عبدالماجد نظامی
ہریانہ پولیس نے مونو مانیسر کو منگل کے روز اشتعال انگیز اور اعتراض کن سوشل میڈیا پوسٹوں کے معاملہ میں گرفتار کیا اور اس کے بعد اس کو راجستھان پولیس کے حوالہ کر دیا تاکہ ناصر اور جنید کے اغوا اور ان کے قتل میں مبینہ طور پر ملزم ہونے کے بارے میں مانیسر سے وہ پوچھ گچھ کر سکے۔ ابتدائی طور پر جو سوالات اس سے کیے گئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ موہت یادو عرف مونو مانیسر نے گائے کے تحفظ کے لیے تیار کردہ اپنے گینگ کے ساتھ مل کر اس سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق مانیسر نے ناصر اور جنید کی گاڑی اور ان کے موبائلوں کے نمبرات قتل سے ایک ہفتہ قبل ہی ہر طرف گئورکشکوں کے درمیان پھیلا دیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ ناصر اور جنید پر حملہ14اور15فروری کی درمیانی شب میں کیا گیا تھا۔ مئی کے مہینہ میں اس سلسلہ میں جو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، اس کے مطابق تین اوباش اس معاملے میں ملزم ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہ تینوں اوباش اور سماج و قانون مخالف عناصر اس رات دو حصوں میں بٹ گئے اور ناصر و جنید کو ہریانہ و راجستھان سرحد پر پیروکا نامی جگہ پر روکنے کے لیے ایک گھیرا قائم کر لیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقتولین کی نقل و حرکت کے بارے میں اس جرائم پیشہ کو پہلے سے ہی خبر تھی۔ ایک افسر کے نام کا ذکر کیے بغیر ’انڈین ایکسپریس‘ نے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ اس گینگ کا ارادہ جنید اور ناصر کو قتل کرنے کا نہیں تھا بلکہ انہیں اغوا کرنے کا تھا۔ وہ بس ناصر اور جنید کو پہلے گائے کے ساتھ پکڑنا چاہتے تھے۔ لیکن جب انہیں گائیں نہیں ملیں تو اس گینگ نے جنید اور ناصر کو اس غرض سے پیٹنا شروع کیا کہ ان سے یہ اُگلوا سکیں کہ گائیں کہاں ہیں۔ لیکن اس گینگ نے ان معصوموں کو اتنا پیٹا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اور انہیں شدید طور پر زخمی کر دیا۔ جب انہیں اندازہ ہوا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ہے تو انہوں نے زخمی ناصر اور جنید کو ہریانہ پولیس کے حوالہ کرنا چاہا لیکن ہریانہ پولیس نے انہیں لینے سے منع کردیا۔ اپریل کے مہینہ میں دو مبینہ ملزموں سے جو پوچھ گچھ کی گئی تھی، اس سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنید کی موت فیروزپور جھرکا میں ہی ہوگئی تھی۔ اس کے بعد دھرم کے نام پر گائے کی حفاظت کے یہ ٹھیکہ دار ناصر کی طرف متوجہ ہوئے اور بھیوانی میں ناصر کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالا اور اس کے بعد پٹرول ڈال کر ان کی گاڑی اور ان کی لاشوں کو جلا ڈالا تاکہ ثبوت کو مٹایا جا سکے۔
مذکورہ بالا تمام تفصیلات کس قدر خوفناک اور درندگی سے بھری ہوئی ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پورے معاملہ میں ہریانہ سرکار اور پولیس کی ذمہ داری بھی طے ہونی چاہیے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ آخر ہریانہ پولیس نے مانیسر کی قیادت والے گینگ کو گرفتار کیوں نہیں کیا جب وہ جنید اور ناصر کو زخمی حالت میں لے کر اس کے پاس پہنچا؟ اگر ناصر اور جنید کی اس وقت تک موت نہیں ہوئی تھی تو ان کو اپنی تحویل میں لے کر ان دونوں کو فوری طور پر اسپتال لے جاکر ان کا علاج کیوں نہیں کروایا گیا؟ اگر مونو مانیسر اینڈ کمپنی نے انہیں مار ڈالا تھا تو پھر مبینہ ملزموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے مقتولین کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کروایا گیا اور اس معاملہ سے پردہ اٹھا کر اصل مجرمین کو پس زنداں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ آخر کار یہ ملک کے اندر نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مسئلہ ہے جس کی ذمہ داری پولیس کو سونپی گئی ہے۔ کیا ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ نہیں چلایا جانا چاہیے جنہوں نے اپنی دستوری ذمہ داری کی ادائیگی سے جان بوجھ کر پہلو تہی کی تھی؟ لیکن یہ سب ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس سرکار سے کیسے متوقع ہے جس نے خود ہی مونو مانیسر جیسے اوباشوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ گئو رکشا کے نام پر دہشت پھیلانے والے ان عناصر کو وہ ذمہ داریاں بھی سونپ دیں جو قانونی طور پر صرف پولیس کو دی جاتی ہیں۔ سرکار کی جانب سے ملے اسی تعاون اور سیاسی پشت پناہی کا نتیجہ تھا کہ مونو مانیسر پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اپنا کام کرتا تھا۔ مانیسر بجرنگ دل کا رکن ہوا کرتا تھا اور ترقی کرتے کرتے 2022 میں گئورکشا تحریک کا چہرہ بن کر ابھرا اور گروگرام ضلع کی سطح پر بنائی گئی ’’گئو رکشا ٹاسک فورس‘‘ کا صدر بن گیا۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایسی ٹاسک فورسوں کو قانونی جواز حاصل ہے کیونکہ جولائی2021میں ہریانہ سرکار نے ان کو نوٹیفائی کر دیا تھا۔ نوٹیفائی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ2015میں ’’ہریانہ گئو ونش سن رکشن‘‘ اور ’’گئو سموردھن‘‘ جو قانون بنائے گئے تھے، ان کو نافذ کیا جا سکے۔ موہت یادو عرف مونو مانیسر کے پاس ہر ضلع میں گئو رکشکوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو ’’جانوروں کے اسمگلروں‘‘کو روکتا اور انہیں پکڑتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کام پولیس کے ساتھ مل کر یا ان کی پشت پناہی میں ہوتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مانیسر کا گینگ اتنی سرکاری حمایت پاکر اس قدر جری ہوگیا کہ وہ صرف گائے کے تحفظ کا کام نہیں کرتا تھا بلکہ ایک خاص کمیونٹی(مسلمان) سے پھروتی تک وصولی کرنے لگا تھا۔ جنید اور ناصر کے قتل کے بعد بھی وہ ہریانہ، راجستھان اور اترپردیش میں کھلے عام گھومتا نظر آیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق تو وہ ایک ہفتہ کے لیے تھائی لینڈ سے بھی ہوکر آیا ہے لیکن اس کے باوجود پولیس اس کو گرفتار نہیں کر سکی کیونکہ وہ اپنے جرائم کا ارتکاب خود پولیس اور سرکار کی نگرانی میں کیا کرتا تھا۔ کیا ایسی صورتحال کسی بھی جمہوری نظام کے لیے بے چینی کا باعث نہیں ہونی چاہیے؟ آخر ایسے عناصر کو جن کی دشمنی ملک کے شہریوں میں سے ایک خاص طبقہ کے ساتھ جگ ظاہر ہے، کھلے عام گھومنے بلکہ ان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ اس سے تو ملک کا امن و امان اور قانون و انتظام چوپٹ ہوجائے گا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مانیسر جیسے سماج مخالف عناصر کو نہ صرف سزا ملے بلکہ گئو رکشا کے نام پر جتنے بھی گینگ کام کر رہے ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے اور ان کے تمام سابقہ جرائم کے لیے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے تاکہ انصاف پر مبنی سماج کی تشکیل اور اس کی بقا کا انتظام ممکن ہو سکے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]