ہندوستان میں ہچکولے کھاتی جمہوریت

0

عبدالماجد نظامی

معروف سماجی کارکن ہرش مندر نے اس ہفتہ انگریزی روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں اپنا ایک وقیع مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے قارئین کی توجہ اس جانب مبذول کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان میں جمہوریت ڈگمگا رہی ہے اور ہچکولے کھا رہی ہے۔ وہ دراصل جمہوریت کے موضوع پر اس ورچوئل چوٹی کانفرنس کے حوالہ سے گفتگو کررہے تھے جس کا اہتمام امریکہ نے کیا تھا۔ انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کی اس کوشش کو سراہا کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوریت کمزور ہو رہی ہے، امریکی صدر کا یہ اقدام بالکل مناسب اور بروقت ہے۔ امریکی صدر نے استقبالیہ تقریر میں دنیا کی موجودہ حالت کو جمہوریت کی ’’کساد بازاری‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ جن جمہوری ملکوں کے لیڈران کو ورچوئل چوٹی کانفرنس میں جمہوریت کے مسئلہ پر سنجیدگی سے بات چیت کرنے اور جمہوری اصولوں کو مضبوط بنانے کی غرض سے دعوت دی گئی تھی خود ان میں سے کئی ممالک میں جمہوریت کی حالت کچھ بہتر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کی جمہوریت بھی چیلنجز سے نبردآزما ہے۔
جمہوریت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ بالغان کو رائے دہی کا حق حاصل ہوجائے، آزاد اور پرامن ماحول میں انتخابات کا عمل پایۂ تکمیل کو پہنچے اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے شکست کھانے والی سیاسی پارٹی حکومت کی باگ ڈور اس پارٹی کے حوالہ کر دے جس کو عوام کا اعتماد اور تائید حاصل ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کامیاب جمہوریت کے لیے یہ نہایت اہم عناصر ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم عنصر یہ ہے کہ جمہوریت کی ان ظاہری شکلوں کو ہی صرف کامیاب جمہوریت کے زمرہ میں رکھ کر مطمئن نہ ہوا جائے بلکہ صحیح معنی میں جمہوریت کو کامیاب تب مانا جائے گا جب عملی طور پر عوام کی زندگی پر اس کا مثبت اثر بھی مرتب ہونے لگے۔ ایسا تبھی ممکن ہو پائے گا جب ہم جمہوریت کو سخت معیاروں پر ناپنا شروع کریں گے۔ کسی بھی برسراقتدار سیاسی پارٹی کو جمہوری قدروں کے تئیں تبھی سنجیدہ مانا جائے گا جب سرکار ملک کی ہر اقلیت کے حقوق کو یکساں طور پر محفوظ رکھنے میں اپنی کوششیں ظاہر کرے۔عوام کو اپنی بات آزادی سے کہنے کی اجازت ملے، اسٹیٹ کے عوام مخالف فیصلوں کے خلاف پرامن احتجاج کا موقع شہریوں کو نصیب ہو اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوام سے صحیح معنی میں مشورہ طلب کیا جائے گا اور ان کی رائے کا احترام ہوگا اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل میں شفافیت کا خیال رکھا جائے گا۔ اگر کسی جمہوریت میں یہ تمام عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں تو اس کو ایک کامیاب جمہوریت کہلانے کا حق حاصل ہوگا۔
ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی جنہیں اس چوٹی کانفرنس میں دعوت دی گئی تھی انہوں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ ہر ہندوستانی میں جمہوریت کی روح پیوست ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی معاشرہ تکثیریت، سماجی ہم آہنگی اور قانون کی بالادستی جیسے امور سے عبارت ہے۔ لیکن کیا آج کے ہندوستان میں پورے اعتماد سے بے خوف ہوکر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام عناصر ہمارے معاشرہ میں موجود ہیں؟ ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے شاید اس سے بدتر دور کبھی نہیں آیا ہوگا، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی شب و روز جاری ہے اور اس پر کوئی روک تھام نہیں ہے۔ برسراقتدار پارٹی کے بعض لیڈران اور وزرا تک مسلم مخالف زہرافشانی میں ملوث ہیں۔ ان پر جملے کسے جاتے ہیں اور ان کی شبیہ مجروح کی جاتی ہے۔ ان کی جانیں اور ان کے اموال یہاں تک کہ اُن کی عزت و آبرو تک محفوظ نہیں ہیں۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں کبھی افریقی نژاد امریکیوں کی لنچنگ ہوا کرتی تھی لیکن ہندوستان میں وہی رویہ مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف اکیسویں صدی میں اپنایا گیا۔ مسلمانوں کی شادی بیاہ کے رشتے، کھانے پینے کے عادات و اطوار، عبادت و رسومات، ہندوستان میں ہندو-مسلم مشترک تہذیب و تاریخ کی علامتیں گویا کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جس کو نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ بیف کا بہانہ بناکر مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو کمزور کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ وہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ سبزی بیچنے والے مسلمان ٹھیلہ دار، ریستوراں کے مالکان یہاں تک کہ چوڑی اور کنگن فروخت کرنے والے بھی نشانہ بنائے گئے۔ سی اے اے کے ذریعہ انہیں شہری حقوق تک سے محروم کرنے کی راہ نکال لی گئی۔ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتیں مثلاً عیسائیوں کے عبادت خانوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کو بھی سخت حملوں کا شکار ہونا پڑا۔ عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف جو لوگ آواز بلند کرتے ہیں انہیں اربن نکسل، ماؤوادی، جہادی اور خالصتانی کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر سیڈیشن یعنی بغاوت جیسے سخت قوانین کے تحت جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ آج جو حالات ہیں وہ جمہوریت کی صحت کے لیے بالکل مفید نہیں ہیں۔ گاندھی جی کا خواب ان حالات کے برعکس تھا۔ ہرش مندر نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ شہادت سے کئی ہفتوں قبل گاندھی جی نے اپنے سپنوں کے جس ہندوستان کا تصور پیش کیا تھا، اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میرے خوابوں کا ہندوستان ایسا ہوگا جس میں ایک مسلمان بچہ بے خوف ہو کر چل سکے گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج مسلم اقلیت سب سے زیادہ خوف میں جی رہی ہے۔ اگر ہندوستان کو ایک کامیاب جمہوریت میں تبدیل کرنا ہے، جس میں کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں ہوگا اور نہ کسی کو اپنی شناخت چھپانے کی ضرورت ہوگی تو خوف کا ماحول ختم کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنی ہوگی۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے ڈپٹی گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS