اپوزیشن کو اب عوام سے لڑنا ہوگا: زین شمسی

0

زین شمسی

عدم اعتماد تحریک کیا تھی، بس یہ دکھانا تھا کہ بھارت کے وزیراعظم اتنے محنت کش ہیں اور مصروفیت سے اتنے بندھے ہوئے ہیں کہ انہیں ان ہی کے دیش کے ایک حصہ میں مہینوں سے لگی آگ پر آنسو بہانے تک کی بھی فرصت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں جس اتحاد کے پاس338 اراکین پارلیمنٹ ہوں، اسے کسی کے پاس جھکنے یا کسی کی بات سننے کے لیے مجبور بھی تو نہیں کیا جا سکتا، پھر سپریم کورٹ کے انتباہ کے بعد انہوں نے کم از کم دو جملے کہہ کر اپنی ذمہ داریاں مکمل کر ہی لی ہیں کہ منی پور کا واقعہ دیش کو شرمسار کرنے والا ہے۔ یہ شرمساری بھی تب ہوئی جب انسانیت کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ جانے والا ایک ویڈیو پورا بھارت دیکھ چکا۔ ویسے تو یہ شرمساری کوئی پہلی بار تو نہیں ہوئی، ایسے شرمناک واقعات کا تو ایک سلسلہ ہے جس نے نہ ختم ہونے کی قسمیں کھا لی ہیں۔ سروے اور رپورٹس کی مانیں تو عورتوں کی آبرو کے ساتھ بربریت کا ننگا ناچ کرنے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر نہیں آتے اور وہ بھی تب جب یہ ننگا ناچ فسادات یا مخصوص وقت پر سیاسی طور پر کیا گیا ہو۔ گجرات فسادات میں متعدد عورتوں کے ساتھ جس بے رحمی کے ساتھ فسادیوں نے اپنی طاقت دکھائی تھی، اس کے تمام دستاویزات موجود ہوتے ہوئے بھی کسی بھی مجرم کو اب تک کوئی سزا نہیں ملی، عدالت نے ایسے کئی معاملات میں ملزمین کو مفرور قرار دیتے ہوئے فائلس بند کر دیں۔ ظاہر ہے کہ مجرم کو سزا نہ دینا ہی جرم کو بڑھاوا دینا ہے۔ منی پور کا واقعہ ہو یا ممبئی کا یا پھر کہیں اور کا، مجرم کا سر بلند ہے، اس لیے یہ سارے واقعات ہورہے ہیں۔ ایسے واقعات کو سختی کے ساتھ نہ نمٹایا گیاتو بھارت کے لوگ اس طرح کی بہیمانہ حرکتوں کو عام سی بات مان لیں گے اور عورت کے ساتھ ایسا ہوناکسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچا پائے گا۔ جس طرح مہنگائی، بے روزگاری کولوگوں نے ہری جھنڈی دے دی ہے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ،اسی طرح عورتوں کا استحصال بھی کوئی معنی نہیں رکھے گا۔ پہلوانوں کا احتجاج اور اب منی پور کا دلخراش واقعہ یہ بتاتا ہے کہ مجرم کی سیاسی پشت پناہی بھارت کو عورت مخالف ملک قرار دینے کی سمت میں ایک بڑھتا قدم ہے۔
میڈیا کو ایسے معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں، اگر ہوتی تو راہل کے منی پور دورہ کے خلاف بھارت کا تمام میڈیایکجا نہ ہوگیا ہوتا اور اب تو حکومت میں بیٹھے لوگوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ راہل گاندھی کے وہاں جانے کی وجہ سے ہی منی پور آگ کے حوالے ہوا، یعنی پی ایم کی طرح انہیں بھی خاموش رہنا تھا، ان کے وہاں جانے سے کیا فسادات میں کمی آئی۔ ویسے ایسا نہیں ہے کہ میڈیا عورت مخالف ہے۔ جب منی پور میں عورتوں کو برہنہ کر کے گھمایا جارہا تھا، اس وقت میڈیا والے سیماحیدر کو اپنے اسٹوڈیو میں بٹھا کر یہ ظاہر کر رہے تھے کہ دیکھئے بھارت کے ایک شہری کے عشق میں مبتلا ایک پاکستانی نے کیسے اپنے بچوں سمیت مہان بھارت کو اپنا دیش سمجھا اور اسلام سے منکر ہو کر سچن کی محبت میں پاگل ہوگئی۔ تمام میڈیا اسے بھارت کی جیت قرار دے رہا تھا اور اس لوجہاد کی تشہیر میں دیوانہ ہوا پڑا تھا۔ادھر سیما حیدر کو نہ کلمہ یاد آرہا تھا اور نہ ہی اردو کالب و لہجہ سمجھ میں آرہا تھا، اس کے باوجود آج کل کے بھارت کے شیر ٹویٹر اور انسٹا گرام پر سیما حیدر کے سہارے مسلم کمیونٹی کو ذہنی زد و کوب کے دوراہے پر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے، کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ اس واقعہ سے مسلمانوں کو دکھ پہنچے گا اور انہیں ایسا اس لیے لگ رہا تھا کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں کہ مسلمان، ایسے مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں مانتے، وسیم رضوی کے تیاگی بننے پر ہندو اتنے خوش نہیں ہوئے تھے جتنا مسلمانوں میں جشن تھا۔سیما حیدر کے معاملہ کو بھی مسلمانوں نے صرف محبت کی داستان سمجھ کر دیکھا نہ کہ نفرت کی سیاست کے طور پر۔ یہ ایک اچھا احساس ہی تھا کہ جہاں ملک میں مسلمانوں کے تئیں اتنی شدید نفرت کا ماحول بن رہا ہے، وہاں سرحد پار سے محبت کی ایک خبر آئی اور اب تو میڈیا کو مزید خوش ہونا چاہیے کہ بھارت کی بیٹی انجوسرحد پار جا کر نصراللہ کی منکوحہ بن گئی۔ نفرت کی زمین پر محبت کی دکان چلتی رہے تو اچھا ہی احساس ہونا چاہیے، مگر میڈیا انجو کے ساتھ وہ سلوک نہیں کر پا رہا ہے جو سیما کے ساتھ کر رہا تھا،نہ جانے کیوں؟
سیاست جلے پر تیل چھڑکتی ہے یہ دیکھے بغیر کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ منور رانا تو کہہ ہی چکے ہیں کہ
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
تو سب کچھ آہستہ آہستہ سامنے آنا ہے۔جس طرح کا مائنڈ سیٹ بن رہا ہے اس کا انجام بھی خطرناک ہو جائے گا۔ کل کی ہی بات ہے، ایک مسلم آفیسر نے کسی موٹر سائیکل سوار سے لفٹ مانگی۔ اس نے ان کا نام پوچھا اور جب اسے پتہ چلا کہ یہ مسلمان آفیسر ہے تو اسے لفٹ دینے سے انکار کر دیا۔گویا اب سماج مسلسل دوحصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگااللہ پاک ہی جانے۔ معمول کے واقعات میں بھی ذات و دھرم کی اجارہ داری ہو رہی ہے۔مسلمانوں کی دکانوں سے پھل سبزی نہیں خریدنے کی سیاست تو پہلے سے ہی تھی، ابھی بی جے پی کے ایک وزیراعلیٰ نے تو صاف کہہ دیا کہ چونکہ مسلمان سبزی بیچتے ہیں، اس لیے ٹماٹر اتنے مہنگے ہو گئے۔ان سے پلٹ کر کسی نے پوچھا کہ پٹرول کی کتنی دکانیں مسلمانوں کی ہیں اور چاول اور دال کا کتنا ذخیرہ مسلمان جمع کر رہے ہیں۔
خیر عدم اعتماد تحریک اپوزیشن کے لیے ایک اشاریہ تحریک تھی، مگر اپوزیشن کے لیے یہ سوچنا ضروری ہے کہ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود لوگوں کا اعتماد براسراقتدار پارٹیوں کی جانب کیوں تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، جبکہ گزشتہ10سالوں سے جس طرح کی حکمرانی کا رواج چلا ہے عوام کو ہی عدم اعتماد کی تحریک چلا دینی چاہیے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ جہاں عدم اعتماد تحریک کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہیں اعتماد کی ترغیب اپنا کام کر رہی ہے۔ عوام کی اس طرح ذہن سازی کی جاچکی ہے کہ اپوزیشن کو اب بی جے پی سے نہیں بلکہ عوام سے ہی لڑنا ہوگا، کیونکہ اپوزیشن جتنے الزامات حکومت پر لگاتی ہے عوام کویہ سب پہلے سے ہی قبول ہوتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS