تنگ آمد بجنگ آمد!

0

تنگ آمد بجنگ آمد! وہی ہواجس کی قیاس آرائی ہورہی تھی۔ اپوزیشن نے مجبور ہوکر مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دیا ہے جسے اسپیکر اوم بڑلا نے قبول بھی کرلیا ہے۔ ارکان سے مشاورت کے بعد اس پر بحث کیلئے کوئی تاریخ طے ہوگی اور وزیراعظم کو ایوان میںحاضر ہونے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔تیکھے ٹیڑھے سوالات جن سے اب تک وہ بچتے آئے تھے،وزیراعظم کے سامنے مجسم ہوںگے،ان کا سامنا کرنا پڑے گا اورا یوا ن کو مطمئن کرنے کی آئینی مجبوری کا تلخ گھونٹ بھی پینا پڑے گا۔مجموعی طور پر امروز فردا میں ایوان ایک نئی ہنگامہ آرائی کا شاہد بھی بننے والا ہے۔تاہم یہ یقینی ہے کہ اس تحریک عدم اعتماد سے مودی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکمراں جماعت اور اتحادیوں کی عددی برتری اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کیلئے کافی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی اپنی مدت کار پوری کریں گے، اس کے بعد انتخابات ہوں گے اور ممکن ہوا تو اقتدار کی منتقلی ہوجائے گی،لیکن وقت سے پہلے اور انتخابی عمل کے بغیر مرکزکی مودی حکومت کو گھر بھیجناممکن نہیں ہے۔
لیکن کسی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ حکومت پر ایوان کے ایک قابل لحاظ حصہ کو اعتماد نہیں رہاہے۔مہذب جمہوریتوں میں تو ایسی نوبت آنے سے پہلے ہی سربراہ حکومت مستعفی ہوجاتا ہے اور یہی سیاست کے اعلیٰ اخلاق کا بھی تقاضا ہے، لیکن ہندوستان میں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہاں نہ تو سیاست کے وہ اعلیٰ اقدار قائم ہیں اور نہ توانا جمہوریتوں کی بلند معیار کی پاسداری کی ہی کوئی روایت رہی ہے۔یہاں توحکومت سے چمٹنے کے بعد اسے قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے یہ پروا کیے بغیر کہ ملک کی جمہوریت اور پارلیمانی تقدس کے کیا تقاضے ہیں۔اخلاق، اصول، ضابطے اور قوانین سبھی کو پامال کرتے ہوئے کبھی حریفوں کو ڈرایا دھمکایاجاتا ہے تو کبھی ان پر خزانوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ملک کے دونوں ایوان سیادت کیلئے ’عزت سادات‘ کی نیلامی کے ایسے واقعات کے شاہد رہے ہیں۔
نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ میںگزشتہ 9برسوں کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب انہیں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل جولائی 2018 میںمودی حکومت کے خلاف کانگریس کی قیادت میں حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد لائی تھی۔ بحث کے بعد اس پر ووٹنگ بھی ہوئی۔ عدم اعتماد کی حمایت میں صرف 126 ووٹ پڑے جب کہ325ارکان پارلیمنٹ نے مودی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا۔اس بار بھی ایسا ہی ہوگا،لیکن فرق یہ ہے کہ اس بار اپوزیشن متحد ہے۔ ’انڈیا‘ کے بینر تلے تمام حزب اختلاف اس بات پر متفق ہیں کہ منی پور کے معاملے میں وزیراعظم نے ایوان کو اندھیرے میں رکھ کر اعتماد شکنی کی ہے۔ کئی بار تحریک التوا کا نوٹس دے کرمنی پورکی صورتحال پر بحث کا مطالبہ کیاگیا۔لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی الگ الگ پارٹیوں نے یہ اقدامات اٹھائے۔ حکومت ان کے مطالبات کو مسترد کرتی رہی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے بھی اپوزیشن کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔منی پور کی صورتحال پر مرکزی وزیرداخلہ کے بیان کی پیش کش کی گئی، لیکن اپوزیشن کا جائز اصرار یہ تھا کہ جب تک وزیراعظم پارلیمنٹ میں منی پور پر بیان نہیں دیں گے، دوسرا کوئی کام نہیں ہوگا۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے باہر منی پور پر سیاسی بات کی، لیکن ایوان میں بولنے سے گریز کرتے رہے۔منی پور کے سنگین حالات تقاضا کررہے ہیں کہ وزیراعظم سامنے آتے اور ایوان کے ذریعہ ملک کو بتاتے کہ منی پور میں کشت و خون کیوں جاری ہے، اس کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ہے۔شمال مشرق کی اس دور افتادہ ریاست میں انسانی لہو اور بیٹیو ں کی حرمت کی پامالی پر حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ہر چھوٹے بڑے موقع پر اپنے من کی بات کہنے والے وزیراعظم نے منی پور کے سنگین واقعات کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ وہ ایوان کے سوالوں کے جواب میں کون سا استدلال لاتے ہیں اور منی پور کی خونچکاں داستان کو کیا منطقی جواز فراہم کرتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS