ایس۔پی۔وید
کشمیر میں گزشتہ دنوں اقلیتی طبقہ کے لوگوں کا قتل کیا گیا۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور اس کی فوج کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی ہے۔ وادی میں جو بھی دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے ایک مکمل منصوبہ ہے، پاکستانی ملٹری اور وہاں کی خفیہ ایجنسی کا نیٹ ورک ہے۔ جب بھی اس نیٹ ورک کے سامنے نئی رکاوٹیں آتی ہیں یا وہ خود کوئی نئی خرافات کرنا چاہتا ہے، اس کی حکمت عملی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کی پروردہ دہشت گردی کا نیچر تبدیل ہوجاتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں لوگوں کو ان کی پہچان کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آئی ایس آئی اپنے دہشت گردوں کا حوصلہ کمزور ہوتا دیکھ رہی ہے۔ گزشتہ کچھ وقت سے ہندوستان میں سیکورٹی اور خفیہ ایجنسیوں نے جو مہم چلائی، اس کے سبب کئی دہشت گرد تنظیموں کے نچلے درجہ کے دہشت گرد سمیت ان کے سرغنہ بھی ماردیے گئے۔ پہلے پتھربازی ہوتی تھی یا حریت کے لوگ چالبازی کرتے تھے یا تمام طرح کے خطرناک کاموں کے لیے حوالہ کا پیسہ آتا تھا۔ ان سبھی کا زور وقت کے ساتھ ختم ہوگیا۔ فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کا دباؤ بھی ہے۔ پاکستان اس کی نگرانی میں ہے۔ جہاں تک دہشت گرد گروہوں کی بات ہے تو ان کو جو ہتھیار اور گولہ بارود ملا تھا، وہ ختم ہوگیا۔ سیکورٹی فورسز کی چوکسی بڑھنے کے سبب سرحد پار سے نئی سپلائی ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں پرانی حکمت عملی میں تبدیلی ضروری تھی۔
آسان شکار کرنا دہشت گرد گروہوں کا حوصلہ بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ کم انویسٹمنٹ کے ذریعہ زیادہ ریٹرن والی اسٹرٹیجی ہے۔ دو ممبران والے دہشت گرد گروہ بناؤ اور ایسے پانچ-چھ گروہ کھڑے کردو۔ یہ ہی کئی معصوم کی جان لے سکتے ہیں۔ ان کو کچھ خاص چاہیے بھی نہیں۔ کچھ گرینیڈ اور پستولوں سے ان کا کام چل جاتا ہے۔
اقلیتوں کو نشانہ بنانا ایک شاطر چال بھی ہے۔ اس کے ذریعہ ان بہادر اقلیتوں کو وادی سے ہٹانے کی کوشش ہورہی ہے، جنہوں نے دہائیوں سے چلے آرہی دہشت گردی کے باوجود وادی نہیں چھوڑی۔ اس چال میں دہشت گردوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کی جان لینے سے ہی خوف کا ماحول بن سکتا ہے۔ کشمیری پنڈتوں کا حوصلہ پست ہوجائے یا ہندوستان میں کسی دوسری جگہ سے وادی میں آنے کے بارے میں لوگ نہ سوچیں، یہ آئی ایس آئی کے لیے فائدے کی بات ہوگی۔ پاکستان کی کوشش ایسا ماحول بنانے کی ہے، جس سے وہ کہہ سکے کہ وادی میں باقی ہندوستان کی طرح کئی تہذیبوں اور کئی مذاہب کے لوگ نہیں رہ سکتے۔
یہ جو حال میں شناخت کی بنیاد پر قتل کیے گئے، وہ وادی سے باہر کے ہندوستانیوں کے لیے پیغام ہے کہ یہاں مت آؤ، آؤگے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ جو لوگ مارے گئے، ان میں سے کچھ لوگوں کی کشمیری مسلمانوں میں بڑی عزت تھی۔ اس طرح دیکھیں تو وادی میں اقلیتوں کا قتل وہاں دو مذاہب کے لوگوں کے رشتوں پر بھی حملہ ہے۔
پاکستانی آئی ایس آئی اور اس کی فوج کے نیٹ ورک نے جو حکمت عملی تبدیل کی ہے، اس کی ایک اور وجہ ہے۔ دراصل جموں و کشمیر میں معاشی محاذ پر جو کچھ ہورہا ہے، یہ اس پر بھی حملہ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کے لیے جس انڈسٹریل پالیسی کا اعلان کیا گیا، وہ کسی بھی ریاست کو مرکز کی جانب سے دیا گیا بیسٹ پیکیج ہے۔ اس سے جموں و کشمیر کے بارے میں سرمایہ کاروں میں بھی کافی دلچسپی پیدا ہوئی۔ لیکن سرمایہ کار خواہ جہاں کے ہوں، وہ چاہتے ہیں کہ حالات معمولات پر آئیں،امن و سکون ہو، سیکورٹی ہو۔ دہشت گردوں نے انڈسٹریل یونٹ لگانے یا میڈیکل اور دوسرے تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کھولنے کی کوششوں کو ضرب پہنچانے کے ارادے سے بھی حال میں قتل کیے ہیں۔ پاکستان کو قطعی برداشت نہیں ہوگا کہ جموں و کشمیر میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔ معاشی ہلچل میں اضافہ ہوگا تو اس کی یہ دلیل کمزور پڑجائے گی کہ حکومت ہند کشمیریوں کا خیال نہیں رکھتی۔
ہندوستانی سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کو افغانستان سے کشمیر میں ہتھیار آسکنے کے بارے میں الرٹ رہنا چاہیے۔ امریکی فوج افغانستان میں ڈھیروں ہتھیار چھوڑ کر نکل گئی۔ اس کا کافی حصہ کشمیر میں استعمال کے لیے دہشت گرد گروہوں کو دیا جاسکتا ہے۔
اسے سمجھنے کے لیے ماضی پر ایک نظر ڈال لینا ٹھیک ہوگا۔ 1996سے 2001کے درمیان وادی میں تشدد عروج پر تھا۔ یہ وہی دور تھا، جب افغانستان میں طالبان کا راج چل رہا تھا۔ اسی دوران ہندوستانی پارلیمنٹ اور جموں و کشمیر اسمبلی پر حملے ہوئے۔ وہی دور تھا، جب خودکش حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ اب افغانستان میں ایک مرتبہ پھر طالبان کی حکومت ہے۔ اس مرتبہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو لگ رہا ہے کہ ایک بڑی فتح ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔
آج کا ہندوستان 1990کی دہائی کا ہندوستان نہیں ہے۔ انٹرنیشنل بارڈر اور لائن آف کنٹرول پر باڑ لگائی جاچکی ہیں۔ سیکورٹی گرڈ میں بہت بہتری ہوچکی ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک نے کشمیر میں جہاد کی اپیل کی ہے۔ یہ ہندوستان کے لیے کہیں بڑا چیلنج ہے۔
لہٰذا ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ مبینہ سیزفائر پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ سیزفائر تو ایک چال ہے۔ پاکستان دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش میں ہے کہ وہ بدل گیا ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ تمام سیکٹروں میں دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے ایکوسسٹم کو ٹارگیٹ کرنا ہوگا۔ متحد ہوکر ہم نے پنجاب میں دہشت گردی کو ہرایا۔ کشمیر میں سبھی سیاسی پارٹیوں اور سماجی-مذہبی لیڈروں کو ہندوستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ آنا چاہیے۔ یہی پاکستان کو سب سے اچھا جواب ہوگا۔
(مضمون نگار جموں و کشمیر کے سابق ڈی جی پی ہیں)
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)