بھلا دیے گئے آزاد ہند فوج کے معمار

0

پنکج چترویدی

یہ جاننا ضروری ہے کہ فوجی طاقت سے ہندوستان پر پہلی بار ترنگا لہرانے والے سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج پہلے سے تشکیل شدہ ملی تھی، یہ چونکانے والی حقیقت ہے کہ آزاد ہند فوج کے تصور، تشکیل اور مقصد کے پیچھے سبھاش چندر بوس نہیں تھے، ہاں، نیتاجی کی رہنمائی نے اسے جوش دلایا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں قیدی بنائے گئے فوجیوں کو یکجا کر کے جاپان کی مدد سے برطانوی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کا منصوبہ پنجاب کے جنرل موہن سنگھ کا تھا۔ موہن سنگھ کے ذہن میں یہ خیال پنجاب کی غدر تحریک سے آیا تھا جس میں غیر ممالک میں رہنے والے ہزاروں لوگ ہتھیاروں کی طاقت پر انگریزوں کو ملک سے بھگانے کا خواب 1910 سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے 15 دسمبر 1941 کو آزاد ہند فوج کی تشکیل کی اور بعد میں 21 اکتوبر 1943 کو انہوں نے اس فوج کی قیادت سبھاش چندر بوس کو سونپ دی۔
سردار موہن سنگھ کی پیدائش آج کے پاکستانی پنجاب کے سیالکوٹ میں 3 جنوری 1909 میں ہوئی تھی۔ وہ 1927 میں برطانوی حکومت کے دوران ہندوستانی فوج یعنی برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہوئے تھے۔ ان کی بھرتی 14 پنجاب رجمنٹ میں ہوئی تھی اور ٹریننگ کے بعد رجمنٹ کی دوسری بٹالین میں تعینات کیے گئے تھے۔ 1931 میں وہ افسر بن گئے اور اس کے بعد 6 ماہ کی ٹریننگ کے لیے انہیں مدھیہ پردیش میں واقع کچنر کالج بھیجا گیا۔ اس کے بعد ڈھائی سال دہرہ دون میں واقع انڈین ملٹری اکیڈمی (آئی ایم اے) میں ٹریننگ اور پڑھائی کے بعد یکم فروری 1935 کو انہوں نے کمیشن حاصل کیا۔ پہلے انہیں ایک سال کے لیے برٹش آرمی کے ساتھ بارڈر رجمنٹ کی دوسری بٹالین میں تعینات کیا گیا اور پھر فروری 1936 میں انہیں 14 پنجاب رجمنٹ میں بھیجا گیا جو اس وقت جہلم علاقے میں تھی۔ اپنے ہی ساتھی فوجی کی بہن جسونت کور سے ان کی شادی ہوئی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران مارچ 1941 میں ان کی تعیناتی ملایا(موجودہ ملیشیا) میں تھی۔ جاپان کی فوج نے برطانوی فوج کو شکست دے کر ان کی یونٹ کو قیدی بنا لیا تھا۔ تبھی ایک جاپانی فوجی افسر میجر فوجی وارا نے بیرون ملک رہ کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کر رہے گیانی پریتم سنگھ سے رابطہ کیا اور موہن سنگھ کو اس بات کے لیے راضی کیا کہ وہ ہندوستان سے انگریزوں کو باہر نکالنے کے لیے کام کریں گے۔ اس طرح یرغمال بنائے گئے ہزاروں فوجی، جن میں بڑی تعداد میں ہندوستانی بھی تھے، موہن سنگھ کو سونپ دیے گئے اور انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل کی ابتدا ہوئی۔ واضح ہو کہ اس وقت جنوب-مشرقی ایشیا کے ممالک میں 20 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی تھے۔ 8 لاکھ ملایا میں، ساڑھے چار لاکھ تھائی لینڈ میں، ایک لاکھ برما میں، 2 لاکھ 70 ہزار انڈونیشیا میں۔ ہانگ کانگ میں بھی ہندوستانی تھے، جاپان نے بھلے ہی برطانوی فوج کو ہرا دیا تھا لیکن مقامی حکومت کے لیے ان کی بولی-زبان آڑے آرہی تھی۔ تب سنگاپور میں 17 فروری 1942 کو فوجی وارا اور موہن سنگھ نے ہاری ہوئی ہندوستانی بٹالینوں (1/14پنجاب اور 5/14 پنجاب) کے جوانوں کے بڑے اجتماع کو کھلے میدان میں خطاب کیا۔ جنرل فوجی وارا نے ہندوستان کی آزادی کے لیے فوج میں شامل ہونے کے لیے ہندوستانی فوجیوں کو رضاکارانہ طور پر مدعو کیا، ان سے وعدہ کیا گیا کہ انہیں جنگی قیدی (پی او ڈبلیو) نہیں سمجھا جائے گا بلکہ جاپان کے دوست کی طرح دیکھا جائے گا۔ اپریل 1942 میں جنرل موہن سنگھ نے اپنے افسران کے ایک گروپ کی میٹنگ بلائی جسے اب بڈادری ریزولیوشن کہا جاتا ہے۔ اس تجویز نے اعلان کیا کہ -ہندوستانی ذات، فرقے یا مذہب کے سبھی اختلافات سے اوپر ہیں اور آزادی ہر ہندوستانی کا پیدائشی حق ہے۔ اس کے لیے لڑنے کے لیے انڈین نیشنل آرمی کی تشکیل کی جائے گی۔ قرارداد میں آگے کہا گیا کہ ’آزاد ہند فوج صرف تبھی جنگ کرے گی جب کانگریس اور ہندوستان کے لوگ اسے حمایت دیں گے۔‘ راس بہاری بوس کی سربراہی میں انڈین انڈیپنڈنس لیگ نے مئی 1942 میں منعقدہ اجلاس میں موہن سنگھ کو مدعو کیا جہاں انڈین انڈیپنڈنس لیگ کو سپریم باڈی بنایا گیا تھا اور آزاد ہند فوج (آئی این اے) کو اس کے ماتحت رکھا گیا تھا۔ یکم ستمبر 1942 کو موہن سنگھ اس فوج کے جنرل بنے۔ 1915 میں برطانوی شکنجے سے بچ کر جاپان جابسے راس بہاری بوس کی سربراہی میں بنی انڈین انڈیپنڈنس لیگ ان ساری سرگرمیوں میں شامل تھی۔ انہوں نے بینکاک میں 15-23 جون کے دوران ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں 35 تجاویز پاس کی گئیں جن میں سے ایک کے مطابق موہن سنگھ کو آرمی آف لبریشن فار انڈین یعنی انڈین نیشنل آرمی کا کمانڈر اِن چیف بنادیا گیا۔
آزاد ہند فوج کے پہلے ڈویژن میں تقریباً 16 ہزار مرد شامل تھے۔ ان کی تقسیم 650 فوجیوں پر مشتمل 12 بٹالینوں میں ہونی تھی، ہر 2000 مردوں کے 4 رجمنٹوں میں منقسم کیا گیا تھا۔ بٹالین اور رجمنٹ کمانڈروں کا تقرر 5 ستمبر 1942 کو کیا گیا اور 8-9 ستمبر کو ان کے آرڈر جاری کیے گئے۔ راس بہاری بوس اور موہن سنگھ نے آزاد ہند فوج کی اجتماعی طور پر سلامی لی۔
جنرل موہن سنگھ کے تحت آئی این اے نے برطانوی فوج کے خلاف کئی جاسوسی اور تباہ کن سرگرمیاں انجام دیں اور مسلسل برطانوی فوجیوں سے ہندوستانی فوجیوں کی بھرتی کی۔ باضابطہ طور پر لوگوں کو ٹریننگ دی گئی اور آپریشنل چین آف کمانڈ قائم کی گئی۔ کچھ ہی دنوں میں موہن سنگھ کا جاپانی انتظامیہ سے اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ آزاد ہند فوج کو جاپانی فوج کی ایک رجمنٹ مان کر ایک آزاد یونٹ کے طور پر منظوری دی جائے۔ جنرل فوجی وارا سے بڑھتے ٹکراؤ کی وجہ سے دسمبر 1942 میں موہن سنگھ کو جاپانی فوج پولیس نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا اور آئی این اے سے جاپان کی حمایت واپس لے لی گئی۔ جاپانی فوج کے ذریعے آزاد ہند فوج کے غلط استعمال کے خدشے سے موہن سنگھ نے گرفتاری کے بعد فوج کی تقسیم کا آرڈر پاس کیا۔
جنرل موہن سنگھ کی گرفتاری کے بعد انڈین انڈیپنڈنس لیگ کے لیڈر کے طور پر راس بہاری بوس نے 1942 اور فروری 1943 کے درمیان آزاد ہند فوج کو تقسیم نہیں ہونے دیا اور اسے جوڑ کے رکھنے کے لیے جاپانیوں سے بات چیت کر کے 15 فروری 1943 کو فوج کو لیفٹیننٹ کرنل کیانی کی کمان میں زندہ رکھا۔
ہٹلر کے جرمنی کے ساتھ جاپان کے سمجھوتے کے تحت سبھاش چندر بوس کو جرمنی سے سنگاپور بھیج کر راس بہاری بوس سے انڈین نیشنل آرمی کا چارج لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ موہن سنگھ کو اس نئی فوج کے پہلے سیشن کو خطاب کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن جاپانی ہدایات کے مطابق انہیں فوج کی کمان سے دور رکھا گیا۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کے کمان سنبھالنے کے بعد موہن سنگھ نہ صرف رہا ہوئے بلکہ آزاد ہند فوج کے سربراہ رہے۔
ملک کو جب آزادی ملی تو سردار موہن سنگھ کو یہ دکھ رہا کہ تقسیم میں ان کا پشتینی پنڈ سرحد کے پار ہو گیا اور انہیں ایک پناہ گزیں کے طور پر آنا پڑا، نہرو جی نے سردار موہن سنگھ کو لدھیانہ کے جگیانہ میں کھیتی کی زمین دلوائی اور نئے گاؤں میں انہوں نے اپنی زندگی کانگریس کے کارکن کے طور پر شروع کی، وہ دو بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ 26 دسمبر 1989 کو 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال اپنے گاؤں میں ہوا۔ آج کی تاریخ ان پر اس لیے کچھ بولتی نہیں لیکن نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں اس موضوع پر ڈھیر سارا کام ہوا ہے۔ ہیوز توئے نامی ایک محقق کا پیپر-فرسٹ انڈین نیشنل آرمی، 1941-1942 اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ ہم صرف مجسمے لگانے یا کسی دیگر لیڈر کو نیچا دکھانے کے لیے اپنے قومی وقارکا استعمال کرتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS