عمیر کوٹی ندوی
حرکت اور گردش کائنات کے خالق کا لازمی ضابطہ ہے’’ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے‘‘(الرحمٰن29-)۔اسی گردش نے انسان کو ترقی کی نت نئی کامیابیوں اور منازل سے ہمکنار کیا ہے۔یہ اپنے اندر مثبت پہلو لئے ہو تو سراپا رحمت ہوتی ہے اور اگر اس کا انداز جدا ہوتو پھر نتائج بھی جدا ہی ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی یہ زیر بحث ہے، اس کی وجہ حالات سے اس کی راست وابستگی ہے۔حالات کی گردش ہی ہے جس سے تمام انسان خاص طور پرمسلمان اس وقت پوری دنیا میںسب سے زیادہ متاثر اور دوچار ہیں ۔ تمام درپیش مسائل و مشکلات خواہ ان کی شکل کچھ بھی ہو اور کہیں بھی پیش آئیں ان کے لئے حالات کو ہی ذمہ دار گر دانا جاتا ہے اور حالات سے ان کا بہت اہم اور گہرا تعلق بیان کیا جاتا ہے۔باہم ملاقات، گفتگوومذاکرات،غور وخوض، بحث ومباحثہ،سیمینار وسمپوزیم میںحالات پر خوب خوب بات ہوتی ہے۔ اسباب ومحرکات،پیش منظر اور پس منظر، پس پردہ عوامل کا بیان زبان زد خاص وعام رہتا ہے۔ ہر کس وناکس حالات اور اس کی ستم ظریفی کا شکوہ کرتا اور رونا روتا ہوا نظر آتا ہے ۔بات آگے بڑھتی ہے اور سازشوں پر سازشوںکی پرتیں ایک ایک کرکے کھولی جانے لگتی ہیں۔اس کی اپنی اہمیت ہے ، حالات کی جانچ پرکھ کی ضرورت اس لئے ہے کہ اسی کے ذریعہ اس کی منشاء معلوم ہوتی ہے۔
زمانہ کی گردش کے تجزیہ سے اس کا پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی اللہ کے کس قانون کے تحت ہورہی ہے ۔کیا یہ اس قانون کا حصہ ہے جو پوری کائنات میں ابتدا سے جاری وساری ہے اور اسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ’’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لئے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘(الرعد17-)۔ نہ جانے اللہ کی کتنی مخلوقات دنیامیں آئیں اور ضرورت باقی نہ رہنے یا تقاضوں کے بدل جانے پر دنیا سے فنا ہوگئیں۔ڈائناسور کی کہانیاں بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی کھوج اس تعلق سے سامنے آتی رہتی ہے۔کتنی ہی تحقیقات ہیںجو یہ بتاتی ہیں کہ چرند، پرند، حیوانات اور نباتات میں سے کتنی اقسام ہیں جو آہستہ آہستہ فنا ہوگئی ہیں اور کتنی ہیں جو اس وقت بھی فنا کے کگار پر ہیں۔ خلا میں بھی وجود وفنا کے تعلق سے ہونے والی تبدیلی کی باتیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان میں سے بیشتر اس دنیا کے لئے اپنی افادیت کھوچکی ہیں۔خود انسانی زندگی بھی اس کی واضح دلیل پیش کرتی ہے ۔انسان کا عمل بھی اس کا مظاہرہ کرتا ہے جہاں ہر بیکار گردانی جانے والی چیز حاشیہ پر لگا دی جاتی ہے اور پھر فنا کے حوالے کردی جاتی ہے۔
گردش کو اس پہلو سے بھی سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں یہ اس کا حصہ تو نہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ لے کہ کون حقیقتاً مومن ہیں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ تم میں سے ان لوگوںکو چھانٹ لے جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘(آل عمران140-)۔یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں حالات کی یہ تبدیلی اللہ کے قوموں کو بدلنے کے اس ضابطہ کے زیر اثر تو نہیں ہے کہ ’’اگر تم منہ موڑوگے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘(محمد38-)۔ اسی بات کو مزید سخت لہجہ میں ایک اور جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکوگے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘(التوبہ39-)۔ اس لئے اللہ کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر کوئی قوم بار بار موقع دئے جانے کے بعد بھی خود کو نہیں بدلتی تو خود اللہ نہ تو اس قوم کے اندر کوئی مثبت تبدیلی لاتا ہے اور نہ حالات اس کے موفق کرتا ہے۔ اللہ کا صاف اعلان ہے کہ ’’اللہ کسی قوم کے حالات نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘(الرعد11-)۔ایک دوسری جگہ اس بات کواس انداز میں بیان کیا گیاہے کہ ’’اللہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی‘‘(الانفال53-)۔مہلت پر مہلت دئے جانے کے بعد اگر کوئی قوم خود کو نہیں بدلتی ہے تو اللہ حالات کو سخت سے سخت تر کرکے اس قوم کوہی بدل دیتا ہے، اسے ہٹا کر اور فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی جگہ دوسری قوم کوکھڑا کردیتا ہے۔
زمانہ کی حرکت و گردش اور حالات کے الٹ پھیر کا مطالعہ اسباب ومحرکات کا پتہ لگانے کے علاوہ اس لئے بھی کیا جاتا ہے تاکہ اس سے دوچار افراد وقوم حالات کے بھنور سے نکلنے کی راہ تلاش کرپائیںاور اس رخ پر چل پڑیں جس میں ان کی کامیابی وسرخ روئی مضمر ہے ۔ اس پہلو سے مسائل ومشکلات اور حالات کا جائزہ لینے پر اللہ کی طرف سے یہ رہنمائی سامنے آتی ہے کہ اسباب ومحرکات خواہ کچھ بھی ہوںامت مسلمہ کو اس سے گھبرانے،اس کے سامنے سپر ڈالنے یا شکوہ شکایت پر اپنی توانائی صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا کہ’’ تم میں سے کوئی شخص زمانہ کو برا بھلا نہ کہے کیونکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی زمانہ کو الٹ پھیر کرنے والا ہے‘‘(مسلم)۔ اسی تعلق سے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ رسول ؐنے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانہ کو گالی دیتا ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہی ہوں میرے ہی قبضہ قدرت میں تمام امور ہیں، میں رات اور دن کو گردش دیتا ہوں‘‘(بخاری)۔
زمانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراللہ ہی زمانہ کو الٹ پھیر کرنے والا ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ جھاگ کے درجہ میں پہنچ چکی چیزوں کو فنا کردیتا ہے۔لوگوں کو حالات کا شکار اورآزمائش میں مبتلا کرکے کھرے کھوٹے کو الگ کرتا ہے۔لوگ اس مرحلہ کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی اصلاح کرلیں، کھرے لوگوں میں شامل ہو جائیں تو اللہ کی طرف سے ان کی کامیابی کی بشارت دی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر قوم کی تبدیلی کا قانون حرکت میں آتا ہے۔جب صورت حال یہ ہے تو پھر حالات کی سختی سے بچنے اور مسائل ومشکلات سے نجات کے لئے نظر بھی اللہ ہی کی طرف اٹھنی چاہئے۔ اللہ نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ ’’اورجو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا، اللہ اس کے لئے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا‘‘(الطلاق2-)۔ اللہ مشکلات سے نکلنے کی راہ اس کو سجھائے گا ’’جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا‘‘۔ اللہ کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لینے والے ہی اس راستہ کو پاسکتے ہیں جس سے وہ مشکلات سے نکل سکیں۔ اسلام کے آغاز سے موجودہ دور تک جولوگ اللہ کی مرضی کے سامنے جھک گئے اللہ نے ان کو راہ سجھا دی، اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ ان کے لئے اللہ نے اپنا یہ وعدہ بھی پورا کیا ہے کہ ’’اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ تویقیناً اپنا کام پورا کرکے ہی رہتا ہے‘‘(الطلاق3-)۔اس وقت موجودہ حالات سے نکلنے کی راہ ملت اسی صورت میں پاسکتی ہے جب خود کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھال لے۔ اس صورت میں وہ خود بھی اسلام کی خوبیوں سے بہرہ مند ہوگی اور دنیا بھی اس کی افادیت محسوس کرے گی۔پھر ملت کے اقبال اور سربلندی کے تعلق سے اللہ کا ہر وعدہ پورا ہوگا اور ہر کوئی اسے کھلی آنکھوں سے دیکھے گا۔
q qq