نصرت شمسی
وجاہت حسین نے حویلی میں آج بغیر اجازت قدم رکھ دیا تھا۔ حویلی میں ہر طرف سناٹا تھا۔ آج صغیر چاچا بھی کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتا اپنی اماں کے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ حویلی میں ا س قدر سناٹا کیوں ہے؟ کہاں گئیں وہ رونقیں، وہ محفلیں، وہ مکین اور وہ ان کے یار احباب، دادا جان جن پر ہر وقت بیٹھک کے ساتھ ساتھ جیب کا منہ بھی کھلا رکھتے تھے۔ ہر وقت باورچی خانہ سے لذیذ کھانوں کی مہک اور دھواں باہر آتا تھا۔ برتنوں کی کھڑکھڑانے کی آوازیں اور بڑے ابا کا ڈنڈا اور کڑک دار آواز۔۔۔اور اس کی اماں۔۔۔
’خدا کرے وہ ٹھیک ہوں۔‘ اس کے دھڑکتے دل سے اماں کے کمرے کا دروازہ کھولا جو کھلتا ہی چلا گیا۔ صاف ستھرا کمرہ سامنے اماں کی سفید دوپٹہ اوڑھے بڑی سی تصویر اور بے شکن بستر۔ بس یہ نشانی تھی اماں کی اس کمرے میں،باقی کچھ نہیں، ’تو کیا اماں۔۔۔اماں۔۔۔اماں بھی گزر گئیں!۔۔۔‘
اس کی سوچ نے دہاڑ لگائی۔ ہاں! ایسا ہی ہوا ہوگا، ورنہ وہ یہاں ہوتیں۔ میری اماں۔۔۔اس کی آنکھیں لال لال آنسوؤں سے بھر گئیں۔ وہ ان کے بستر کے قریب گیا اور اسے چھو کر انہیںمحسوس کرنے لگا۔ چند بے آواز قطرے اس کے رخساروں پر لڑھک کر چادر میں جذب ہوگئے۔ اس نے ان کے فوٹو کر دیکھا، ایک پیار بھرا ہاتھ پھیرا اور باہر نکل آیا۔ اسے ڈر تھا، کہیں وہ پکڑا نہ جائے اور جانے والوں کے ساتھ رہ جانے والی تنہا روشن آرا کو نہ کھودے۔ باہر اب بھی سناٹا تھا۔وہ انہیں قدموں سے نیچے آگیا اور پھر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔اس کا دروازہ کھلا تھا۔
’شاید اندر کوئی ہے۔‘ وجاہت حسین نے ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا۔ روشن آرا اس کی بنائی تصویروں کو پھیلائے تخت پر سر رکھے بے خبر سو رہی تھی۔ اس وقت اس کے اور روشن آرا کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھے گیا۔ سفید کپڑے جیسا چہرہ، کالے گھنگھریالے بال مگر الجھے الجھے اور آنسوؤں کی لکیریں۔ اسے احساس ہوا کہ وہ روشن آرا کے لیے کتنا اہم ہے۔ وہ ابھی تک اس کے لوٹ آنے کی امید لیے جی رہی ہے اور نہ وہ صرف جیتی رہی ہے بلکہ اس کی تصویروں پر اپنا حال دل بھی لکھتی رہی ہے۔ اس نے خاموشی سے کئی تصویریں اٹھائیں اور انہیں بغور دیکھا، ’لوٹ آؤ وجاہت حسین! لوٹ آؤ!۔۔۔‘
وجاہت حسین نے کئی تصویروں کو اپنے بیگ میں رکھ لیا اور باہر نکل آیا۔ حویلی کے گیٹ کی طرف، لوٹ جانے کے لیے۔ باہر جاکر اس نے ڈور بیل بجائی اور منتظر انداز میں کھڑا ہو گیا۔ کئی بار گھنٹی بجانے کے بعد روشن آرا اپنی خمار آلود آنکھیں لیے وارد ہوئی اور اسے دیکھ کر حیران رہ گئی، ’جی آپ؟‘
’جی میں بہت دیر سے گھنٹی بجا رہا ہوں۔ شاید آج چاچا نہیں ہیں۔ کیا میں اندر۔۔۔‘
’جی آئیے۔‘روشن آرا نے آنکھوں کو مسلا۔
’آج میں ایک نہایت اہم کام سے آیا ہوں۔‘
’کہئے۔‘
’آپ اپنی لکھی تمام کہانیاں مجھے دے دیں۔ ہم اسے پبلش کرانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟‘
’میری کہانیاں ؟ کیا رکھا ہے ان میں جو آپ کو ان میں اس قدر دلچسپی پیدا ہو گئی، ناکام حسرتیں اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کے علاوہ ان میں اور کچھ نہیں۔‘
’مگر پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ انہیں مجموعہ کی شکل دی جائے۔ آپ کا قلم لوگوں کے دلوں کو چھوتا ہے اور یہی ان کہانیوں کی کامیابی ہے۔ پلیز انکار نہ کریں، مجھے وہ سب کہانیاں دے دیں۔‘
روشن آرا نے حسرت سے وجاہت حسین کے چہرے کو تکا اور اپنے ناخونوں کو کریدنے لگی۔ جیسے اشارہ کر رہی ہو کہ وہ اس بات کے لیے تیار نہیں۔
’پلیز روشن!۔۔۔انکار نہ کرو۔‘ وہ لہجہ پل کے پل میںکس کی یاد دلا گیا کہ روشن آرا ایک دم کھڑی ہو گئی۔
’میرا پورا نام روشن آرا ہے۔۔۔۔ آپ مجھے یہی کہئے۔‘
وجاہت حسین کے لہجہ میں انجانے میں ہی سہی وہی پرانہ لہجہ در آیا تھا، صرف وہ ہی اس کور وشن کہا کرتا ترتھا، ورنہ حویلی کا ایک قاعدہ یہ بھی تھا کہ سب کو پورے پورے ناموں سے ہی پکارا جائے۔ بقول اس کے دادا ابا کے کہ یہ چودھریوں کی شا ن کے خلاف تھا۔
’سوری میں روشن آرا ہی کہنا چاہتا تھا مگر۔۔۔‘ وہ اپنی بات پوری کرنا چاہتا تھا کہ روشن آرا پھر اسی کمرے کی طرف بڑھ گئی اور وہ وہیں بیٹھ گیا۔ اسی لمحے صغیر چاچا بھی آگئے۔ اسے بیٹھا دیکھ کر وہ بھی اسی کے پاس چلے آئے اور باتیں کرنے لگے۔
ایک گھنٹہ بعد روشن آرا ایک بیگ لے کر آئی اور وجاہت حسین کے سامنے رکھ دیا، ’یہ میری کل کہانیاں ہیں۔ آپ ان کے ساتھ جو چاہیں کریں مگر۔۔۔‘
وہ چاہتے ہوئے بھی یہ نہ کہہ پائی کہ آئندہ یہاں نہ آئیے گا۔
’جی شکریہ۔میں پھر حاضر ہو جاؤں گا۔‘ وجاہت حسین نے بیگ اٹھایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔
n
وجاہت حسین کو اس کی کہانیاں لے کر گئے چھ ماہ گزرچکے تھے۔ روشن آراکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یوں اچانک اس کی زندگی میں کیوں آیا اور کیوں اس کا سرمایا لے کر غائب ہو گیا، خاموش سمندر میں پتھر پھینکنے والا شخص کہاں چلا گیا۔ وہ امید کو بجھے چراغوں کو پھر سے روشن کرنے کا اشارہ کیوں دے گیا تھا۔
’روشن آرا تیری زندگی صرف اندھیرا ہے اور اندھیرا ہی رہے گی۔ یہاں کسی قسم کی روشنی کی امید مت رکھ۔ تو ہے توروشن مگر کاتب تقدیر نے تیرے ماتھے پر تاریکیاں ہی رقم کی ہیں۔ صرف تاریکیاں!۔۔۔تو یوں ہی اس حویلی میں مر کھپ جائے گی اپنے پرکھوں کی طرح،اپنی اماں اور اپنی چھوٹی اماں کی طرح اور تجھے تو کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔ ان سب کے لیے تو مولا نے تجھے زندہ رکھا تھا کہ تو ان سب پر آنسو بہا بہا کر جئے جا مگر تیری موت پر کچھ نہیں بدل سکتا روشن آرا۔ تو نہ تیرامقدراور نہ تجھے اس حویلی کے زنداں سے رہائی نصیب ہوگی۔ ‘
آج اسے وجاہت حسین کی تصویروںسے بھی بیزاری محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے تمام تصویریں سمیٹ کر الماری میں رکھ دیں اور اپنے تمام کاغذ اٹھا کر پھینک دیے کہ اب وہ کبھی بھی کچھ نہیں لکھے گی۔
n
وجاہت حسین کو پل پل اس لمحے کا انتظار تھا جب وہ اس کا مجموعہ لے کر اس کے پاس جائے اور لیکن وہ جتنی جلدی کر رہا تھا، کام اتنا ہی پھیلتا جا رہا تھا۔ وہ ایک ایسا مجموعہ منظر عام پر لانا چاہتا تھا جسے دیکھ کر لوگ کہیں، واہ!۔۔۔ یہ واقعی ایک منفرد انداز ہے۔ وہ اس مجموعے کے ذریعہ اپنی روشن کو پانا چاہتا تھا اور بس اسے جس لمحے کا انتظار تھا جو شاید کل آنے والا تھا۔
اسے آٹھ ماہ ہو گئے تھے روشن کی کہانیوں پر کام کرتے اور انہیں تیار کراتے۔ اس نے وہ تمام افسانے پڑھ ڈالے تھے جن میں کسی نہ کسی طرح حویلی کی تاریخ رقم تھی۔ ان افسانوں سے ہی اسے وہ تمام باتیں معلوم ہوئی تھیں جن کے جواب وہ چاہتا تھا۔ کوئی اور سمجھتا یا نہ سمجھتا مگر وہ روشن آرا کے اس درد اور اس کہانی کو جان چکا تھا۔ آج شام تک وہ قیمتی تحفہ اس کے پاس آنے والا تھا جس کا اسے شدت سے انتظار تھا۔ اس کی بے چینی اب حد سے سوا تھی۔ وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا کہ کب چار بجیں گے اور ڈور بیل بجے گی۔
ٹھیک چار بجے پورا گھر ڈور بیل کی آواز سے گونج اٹھا۔ وجاہت حسین ننگے پاؤںگیٹ کی طرف بھاگا اور ا س نے بے تابی سے گیٹ کھولا۔ سامنے بڑے بڑے کئی بنڈل پڑے تھے۔ اس نے تمام بنڈل نوکر کی مدد سے اندر رکھوائے اور ایک بنڈل کھولنے لگا۔وجاہت حسین نے بڑے ارمان سے کتاب پر ہاتھ پھیرا اور اپنے سینے سے لگا لیا جیسے اسے بھی آج ہی سکون ملا ہو۔
n
ابھی اس نے اپنے بکھرے وجود کو سمیٹا ہی تھا کہ صغیر چاچا نے بتایا کہ وہ اخبار والے صاحب آئے ہیں۔
’اخبار والے صاحب۔۔۔!‘روشن آرا نے حیرانی سے صغیر چاچا کو دیکھا۔
’جی بٹیا اور آج وہ بہت خوش بھی ہیں۔۔۔۔تمہیں فوراً بلایا ہے۔‘
وجاہت حسین نے حسرت سے اپنے کمرے کو دیکھا۔ آج اس کا دل بے تاب تھا خود کو روشن آرا سے ملانے کے لیے، اپنی حقیقت بتانے اور اس کے سارے دکھ ہر لینے کے لیے۔ وہ چاہتا تھا، وہ اس کے منہ سے گزرا ہوا ایک ایک لمحہ سنے اور اسے بتائے کہ وہ اس کاوجاہت حسین ہے جس کو انجانے میں ہی اپنی زندگی بنا بیٹھی ہے اور جس کے سبب وہ اتنا دکھ اٹھا رہی ہے۔یہ بے چینی اسے صوفے پر بیٹھنے نہیں دے رہی تھی اور زبان بھی لگاتار اس کا ساتھ دینے سے انکار کر رہی تھی۔ خوشی اس قدر اس کے اعصاب پر سوار تھی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ روشن آرا سے کس طرح بات شروع کرے گا۔
روشن آرا اپنی انہیں بے نور سی آنکھوں کو لیے اس کی طرف بڑھی چلی آ رہی تھی۔ آج وہ اس کی اماںکے کمرے سے آرہی تھی۔ سیڑھیاں اترتی وہ اسے بہت لاچار سی لڑکی لگی جس کی آنکھوں کے سارے چراغ گل ہو چکے ہوں۔ ان میں اب جینے کی تمنا تک نہ رہی ہو۔
’السلام علیکم۔‘ وجاہت حسین نے پر تپاک لہجے میں سلام کیا۔
’وعلیکم۔۔۔جی فرمایئے، کیسے آنا ہوا؟‘ روشن آرا کا کھردرا لہجہ اسے بتا گیا کہ وہ کہیں نہ کہیں اس سے اتنی لمبی غیر حاضری کے سبب شاکی ہے۔
’جی۔۔۔وہ۔۔۔میں آج کافی عرصے بعد آیا ہوں۔‘
’جی پورے آٹھ ماہ بعد۔‘
’آپ کو یاد رہا؟۔۔۔‘ وجاہت حسین نے سیدھا اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
’جی ہاں !۔۔۔کیونکہ آپ میری کل کائنات اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ‘
’جی۔۔۔؟ ‘وجاہت حسین نے نہ سمجھتے ہوئے پھر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
’میرا مطلب ہے، میری کہانیاں۔‘
’او ہاں، اچھا اچھا۔ مجھے آپ سے بہت سی ضروری باتیں کرنا ہیں۔ کیا ہم کسی اور جگہ بیٹھ سکتے ہیں؟ میرا مطلب ہے کسی اور کمرے میں؟‘ (جاری)
’صغیر چاچا، بیٹھک کھلوا دیں۔‘
’نہیں، رہنے دیں۔ کیا ہم اس کمرے میں بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے؟‘ وجاہت حسین نے اپنے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’چلئے۔‘روشن آرا نے آگے بڑھ کر رہنمائی کی۔
کمرہ آج پہلے کی طرح پھیلا ہوا نہیں تھا۔ سب کچھ سمٹا ہوا اور بالکل صاف ستھرا تھا۔ بستر پر نئی چادر اور صاف تکیہ لگا ہوا تھا۔ ایک بھی کاغذ یا تصویر اسے کہیں بھی نظر نہ آئی سوائے دیوار پر بنی تصویر کے۔
’بیٹھیے۔‘ روشن آرا نے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’آج میں آپ کو ایک انمول تحفہ دینے آیا ہوں جس کے بارے میں اس حویلی میں رہ کر شاید آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔‘ وجاہت حسین نے بیگ کی چین کھولتے ہوئے کہا اور ایک پیکٹ نکال کر روشن آرا کی طرف بڑھا دیا، ’کھول کر دیکھئے۔‘
روشن آرا نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس خوبصورت سی پیکنگ والی شے کو دیکھااور لرزتے ہاتھوں سے اسے پکڑ لیا۔ یکایک ہی اس کی دھڑکن بے ترتیب سی ہونے لگی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے لپٹی ہوئی اس چیز کو کھولنا شروع کیا اور چند لمحوں بعد اس کے ہاتھوں میں اس کی اپنی کہانیوں کا مجموعہ تھا، ’کہ سکون قلب کی چاہ میں، مصنفہ روشن آرا، منال پور‘۔ اس نے فرط جذبات سے وجاہت حسین کو دیکھا، ’میری کتاب؟‘
’یہ آپ کی ہی کتاب ہے۔۔۔۔کھول کر دیکھئے۔‘وجاہت حسین نے اسے حوصلہ دلایا۔
روشن آرا نے بے ترتیب دھڑکنوں اور لرزتے ہوئے ہوئے وجود کے ساتھ کتاب کھول کر دیکھی اور اچانک ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی، ’یہ۔۔۔یہ کیا ہے؟ یہ تصویریں؟ یہ۔۔۔سب، یہ آپ کو کہاں سے ملیں اور کون ہیں آپ؟۔۔۔‘
وہ زور زور سے بولنے لگی۔ اس کی سانس بے ترتیب اور آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ کتاب میں ہر کہانی سے پہلے وجاہت حسین کی بنائی ایک تصویر تھی جو کہانی کے پلاٹ کی عکاسی کر رہی تھی اور کچھ وہ تصویریں تھیں جن پر کسی کا انتظار ثبت تھا۔
’کون ہیں آپ ؟ اور یہ تصویریں؟‘ روشن نے اپنے قدموں کو پیچھے کی طرف دھکیلا اور دیوار سے جا لگی۔ وہ پوری طرح کانپ رہی تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ وجاہت حسین نے اپنے تھرتھراتے قدموں کو اٹھایا اور روشن آرا کی طرف بڑھ گیا۔
’روشن، یہ تصاویر کس کی ہیں؟ اس کی جس کا تمہیں آج بھی انتظار ہے؟ اور یہ۔۔۔ جو۔۔۔جو ہر تصویر پر کسی گمنام شخص کے لوٹ آنے کا پیغام لکھتی رہتی ہو، تو روشن آرا پہنچ گیا تمہارا یہ پیغام مجھ تک اور میں لوٹ آیا۔‘ اس مضبوط شخص کی زبان لڑ کھڑا رہی تھی اور بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا، ’میں ہی ہوں ۔۔۔ وجاہت حسین۔ پہچانو مجھے! یہ تصویریں ہی میری پہچان ہیں اور کچھ نہیں ہے میرے پاس!۔۔۔آنکھیں کھولو روشن! مجھے پہچانو! آنکھیں کھولو!‘
روشن کو اپنی سماعت پر گمان سا ہونے لگا اور وہ تھر تھراتا وجود لیے بیٹھتی چلی گئی اور پھر زار و قطار رونے لگی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپایا ہوا تھا اور روئے جا رہی تھی اور وجاہت حسین بولے جا رہا تھا، ’روشن پچیس سال ہو گئے مجھے اس خوفناک حویلی سے گئے ہوئے۔ مجھے پتہ نہیں، میرے جانے کے بعد کیا ہوا؟ مجھے تو تمہارے زندہ ہونے کی امید بھی نہیں تھی۔ میرا یقین تھا کہ اس دن بڑے ابا نے تمہیں زندہ نہیں چھوڑا ہوگا۔ میں تو تمہیں حویلی سے باہر لے جانا چاہتا تھا مگر تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور پھر۔۔۔روشن! میں پچیس سالوں سے جاگ رہا ہوں۔ بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ میرے جانے کے بعد تمہارا کیا ہوا ہوگا؟ اور میری چھوٹی اماں!۔۔۔مجھے جب جب ان کا خیال آتا تو میں صحراؤں میں نکل پڑتا، مجھے لگتا جیسے وہ مجھے آوازیں دے رہی ہوں اور جب تمہارے بارے میں سوچتا تو لگتا، تمہارا خون میرے قدموں میں پڑا ہو اور مجھے نفرت ہوتی چلی جاتی منال پور سے، بڑے ابا سے، تمام رشتوں سے، اس حویلی سے اور خود سے کہ میں اس حویلی کا وارث ہوں۔ قدرت نے میرا ساتھ یوں دیا کہ مجھے ایک مہربان شخص سے ملوا دیا جس کے پاس سب کچھ تھا مگر رشتہ نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے اپنا بیٹا بنا کر پالا اور ایک کامیاب انسان بنا کر اپنا سب کچھ مجھے سونپ کر وہ بھی چلے گئے۔ آج میرے پاس دولت کا انبار ہے مگر پھر بھی مجھے سکون میسر نہیں تھا کہ ایک دن اچانک اخبار میں ایک کہانی پڑھی اور ساتھ میں تمہارا نام۔۔۔۔ حیرانی ہوئی مگر اس کے بعد شک ہونے لگا کہ یہ کوئی اور نہیں تم ہو۔ ایک انجانی خوشی نے مجھے گھیر لیا کہ تم زندہ ہو مگر کیسے؟ جس دن تمہارا نام پڑھا، اس دن اماں بھی بہت یاد آئیں۔۔۔۔کیا ہوا تھا انہیں؟‘
’وہ۔۔۔وہ مر گئیں۔ وجاہت حسین! تمہیں سوچتے سوچتے، تمہیں یاد کرتے کرتے۔۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد وہ زندہ لاش بن کر اس حویلی میں بھٹکا کرتی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں ہر دم تم تھے وجاہت حسین تم، تم نے مار ڈالا میری چھوٹی اماں کو اور بے آسرا کر دیا مجھے۔ وہی میرے لیے ایک سایہ دار درخت تھیں اس تپتے ریگستان میں۔ تم نے وہ بھی چھین لیا اور خود بھی چلے گئے۔ سب مر گئے۔ بڑے ابا، دادا، چھوٹی اماں اور۔۔۔تم، میں زندہ رہ گئی اس حویلی کی خوفناک دیواروں اور سایوں سے لپٹنے کے لیے۔ اس تاریک حویلی کی تاریکی نے پچیس سال مجھے ڈسا ہے۔ سنناٹے ا تر آئے ہیں میری روح میں، میں بھی مر گئی مگر تم نہ آئے۔ یہ حویلی، حویلی نہیں، زنداں ہے میرے لیے اور ایک دن میں بھی مر جاؤں گی اس کی مضبوط اونچی دیواروں سے سر پٹک کر۔ ‘
’نہیں، اب میں آگیا ہوں۔ دیکھو، مجھے پہچانو!‘ وجاہت حسین اس کے ہاتھ ہٹانا چاہے مگر برسوں کا فاصلہ درمیان میں تھا۔
’میں تمہیں یہاں سے لے جانا چاہتا ہوں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس اور اگر نہ بھی ہوتا تو بھی۔۔۔اب تم یہاں نہیں رہوگی۔ چلو، میرے ساتھ اپنے گھر جہاں کی ہر دیوار پچھلے پچیس سالوں سے تمہیں محسوس کر رہی ہے، وہاں کی ہر دیوار پر تمہاری پچیس سال پرانی تصویر لگی ہے۔ دیکھو، میں نے خود کو کیسے ان رنگوں کے ساتھ زندہ رکھا اور تم نے جینا سیکھ لیا اس قلم کے ساتھ۔۔۔۔روشن آرا اس حویلی کے پرکھوں کو فخر ہوگا تم پر کہ اس نے ایک لڑکی زندہ رکھی اور اسی نے اس حویلی کے چراغ کو باقی رکھا۔ اگر اس حویلی کی تمام بیٹیاں زندہ ہوتیں تو سب کی سب تمہاری طرح روشن ستارہ ہوتیں۔۔۔۔چلو، روشن! چھوڑ دو یہ سناٹے بھری بے رنگ زندگی، یہ خوفناک دیواروں کے سائے اور یہ ویران آنکھیں۔ چلو، میرے ساتھ جہاں تمہارے لیے ایک دنیا منتظر ہے جہاں میں تمہارا منتظر ہوں۔ چلو، اٹھو! آؤ میرے ساتھ۔‘
اس نے بڑی ہمت کرکے اس کے تھر تھراتے کانپتے جسم کو سہارا دیا اور ایک دم اٹھا لیا۔ صغیر چاچا باہر چوکھٹ پر کھڑے قدرت کے اس انصاف پر اس کا شکر ادا کر رہے تھے کہ جہاں بندہ جینے کی آس چھوڑ کر مرنا چاہتا ہے تو اللہ اسے ایک تنکے کا سہارا دے کر پھر کھڑا کر دیتا ہے۔ واہ مولیٰ واہ۔
’جا بیٹی، جا۔۔۔۔ آج تیری آزمائش پوری ہوئی۔ اس خونیں حویلی کو خدا حافظ کہہ اور اپنی دنیا بسا۔ یہاں تو ہمیشہ معصوموں کے خون کی چھینٹیں اور آہیں ہی سنائی دیں گی۔‘
روشن آرا نے وجاہت حسین کا پچیس سال پہلے چھوٹا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور ننگے پاؤں ہی حویلی کے صدر دروازے کی طرف بڑھتی چلی گئی۔
نسوؤں کے ساتھ۔n