری نظر میں این ڈی ایم سی کی نیت ٹریفک نظام کو چست درست کرنے کیلئے کم اقلیتوں کو پریشان کرنے کیلئے زیادہ لگتی ہیں۔ مبصرین اپنی آرا ظاہر کرچکے ہیں کہ چونکہ عام انتخابات قریب آرہے ہیں،پہلے ہی دو متھرا اور کاشی مساجد پر تنازعات کوجنم دے کر ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش چل ہی رہی ہے،لہٰذااب سنہری مسجد کا نیا تنازع پیدا کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سینکی جارہی ہیں۔ یقینایہ ایک طبقہ کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرنے جیسا ہے۔ بے حد تکلیف کی بات ہے کہ مہاتما گاندھی، نہرو اور امبیڈکر کے اس ملک میں جہاں آئین میں سیکولرازم کو بنیاد بنایا گیا ہو اور سبھی طبقات و فرقوںکو یکساں مواقع اورمذہبی آزادی دینے کی بات کہی گئی ہو، وہاں آج یہ نوبت آگئی ہے کہ اقلیتوں کو اپنی ایک ایک عبادت گاہ کی حفاظت کی فکر ستانے لگی ہے اور انہیں بچانے کیلئے صدر جمہوریہ اور وزیراعظم تک کو مکتوبات بھیجنے کے علاوہ عدالتوں سے فریاد کرنی پڑرہی ہے۔یہ اس لیے کہ تازہ معاملے میں بھی وزیراعظم مودی کو کچھ تنظیموں کی جانب سے مکتوبات بھیج کر سنہری مسجد کا تحفظ کرنے کی فریاد کی جا چکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عدالتیں انصاف کرتی ہیں اور ملک کے مسلمانوں کا عدالتوں پر مکمل بھروسہ ہے،تاہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے تنازعات کو حکومت اپنی سطح پر کیوں حل نہیں کرلیتی؟جس طرح سنہری باغ مسجد پر ایک فرقہ سخت پریشان و ششدر نظر آرہا ہے اور دہلی ٹریفک پولیس اور این ڈی ایم سی جس طرح سے اپنی بھونڈی تاویلات اور دلیلیں پیش کررہا ہے، ایسی صورت میں وزیراعظم کو مداخلت کر کے فوری طور سے اس کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کے سبب کسی بھی طرح کی فرقہ وارانہ فضا کو ممکنہ طور سے مسموم ہونے سے بچا لیا جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS