مندر-مسجد تنازع پھر پہنچا عدالت

0
Image:swarajyamag

سپریم کورٹ نے سرکار سے کیاجواب طلب
نئی دہلی :سپریم کورٹ نے جمعہ کو اس عرضی پر مرکز سے جواب طلب کیاہے جس میں 1991 کے ایک قانون کے کچھ التزامات کے جواز کو چیلنج دیاگیاہے۔ 1991 کے قانون میں کسی پوجا مقام کی 15اگست 1947 کی حالت میں بدلاؤ یا کسی عبادت گاہ کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے مقدمہ درج کرانے پر روک ہے۔ عرضی دہندہ اشونی اپادھیائے کا کہنا ہے کہ یہ قانون ہندو، سکھ، بودھ اور جین طبقہ کو اپنے ان پاکیزہ مقامات پر دعویٰ کرنے سے روکتا ہے، جن کی جگہ جبراً مسجد، درگاہ یا چرچ بنا دیے گئے تھے۔ یہ نہ صرف انصاف پانے کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، بلکہ مذہبی بنیاد پر بھی تفریق ہے۔دراصل 1991 میں جب ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘بنا، اس وقت ایودھیا سے جڑا مقدمہ عدالت میں زیر التوا تھا۔ اس لیے اس مقدمہ کو مستثنیٰ رکھا گیا، لیکن کاشی-متھرا سمیت باقی سبھی مذہبی مقامات کیلئے یہ کہہ دیا گیا کہ ان کی حالت نہیں بدل سکتی۔ عرضی دہندہ اشونی اپادھیائے کی دلیل ہے کہ یہ انصاف کا راستہ بند کرنے جیسا ہے۔ پارلیمنٹ نے اس طرح قانون بنا کر غیر ملکی حملہ آوروں کی طرف سے کی گئی ناانصافی کو منظوری دی ہے۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 25 لوگوں کو اپنی مذہبی عقیدت پر عمل کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ پارلیمنٹ اس میں رخنہ بننے والا کوئی قانون پاس نہیں کر سکتی۔ عرضی دہندہ کی دلیل ہے کہ تیرتھ مقامات کے مینجمنٹ سے جڑا معاملہ ریاستی فہرست کا سبجیکٹ ہے۔ اگر قانون بنانے کے پیچھے نظام قانون کی دلیل دی جائے تو یہ سبجیکٹ بھی ریاستی فہرست کا ہے۔ اس لیے پارلیمنٹ نے اس مسئلہ پر قانون بنا کر غیر آئینی کام کیا ہے۔ یہ قانون رد کیا جانا چاہیے۔جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس اے ایس بوپنا کی بنچ نے بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے کی عرضی پر مرکز کو نوٹس جاری کیا۔ اس عرضی میں اپاسنا استھل (خصوصی انتظام) قانون، 1991کی دفعہ 2,3,4 کو رد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ عرضی دہندہ کی طرف سے سینئر وکیل سبرامنیم عدالت میں پیش ہوئے۔قابل ذکر ہے کہ پجاری مہاسنگھ کی عرضی ابھی آگے بڑھی بھی نہیں اور اشونی اپادھیائے کی عرضی پر سپریم کورٹ نے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS