امریکی اور برطانوی میڈیا میں بے نقاب اسرائیلی جھوٹ: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ ایک طرف دنیاکے سب سے اعلیٰ اسلحہ جات سے لیس اسرائیلی فوج ہے،جو امریکی اسلحوں کا استعمال کر رہی ہے تودوسری طرف فلسطین کے عوام اور ان کی نمائندہ تنظیم حماس ہے جو بے سروسامانی کے عالم میں اس فوج کا مقابلہ کر رہی ہے۔جس اسرائیل نے فلسطین کے 88فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا ہے،وہ ان لوگوں کو دہشت گرد کہہ رہی ہے جن کے مکانات تاراج کرکے اس نے اپنی بستیاں بسائی ہیں۔اسرائیل امن عالم کا نقیب بننے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ اسرائیلی صدر ان میزائلوں پر دستخط کر رہے ہیں جن سے فلسطینیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ ’’کنیسٹ‘‘ میں باضابطہ کہا جا رہا ہے کہ فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہیے،اسرائیلی دانشور وہاں کے اخبارات میں مضامین لکھ رہے ہیں جن میں امن کا فارمولہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ فلسطین کو باضابطہ اپنی نو آبادیاتی کالونی بنا لینا چاہیے اور وہاں اسرائیل کا الگ سے بنایا ہوا قانون نافذ کرنا چاہیے اور جو اسے نہ تسلیم کرے، اسے بندوق کی گولیوں سے درست کرنا چاہیے۔وہ اسرائیلی جو باہر سے لاکر بسائے گئے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں فلسطینی عرب بستیاں بالکل نہیں چاہئیں، ان سب کو مار کر ختم کردینا چاہیے۔ اس کے باوجود اسرائیل امن کا نقیب ہے اور فلسطینی امن کے دشمن اور دہشت گرد ہیں۔ صرف ایک دن 25دسمبر کو 2400فلسطینی ایک اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے جن کی تدفین کا منظر انسانی اقدار کی دہائی دینے والوںکے منھ پر طمانچہ ہے۔اجتماعی قبروںمیں بلڈوزر کے اگلے حصہ پر رکھ کر ان کی تدفین کیا کی جا رہی ہے بس پاٹ دیا جا رہا ہے۔یہ سب اس لیے ہورہا ہے کیونکہ اسرائیل وہاں امریکی میزائلوں،بندوق کی گولیوں اور دیگر اسلحہ جات سے امن قائم کر رہا ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسرائیل،اس کا میڈیا اور اس کی فوج سب ایک ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں۔جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی جعلی خبروں کا دور شروع ہوگیا تھا اور اسرائیلی جعلی خبروں میں بہت پہلے سے ماہر ہیں۔چونکہ یہودی میڈیا کی طاقت سے واقف ہیں، اس لیے وہ دنیا کی رائے اپنے لیے ہموار کرنے کی خاطر اس طرح کی جعلی خبریں پھیلاتے ہیں جس سے ان کی معصومیت اور مظلومیت ظاہر ہواور دنیا میں یہودیوں سے جو ہمدردی ہے اس کی صرف دو ہی وجوہات ہیں، اول یہودیوں نے میڈیا کو اپنا وسیلہ بنایا اور دوسرے وہ جس ملک میں بھی رہے وہاں کی معاشیات پر قبضہ کیا جس کی وجہ سے ان کی گرفت مضبوط رہی اور ان ہی دونوں بنیادوں پر انہیں فلسطین میں اسرائیل بنانے کا موقع بھی ملا۔سر دست دو باتیں ایسی رونما ہوئی ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر جعلی خبریں پھیلاتے ہیں۔اول الشفا اسپتال سے متعلق واشنگٹن پوسٹ کی تجزیاتی رپورٹ اور دوم کرائسس ایکٹر اور پالی ووڈ جیسے الفاظ کا استعمال۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک تفصیلی رپورٹ “The case of al-Shifa: Investigating the assault on Gaza’s largest hospital” کے عنوان سے شائع کی ہے۔اس رپورٹ کو لوسیا لوولک،ایوان ہل،جوناتھن بارن،جیرٹ لی اور ایلن ناکا شیما نے تیار کیا ہے۔اس رپورٹ میں اسرائیلی فوج کے ترجمان جنرل ہیگاری کے27اکتوبر کو کیے گئے ان دعوؤں کی قلعی کھولی گئی ہے، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ الشفا اسپتال کی پانچ عمارتیں حماس کا ہیڈ کوارٹر ہیںاور اس کے نیچے سرنگیں ہیں جن کا استعمال اسرائیل کے خلاف کیا جارہا ہے۔دنیا نے دیکھا کہ ان دعوؤں کے ساتھ اسرائیل نے فلسطین کے اسپتال اور اسکولوں کو کس طرح تباہ کیا۔ فلسطین کے پورے طبی نظام کو تباہ کرکے اسرائیل نے زخمی ہونے والوں کو بھی مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔یہ وہی اسپتال ہے جس کا نظام درہم برہم ہوجانے کی وجہ سے انکیوبیٹرمیں مردہ بچوں کی لاشیں ملی تھیں جن میں کیڑے تک پڑ گئے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی اس تجزیاتی رپورٹ میں زمینی حقیقت کا جائزہ لینے کے بعد کئی نکتے بیان کرکے واضح کیا ہے کہ اسرائیلی جنرل کا دعویٰ جھوٹا تھا۔اخبار لکھتا ہے:وہ کمرے جنہیں اسرائیلی فوج نے زیر زمین عمارت سے منسلک دکھایا تھا، ان کے بارے میں اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ حماس ان کا ستعمال کر رہی تھی۔جن پانچ عمارتوں کے سرنگوں سے منسلک ہونے کا دعویٰ جنرل ہیگاری نے کیا تھا، وہ غلط ہے۔اس بات کے کوئی ثبوت ہی نہیں ہیں کہ اسپتال کے وارڈوں کے اندر سے سرنگوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے خود لکھا ہے کہ سیکڑوں بیماروں، مرنے والوں اور بے گھر ہوئے افراد کی رہائش گاہ(الشفا اسپتال)کو نشانہ بنانے کی حالیہ دہائیوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ اس لیے ہوا کیونکہ جنرل ہیگاری نے 27اکتوبر کی بریفنگ میں الشفا اسپتال کاایک اینیمیٹیڈ(خود ساختہ) ویڈیو دکھایا تھا،جس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی افواج نے ان سرنگوں کو تلاش کیا ہے جس میں حماس کے لڑاکے رہتے تھے۔ اس ویڈیو میں عسکریت پسندوں کے آرام کی جگہ،ان کے لیپ ٹاپ اور دیگر چیزوں کو متحرک صورت میں دکھایا گیا تھا۔اسی طرح سے ایک تصویر ریلیز کی گئی تھی جس میں عسکریت پسندوں کے اسلحوں کو دکھایا گیا تھا،لیکن اس بات کے ثبوت نہیں پیش کیے گئے کہ یہ اسلحے کس کے ہیں اور ریڈیولوجی میں یہ کیسے پہنچے۔ اسی طرح سے بہت سے سوالات ہیں جن پر واشنگٹن پوسٹ کی اجتماعی تجزیاتی رپورٹ لکھنے والوں نے غور وخوض کرکے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسپتال کو ہدف ٹارگیٹ(نشانہ) بنایا گیا تھااور جو بھی دعوے کیے تھے، وہ اسی لیے کیے گئے تھے تاکہ یہاں کے طبی نظام کو تباہ کردیا جائے۔اس طرح سے امریکی اخبار نے اسرائیلی فوج کی قلعی کھولی ہے۔اس کے علاوہ برطانیہ بھی اسرائیل کے حلیفوں میں ہے لیکن برطانوی ادارہ بی بی سی نے جعلی خبروں سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے اسرائیلی اخبار اورحکام جعلی خبریں پھیلا کر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دراصل میڈیا میں ایک تصویر آئی تھی جس میں ایک فلسطینی ماں اپنی بیٹی محمد ہانی الظاہر کی لاش اپنے ہاتھوں میں لیے ایک اسپتال کے باہر کھڑی ہے،اس تصویر کو شائع کرتے ہوئے ایک اسرائیلی اخبار نے لکھا کہ اس عورت کے ہاتھ میںلاش نہیں گڑیا ہے۔لیکن جب اس اخبار پر تنقید ہونے لگی تو اس مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹا دیااور اس کے لیے سوشل میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرایا۔اسی طرح اس جنگ کے دوران دو لفظ ’’کرائسس ایکٹر اور پالی ووڈ ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کرائسس ایکٹر یعنی ان حالات میں جو لوگ ایکٹنگ کرتے ہیں، اس کا الزام فلسطینیوںپر لگایا جا رہا ہے وہ ایکٹنگ کر رہے ہیں کہ اسرائیل ان کو اس طرح مار رہا ہے۔’’پالی ووڈ‘‘ Palestine اور Hollywoodسے ملا کر بنایا گیا ہے۔ اس لفظ کو پھیلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی اپنے حالات اور مرنے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔بین الاقوامی میڈیا میں اس لفظ کو بہت استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ اس کے پس پشت اسرائیلی ہیں ۔ان کی کوشش ہے کہ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کو جھوٹا ثابت کیا جائے۔بی بی سی نے خود اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے حامی اس لفظ کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ فلسطینیوں نے ابھی تک کوئی ایک لفظ اس طرح کا بالکل نہیں استعمال کیا ہے۔ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان اوفر گینڈل مین نے نومبر میںایکس (ٹویٹر) پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں دکھایا گیا کہ ایک ایکٹر کے چہرے پر نقلی خون سے میک اپ کیا جا رہا ہے۔کیپشن میں لکھا تھا ’’کیمرے کے سامنے جھوٹے زخم اور زخمی شہریوں کے بارے میں اداکاری آپ خود دیکھئے۔ایک بار پالی ووڈ پھر بے نقاب ہوا‘‘۔دراصل غزہ کے شہیدوں کو خراج عقیدت کے لیے 45سیکنڈ کی ایک لبنانی فلم کی یہ تصویر تھی، جسے اوفر گینڈل مین نے حقیقی بتاکر پوسٹ کیا،جس کی سچائی خود ڈائریکٹرمحمود ریمزی نے جب سوشل میڈیا پر بتائی تو انہوں نے اس تصویر کو ڈیلیٹ کردیا۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو اسرائیل دو طرفہ جنگ لڑ رہا ہے، ایک طرف تو وہ انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور دوسری جانب بڑھ چڑھ کر جھوٹ بول رہا ہے لیکن سچ سامنے آتاہے اور اسی کے حلیف امریکہ اور برطانیہ کے اخبارات اور ویب سائٹس ہی اس کے چہرے سے نقاب ہٹا کر اس کے جھوٹ کو دنیا کے سامنے اُجاگر کررہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS