محمد فاروق اعظمی
مختلف موضوعات پر جاری ہونے والے عالمی سروے اور جائزے میں گزشتہ چند برسوں سے ہندوستان کا مقام روز بروز نیچے کی طرف آرہا ہے۔ جمہوریت ہو یا اظہار رائے کی آزادی، انسانی حقوق ہوں یا مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا معاملہ ہویا پھر غربت اور فاقہ کشی کی بابت جائزہ ہو، ان سب میں ہندوستان کا مقام پہلے سے مزید ابتر ہورہا ہے۔ عالمی عدم مساوات کی رپورٹ 2022میں بھی ہندوستان کو دنیا کے سب سے زیادہ غیر مساوی ممالک میںسے ایک بتایا گیا ہے۔اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت کے ساتھ ساتھ متمول اشرافیہ کی دولت میں ہمالیائی اضافہ ہوچکا ہے۔ دنیا کے معروف ماہر اقتصادیات تھامس پیکیٹی اورا ن کی ٹیم کی جانب سے پیش کی گئی اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ہندوستان کے ایک فیصد امیر ترین افراد کا 2021 میں کل قومی آمدنی کا 22 فیصد حصہ تھا، جب کہ سب سے اوپر 10 فیصد کا حصہ قومی آمدنی کا 57 فیصد تھا۔ ہمارے ملک کی نصف آبادی صرف 13.1 فیصد کماتی ہے۔ ہندوستان کی بالغ آبادی کی اوسط قومی آمدنی 2,04,200 روپے ہے۔ کل آبادی کی نچلی 50فیصد 53,610روپے سالانہ کماتی ہے جب کہ اوپر کی 10فیصد اس کے 20گنا زیادہ 11,66,520 روپے یومیہ کماتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں عوامی دولت کا حصہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔لبرلائزیشن کے بعد سے ہی ملک میں نجی دولت میں تیزی سے اضافہ دیکھاگیا ہے۔1980میں نجی دولت میں اضافہ کی شرح 290فیصد تھی جو 2020میں بڑھ کر560فیصد ہوگئی ہے۔اس دوران ملک کی اکثریت کی آمدنی کم ہوتے ہوتے اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ وہ بڑی مشکلوں سے اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں اوراس کیلئے بھی انہیں ناقابل برداشت جدو جہد سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
سرمایہ دار طبقہ نے ملک کی ورک فورس کو بھی کئی ایک خانے میں بانٹ رکھاہے۔ ان میں مردو خواتین کی تفریق، ہندو مسلمان کی تفریق ، ہندوئو ں کی مختلف برادریوں کی تفریق، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے ہندوستان کے ورک فورس کی آمدنی بھی عدم مساوات کے ایک بڑے خلیج کا سامنا کررہی ہے۔ عالمی سطح پر لیبر مارکیٹ میں خواتین کی شرکت کے معاملے میں اسی سال نومبر کے مہینہ میں ایک رپورٹ آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 2011 سے 2019 کے درمیان دیہی علاقوں میں کام کی جگہوں پر خواتین کی شرکت 35.8 فیصد سے کم ہو کر 26.4 فیصد رہ گئی۔ عورتوں کو ملنے والی اجرت مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیبر مارکیٹ میں صنفی امتیاز اتنا زیادہ ہے کہ بہت ساری ملازمتیں اور پیشے مردوں کیلئے مخصوص ہیں۔ تمام تر قانونی دفعات اور سماجی بیداری کی مہم کے باوجود خواتین کو جائیداد اور زمین کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں مشترکہ طور پر کل تنخواہ دار ورک فورس کا 18 سے 19 فیصد خواتین ہیںلیکن ایک عورت اپنے مرد ہم منصب کی آمدنی کا صرف 62.5 فیصد کماتی ہے۔
لیبر مارکیٹ میں اس سے کہیں زیادہ ابتر صورتحال ذات پات کی تفریق کی وجہ سے ہے۔پسماندہ برادریوں پر مشتمل ملک کی اکثریت کو زمین،جائیداد اور اپنی محنت کے مناسب معاوضہ سے بھی محروم ہونا پڑتاہے۔مسلمانوں اورہندوئوں کی پسماندہ برادریوں میں تو یہ تفریق اور عدم مساوات بہت حدتک غیر فطری بھی محسوس ہوتی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کے 22.3 فیصد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے پاس ملک کی دولت کا 55فیصد حصہ ہے جب کہ ہندوئوں کی پسماندہ آبادی کے پاس صرف 3.7 فیصد املاک ہے۔ پسماندہ برادریوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والا ایک عام محنت کش اعلیٰ ذات کے اپنے ایک ہم منصب کے مقابلے میںصرف 55 فیصد آمدنی حاصل کر پا تا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے برخلاف نجی شعبوں میں ریزرویشن کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے معیشت میں کارپوریٹ تسلط کے بعد پیدا ہونے والی نئی ملازمتوں میں مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کا حصہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
اس خلیج کو پاٹنے اور محنت کشوں میں ہنرمندی کو فروغ دینے کیلئے سابقہ منموہن سنگھ حکومت نے کئی اسکیمیں بنائی تھیں۔ موجودہ حکومت نے ان اسکیموں کے خدوخال بدل کربڑے ہی طمطراق کے ساتھ 2015 میں اسکل انڈیا مشن شروع کیا تھا۔ اس مشن کے تحت 2022 تک 40 کروڑ لوگوں کو روزگار کے قابل ہنر کی تربیت فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اسی طرح 2016 میں پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا کا آغاز کیاگیا اور کہاگیا کہ تعمیرات، الیکٹرانکس، ہارڈویئر، فوڈ پروسیسنگ، فرنیچر، فٹنگس، دستکاری، جواہرات اور زیورات اور چمڑے کی ٹیکنالوجی سمیت تقریباً 40 تکنیکی شعبوں میں 2020 تک ایک کروڑ نوجوانوں کو ہنر مند بناکر انہیں روزگار فراہم کیاجائے گا لیکن اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں کھولے گئے 2500 مراکز میں سے سیکڑوں بند کر دیے گئے ہیںاور اس کے بجٹ کا تین چوتھائی حصہ اشتہارات کی نذر ہوگیا۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت کی طرف سے جاری کردہ عدم مساوات کے اعداد و شمار کا معیار بہت زیادہ غیر متوازن ہے جس کی وجہ سے حالیہ عدم مساوات کی تبدیلیوں کا اندازہ لگانا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہا جاتا رہا تھااور اب بھی یہی کہا جا رہاہے کہ لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے فوائد ہمارے عام آدمی کو حاصل ہوتے ہیں لیکن عدم مساوات کی یہ بھیانک رپورٹ ہماری آئینی جمہوریت میں دیے گئے مساوات کے تصور کا بھی عملی جامہ تار تار کررہی ہے۔ صرف مٹھی بھر دولت مند امرا کو اس صورتحال کا ذمہ ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔اس عدم مساوات کی ذمہ داری حکومت پر کہیں زیادہ عائد ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حکمراں طبقہ اور اداروں کی مجرمانہ کوتاہی اور ظالمانہ حد تک عدم دلچسپی کی وجہ سے ہی چند امرا کو دو لت اور جائیداد جمع کرنے کا موقع مل رہاہے اور عام لوگوں کے معیار زندگی اوران کیلئے دستیاب سہولتیں روز بروز ختم کی جارہی ہیں۔محنت کش عوام پر حکمراں طبقہ اور متمول اشرافیہ اپنا جبر مسلسل بڑھاتے جا رہے ہیں۔اس کیلئے نئے نئے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں اور ظلم کا شکنجہ مزید کسا جارہا ہے۔
حکمراں طبقہ خون چوسنے والے آجروں اور سرمایہ داروں کو مکمل تحفظ فراہم کر تے ہوئے محنت کشوں اور مزدوروں پر جبر و استحصال اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دیے ہوئے ہے۔ ایک طرف عوامی اور قومی ملکیتیں بیچی جارہی ہیں تو دوسری جانب عوام کو نگلنے کیلئے مہنگائی کے دیو کو بھی بازار میں کھلا چھوڑ دیاگیا ہے۔ بغیر کسی روک ٹوک کے ضرورت کی اشیا چار اور پانچ گنا اضافی قیمتوں پر بیچی جارہی ہیں۔ اناج اور سبزیوں کی قیمتیں عوام کی رسائی سے دور ہوگئی ہیں۔شرم ناک بات تو یہ بھی ہے کہ جان بچانے والی ادویات تک کی قیمت میں 400فیصد تک اضافہ کردیاجاتا ہے ،نجی اسپتال بغیر پیسہ کے مریض بھرتی نہیں کرتے اور لاکھوں افراد بغیر علاج ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیںاور حکومت خاموش رہتی ہے۔
اب تو ایسا لگ رہاہے کہ حکومت کا مقصد ہی سرمایہ داروں ، صنعت کاروں اور متمول اشرافیہ کے منافعوں کی ہوس کوپورا کرناہے اوراس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ تمام حدیں پارکرتے ہوئے مذہبی، قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرنے میں اسے کوئی عار نہیں جس کا مظاہرہ گزشتہ کئی برسوں سے پورا ملک دیکھ رہا ہے۔ 2021 کا پوراسال بھی یہی مظاہرہ دیکھتے گزرا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والا 2022 اس سے کچھ بہتر ہو اورنئے سال میں حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عدم مساوات کی اس بھیانک تفریق کو کم کرنے کی حکمت عملی وضع کرے۔
[email protected]
بھیانک عدم مساوات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS