ایتھوپیا کی خانہ جنگی

0
theconversation.com

ش۔ا۔ص
دریائے نیل کی وادی جن ملکوں کو سیراب اور شاداب کرتی ہے ان میں ایتھوپیا بھی شامل ہے۔ براعظم افریقہ کی دوسری سب
سے بڑی آبادی والے ملک کی سرحدیں ایری ٹیریا، جبوتی صومالیہ، جنوبی سوڈان اور سوڈان سے ملتی ہیں، یہ کثیر تہذیبی
اور کثیر مذہبی ملک ہے۔ ایک درجن سے زیادہ بڑے قبائل ہیں جن کی بود وباش ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔ مذہبی عقائد بھی
سماج کو متنوع اور رنگ برنگا بناتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر یہ ملک 80سے زائد نسلوں اور قبائل پر
مشتمل ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 33.9فیصد ہے جبکہ عیسائیوں میں آرتھو ڈوکس 43فیصد، پروٹیسٹینٹ 18فیصد ،روایتی
مقامی مذاہب کی آبادی ، ڈھائی فیصد سے زائد اور کچھ کیتھو لک اور یہودی بھی ہیں۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ دنیا میں ایتھو پیا
کو عیسائی اکثریتی ملک قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے بطور خاص سابقہ حکومتیں عیسائیوں کی آبادی بڑھا چڑھا کر
پیش کرتی ہیں جبکہ 1991کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 50فیصد کے قریب ہے۔ ایتھوپیا میں اسلام کی آمد
حضور اکرم محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت سے جوڑی جاتی ہے، کچھ صحابہ اکرام مکہ مکرمہ سے
افریقہ کے اس خطے میں آگے گئے جو آج ایتھوپیا اورایری ٹیریا کہلاتا ہے۔ ایتھو پیا کے شمالی علاقہ تگرے میں باغی افواج
نے پرچم بغاوت بلند کررکھا ہے اور یہی جنگ پورے ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلے ہوئے ہے۔ موجودہ وزیراعظم ابی احمد
نے خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے مختلف قبائل اور مسلح گروہوں میں مصالحتی کوششیں کی تھیں اور ایک افہام وتفہیم کا دور
شروع کیا تھا اور مساعی امن کی وجہ سے ان کو 2019میں نوبیل انعام برائے امن بھی دیا گیا۔
ایتھو پیا میں خانہ جنگی کی صورت حال کی وجہ سے انسانی جانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے اور بہت سے لوگ جان
بچانے کے لیے پڑوسی ملک صومالیہ اور سوڈان میں چلے گئے ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق تگرے میں باغیوں اور
ایتھوپیائی افواج کے درمیان ٹکرائو کی وجہ سے لاکھوں لوگ قحط سالی کا سامنا کررہے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کے پاس کھانے
پینے کا سامان موجود نہیں ہے ۔ عالمی ادارے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ سرکاری افواج محاصرہ کرکے تگرے میں ضروری
اشیاء پہنچنے سے روک رہی ہیں ۔
ایتھوپیا ئی افواج اور شمالی خطے تگرے میں مسلح تصادم کی وجہ سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور تقریباً 2لاکھ لوگ
بے گھر ہوگئے۔ عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پانچ لاکھ لوگوں کو فوری امداد درکار ہے۔ 4لاکھ لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر
ہیں۔ سرکاری افواج تگرے میں پیش قدمی کررہی ہیں۔ عالمی طاقتیں ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک ابی احمد پر دبائو ڈال
رہے ہیں کہ وہ تگرے میں عالمی امداد کا راستہ نہ روکیں اور انسانی جانوں کو بچانے کے لیے عالمی فلاحی اداروں کے ساتھ
تعاون کریں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مجاہدین کے سیلاب کو روکنے کے لیے خارجی مداخلت ضروری ہے۔ بین الاقوامی
اداروں کا کہنا ہے کہ کچھ حلقے اس خطے میں بحران کو طویل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ایسے افراد اور اداروں کے خلاف
پابندیاں عائد کرنا ضروری ہے جبکہ وزیر اعظم ابی احمد کی سرکار کا کہنا ہے کہ تگرے لیبریشن آرمی جنگی جرائم کی
مرتکب ہورہی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے Human Right Watchنے بھی ایری ٹیریا اور
تگرے افواج پر انسانی حقوق کی بے حرمتی اور جنگی جرائم کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
ایتھوپیا میں موجودہ خانہ جنگی کی ابتدا 2020کے اواخر میں فوج کے اڈے پر تگرے کے باغیوں کے حملہ کے بعد ہوئی
تھی۔ اس حملہ کے بعد ایتھو پیا کی حکومت نے تگرے میں جوابی حملہ کیا اور ایمرجنسی کا اعلان کردیا اور پورے خطے میں
سرکار کی طرف سے جانے والی خدمات کو روک دیا گیا اور وہاں ایتھوپیا کی پارلیمنٹ نے عبوری حکومت کے قیام کا اعلان
کردیا۔ دراصل یہ کارروائی وزیراعظم ابی احمد کی ان کوششوں کا خاتمہ تھی جس کے ذریعہ ملک کے مختلف طبقات، نسلوں
اور قبائل کے درمیان افہام وتفہیم کی شروعات کی گئی اور موجودہ وزیراعظم نے مختلف سب طبقات کو ساتھ لے کر ایک
ایتھوپین پیوپلز ریولشنری ڈیموکریٹک فرنٹ ای پی آر ڈی ایف بنا یا تھا۔ مگر علیحدگی پسند تگرے پیوپلز ریولیوشن فرنٹ نے
قومی اسٹریم میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور یہی اس تصادم اور خانہ جنگی کی بنیاد ہے۔ دراصل ابی احمد پڑوسی ملک
ایری ٹیریا کے ساتھ 20سال تک چلنے والے سرحدی تنازعہ ختم کرنے کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہوئے اور اس پیش
رفت کے لیے ان کو نوبیل انعام برائے امن دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS