عبیداللّٰہ ناصر: اس الیکشن نے بی جے پی کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا

0

عبیداللّٰہ ناصر

ویسے تو یہ دو ریاستی اسمبلیوں اور کچھ ریاستوں میں ضمنی الیکشن تھا لیکن چونکہ اب عام انتخابات میں بمشکل ڈیڑھ سال کا وقفہ رہ گیا ہے، اس لیے ہر الیکشن کا بھلے ہی وہ بلدیاتی ہی کیوں نہ ہو، عام انتخابات کی تیاری اور بانگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج پر اگر ایماندارانہ نظر ڈالی جائے تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ کسی پارٹی کے لیے کچھ بھی ہولیکن نا قابل تسخیر سمجھی جانے والی بی جے پی اور نام نہاد مودی میجک کے لیے کوئی خوش نما نہیں کہی جاسکتی۔ بیشک گجرات میں مودی جی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنے ہی تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔بی جے پی کو اس الیکشن میں جتنی سیٹیں ملی ہیں، وہ اس ریکارڈ سے شاید کچھ ہی کم ہیں جو کبھی مادھو سنگھ سولنکی کی قیادت میں کانگریس نے بنایا تھا۔کمال یہ ہے کہ27سال تک حکمرانی کرنے اور کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہ کرنے کے باوجود گجرات کے عوام پر مودی کا جادو برقرار ہے، بھلے ہی اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہو۔ مثال کے طور پر2017کے الیکشن میں بی جے پی ہارتے ہارتے بچی تھی۔لیکن بی جے پی کی اس بات کے لیے تعریف ہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ دیگر پارٹیوں کو اس کی تقلیدکرنی چاہیے کہ وہ ہارے یا جیتے، اس کے الیکشن لڑنے کے جوش اور جذبہ میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی، گرام سبھا سے لے کر لوک سبھا تک کا چناؤ وہ ہمیشہ قاتلانہ جبلت سے لڑتی ہے۔ گجرات میں اس کا یہی جذبہ، جوش اور جنوں دکھائی دیا جبکہ گجرات اس کا محفوظ قلعہ سمجھا جاتا ہے لیکن مودی، امت شاہ سے لے کر پارٹی کے عام کارکن نے بھی پوری طاقت جھونک دی تھی اور یہ سرگرمی صرف الیکشن کے دور میں ہی نہیں دکھائی دیتی، ایک الیکشن کے ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ دوسرے الیکشن کی تیاری شروع کر دیتی ہے جو الیکٹورل لسٹ میں نام بڑھوانے کٹوانے سے لے کر ووٹوں کی گنتی کے دن تک ویسی ہی برقرار رہتی ہے۔گجرات کے سابقہ الیکشن کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے بی جے پی نے زمینی تیاری پہلے دن سے ہی شروع کر دی تھی۔ مثال کے طور پر گجرات کے قبائلی علاقوں میں کانگریس کو پچھلی بار سب سے زیادہ کامیابی ملی تھی، اس بار بی جے پی نے اس علاقہ میں بہت پہلے سے ہی کام شروع کر دیا تھا اور ان گاؤوں میں قبائلی مجاہد آزادی برسا منڈا کی مورتیاں ٹھیک اسی طرح لگوا دیں جیسے دلت بستیوں میں ڈاکٹر امبیڈکر کی لگائی گئی تھیں۔ان علاقوں سے جیت کر آنے والے کانگریس کے ممبران اسمبلی اور دیگر لیڈروں کو سام دام دنڈ بھید کے فارمولہ پر کانگریس سے توڑ کر بھی اس نے کانگریس کو مفلوج کر دیا تھا۔بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی سے لے کر 2002 کے فساد کی یاد دلانے جیسے نہایت فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے تک میں بھی اس نے شرم نہیں محسوس کی چونکہ وہ گجرات کے سماج کی نفسیات سمجھ چکی ہے، اس لیے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ موربی کے المیہ کے باوجود اس کی انتخابی قسمت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اس کے برخلاف اس بار لگتا تھا کہ کانگریس گجرات میں چناؤ لڑ ہی نہیں رہی ہے، صرف چناؤ لڑنے کا دکھاوا کر رہی ہے۔ جس پارٹی نے اس سے پہلے کے سبھی انتخابات میں بی جے پی کو کڑی ٹکر دی ہو اور203سے لے کر2017تک ہر چناؤ میں اس کی سیٹیں کم کرتی رہی ہو، وہ اس چناؤ کو کھیل سمجھ لے گی، یہ کیوں ہوا؟ اس کا جائزہ لینا ہوگا ۔
ہو سکتا ہے اس بار بھی کانگریس گجرات نہ جیت سکتی لیکن ذلت آمیز شکست کے داغ سے بچ سکتی تھی جو اس کے نا اہل لیڈروں نے اس کے ماتھے پر لگا دیا ہے۔ صدر کانگریس کھڑگے جی کو اس شکست کو ٹسٹ کیس سمجھ کر تدارکی اقدام کرنے ہوں گے۔عام آدمی پارٹی شروع میں اچھی ٹکر دیتی ہوئی دکھائی دی لیکن پولنگ آتے آتے اس کا بھی پیک اپ ہوگیا تھا یعنی گجرات بی جے پی کے لیے اپوزیشن کی جانب سے واک اوور تھا۔ یہ واضح حقیقت ہے ۔بی جے پی اگر گجرات جیتی ہے تو کانگریس نے اس سے ہماچل پردیش چھین بھی لیا، اگر مودی میجک گجرات میں چلا تو ہماچل پردیش میں کیوں نہیں چلا اور وہ اپنی حکومت کیوں نہیں بچا پائی؟ یہ سوال تو فطری طور سے اٹھے گا ہی، وہیں یہ سوال بھی فطری طور سے اٹھے گا کہ جس سنجیدگی سے کانگریس نے ہماچل پردیش کا چناؤ لڑا، وہ سنجیدگی گجرات میں کیوں نہیں دکھائی دی۔ پرینکا گاندھی نے ہماچل پردیش میں لگاتار محنت کی، درجنوں ریلیوں کو خطاب کیا لیکن ہماچل پردیش میں پولنگ ہوجانے کے بعد گجرات کی طرف کیوں جھانکا بھی نہیں۔کیا وہ ہماچل میں کامیابی کا کریڈٹ لے کر اترپردیش کی شکست کا داغ دھونا چاہتی تھیں، اسی لیے گجرات نہیں گئیں کہ پھر شکست کا داغ نہ لگ جائے؟ کیا ایسے سیاست ہوتی ہے، کیا پارٹی اس طرح کی طالع آزمائی کی متحمل ہوسکتی ہے ؟
چھتیس گڑھ، راجستھان اور اڈیشہ میں اسمبلی کے ضمنی انتخاب اور اتر پردیش میں مین پوری میں پارلیمنٹ کے ضمنی اور کھتولی اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اتر پردیش کے رام پور میں جو کچھ ہوا، اسے الیکشن کے نام پر الیکشن کی آبرو ریزی جس کے لیے ہندی میں چیر ہرن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہنا بھی اس لاقانونیت کو واضح نہیں کر سکتا جو رام پور میں ہوئی اور جس کا واحد مقصد اعظم خان جیسے قدآور مسلم لیڈر کی سیاسی زندگی ختم کرنا ہے۔ عدالت اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں نے اپنا فرض منصبی ایمانداری اور غیر جانب داری سے نہیں ادا کیا۔ انتظامیہ اور پولیس کی تو بات ہی دیگر ہے وہاں تو کوئی اس کی امید کرتا بھی نہیں۔رام پور میں پولنگ کے دن کے جو ویڈیو سامنے آئے ہیں، وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ پولیس کا پورا عتاب مسلم محلوں پر تھا جہاں تنگ گلیوں اور گھروں میں گھس گھس کر بربریت کی گئی۔ ہر ممکن طریقہ سے مسلم ووٹروں کو ووٹ دینے سے روکا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار وہاں سے غیرمسلم امید وار کامیاب ہوا۔ چناؤ کا نتیجہ آنے کے دوسرے دن انڈین ایکسپریس نے صفحہ اول پر تفصیل سے بتایا کہ کس طرح پولیس نے وہاں مسلم ووٹروں کو روکا اور انہیں حق رائے دیہی سے محروم کیا جس کی وجہ سے ہندو اکثریتی محلوں میں زیادہ ووٹ پڑے اور مسلم اکثریتی محلوں میں کم۔ کیندریہ چناؤ آیوگ(سینٹرل الیکشن کمیشن)کو ہندی میں یونہی کیچوا(کے چو آ) نہیں کہا جانے لگا ہے کیوںکہ بی جے پی کے لیڈران اور کارکن چاہے جتنی لاقانونیت کریں، کھلے عام فرقہ وارانہ کارڈ کھیلیں، انتخابی دھاندلی کریں، وہ ان کی طرف سے آنکھ بند کیے رہتا ہے۔رام پور میں ہوئی اس دھاندلی کے خلاف کانگریس کے قومی ترجمان اور سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل سلیمان محمد خان نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی اپیل دائر کی ہے جس پر سماعت کی منظوری کا انتظار ہے۔ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ خود سماج وادی پارٹی نے رام پور کے واقعہ کا اتنا سخت نوٹس کیوں نہیں لیا اور محض زبانی جمع خرچ تک خود کو محدود کیوں رکھا ہے، نہ سڑکوں پر کوئی احتجاج ہوا، نہ الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی گئی اور نہ ہی کوئی قانونی قدم اٹھایا گیا ہے۔انتخابی مہم میں بھی کوئی بڑا لیڈر تو کیا رامپور سے باہر کے کارکن بھی شاید نہیں گئے تھے۔’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘ اگر الیکشن رام پور کے انداز میں ہی ہونے ہیں تو الیکشن کرانے پر خرچ کی جانے والی توانائی اور وسائل کو برباد کرنے سے کیا فائدہ، سیدھے من پسند امیدوار کو کامیابی کا سرٹیفکیٹ دے دیا جانا چاہیے ۔
ایک بات تو بالکل صاف ہے، بھلے ہی میڈیا اسے نہ بتائے یا دکھائے، وہ یہ کہ بی جے پی کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں شکست کے علاوہ راجستھان اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں اسے شکست ہوئی ہے اور مودی میجک کا غبارہ پھوٹ چکا ہے لیکن اسے شکست دینے کے لیے لڑنے کا جذبہ، حکمت عملی اور وسائل ضروری ہیں، بدنصیبی سے خاص حزب اختلاف کانگریس میں اسی کا فقدان ہے۔ کھڑگے جی کو اس جانب فوری توجہ دینا چاہیے۔ 2023میں ان تمام ریاستوں میں اسمبلی کا الیکشن ہونے والا ہے جہاں کانگریس بی جے پی کو سخت ٹکر دے کر حکومت بھی بنا سکتی ہے لیکن اگر اسے گجرات کے طرز پر ہی لڑنا ہے تو اسے چاہیے کہ واک اوور دے دے، وسائل اور عزت تو بچی رہے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS