ہر وہ عمل قابل مذمت ہے جس سے بے قصور انسانوں کو نقصان پہنچے لیکن دہشت گردی کا خاتمہ صرف مذمت سے ہی نہیں ہوگا۔ اسے جڑ سے ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی ہی سمجھا جائے، مختلف خانوں میں بانٹ کرنہ دیکھا جائے، کیونکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کب کون سا ملک اس کی زد میں آ جائے۔ وسطی کابل کے شہر نو کے ہوٹل میں ہونے والے حملے نے پھراس ضرورت کا احساس دلایا ہے کہ دہشت گردی سے مل کر نمٹنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ کابل کے اس ہوٹل میں زیادہ تر چینی کاروباری ٹھہرا کرتے تھے۔ کیا چین اس حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف سخت ہوگا یا وہ دہشت گردی سے اسی طرح لڑتا رہے گا جیسے اب تک لڑتا رہا ہے، کیونکہ چین نے ایک طرف سنکیانگ کے ان اویغور مسلمانوں کو ہی دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں وہ کبھی علیحدگی پسند کہتا تھا اور دوسری طرف پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کو بچانے میں معاون بنتا رہا ہے لیکن دہشت گردی کے سلسلے میں حکومت ہند کا موقف واضح ہے۔ اسی موقف کا اظہار ایک دن پہلے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’پڑوسی ملک پاکستان پہلے دہشت گردی کا خاتمہ کرے تب ہی دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ سیریز ہوسکتی ہے۔‘ جے شنکر کے مطابق، ’ہمیں کبھی یہ نہیں ماننا چاہیے کہ دہشت گردی پر کسی ملک کا حق ہے۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اسے ختم نہیں کریں گے۔ یہ تب ہی ختم ہو گی جب دہشت گردی کا سامنا کرنے والے ممالک آواز اٹھائیں گے، کیونکہ جو خون بہہ رہا ہے وہ ہمارا خون ہے۔‘ دراصل 2023 میں ہونے والے ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کو کرنی ہے۔ ہندوستان کی طرف سے یہ واضح کرنے پر کہ اگر ایشیا کپ پاکستان میں ہوا تو ٹیم انڈیا دورے پر نہیں جائے گی، پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر رمیز راجہ ان سے ناراض ہو گئے اور ہندوستان میں ہونے والے 50 اوور کے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی مگر دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی پالیسی ایسی نہیں کہ کسی دھمکی کے زیر اثر آجائے، دہشت گردی کے خلاف اس کی پالیسی زیروٹالرنس کی ہے۔
ہندوستان کو یہ پسند نہیں کہ دہشت گردی کو کسی خانے میں بانٹ کر دیکھا جائے۔ یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکا ہے اور پھر اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ بات دہرائی ہے کہ ’ سیاسی سہولت ‘کی بنیاد پر دہشت گردوں کی ’برے ‘یا ’اچھے‘ کی درجہ بندی کرنے کا دور فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ ہندوستان کا یہ موقف بھی ناقابل فہم نہیں ہے کہ ’دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذہبی یا نظریاتی طور پر درجہ بندی کرنے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مشترکہ عالمی عزم کو نقصان پہنچے گا۔‘ہندوستان نے یہ بات واضح الفاظ میں کہی ہے کہ ’دہشت گردی کا مسئلہ کسی بھی مذہب، قومیت، تہذیب یا نسلی گروہ سے جوڑا نہیں جاسکتا اور دہشت گردی کی تمام کارروائیاں مجرمانہ ہیں۔۔۔۔ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی جانی چاہیے۔ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کی کوئی رعایت یا جواز نہیں ہو سکتا۔‘ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل کامیابی اس لیے بھی نہیں مل سکی، کیونکہ اسے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ کہیں چھوٹے سے واقعے کودہشت گردانہ واقعہ کہہ دیا جاتا ہے اور کہیں بڑا واقعہ دہشت گردانہ واقعہ نہیں بن پاتا۔ اس سلسلے میں 15 مارچ، 2019 کو نیوزی لینڈ کی مسجدوں میں ہوئے حملے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس میں 51 نمازی شہید اور 40 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کئی عالمی لیڈروںنے ’جنگجو یا گن مین کا حملہ‘ اور دہشت گردکو ’حملہ آور‘ یا ’گن مین‘ قرار دیا تھا۔ ایسی صورت میں ان سوالوں کا پیدا ہونا فطری تھا کہ دہشت گردی پھر صحیح معنوں میں ہے کیا؟ کسے دہشت گرد کہنا چاہیے یا کسے نہیں کہنا چاہیے؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کے لیے افغانستان کے خلاف جنگ تو چھیڑ دی اور برسوں جنگ بھی کرتا رہا مگر آج تک دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں پیش کی جا سکی جو دنیا کے سبھی ملکوں کے لیے قابل قبول ہو۔ طاقتوراوربااثرممالک اگر چاہیں تو انسانیت کی حفاظت کے سلسلے میں قرآن کریم کی تعلیم عام کرسکتے ہیں، کیونکہ اللہ پاک قرآن کریم میں کہتا ہے کہ ایک بے قصور انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک بے قصور انسان کی حفاظت پوری انسانیت کی حفاظت ہے۔
[email protected]
دہشت گردی: انسانیت کیلئے مہلک!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS